جاگ ، عدل و انصاف، جاگ۔ آخری قسط

ہفتہ 20 دسمبر 2014

Abdul Raheem Anjaan

عبدالرحیم انجان

”پاگل ہے،تھوڑی سی پاگل ،نہیں زیادہ پاگل ہے “ فلم ”کبھی خوشی کبھی غم“ میں شاہ رخ کے اس ڈائیلاگ کو ، جو اس نے فلم کی شوخ و شنگ ، چلبلے ا ور دوسروں کا مذاق اڑانے کے کردار والی ہیروئین کاجل کے لئے بولا تھا، چند قریبی دوست میرے ساتھ منسوب کرتے ہیں، اُن کا کہنا ہے۔میں پاکستان کے معاملے میں پاگل پن کی حد پاگل اور جذباتی ہوں۔


سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ صرف میں ہی نہیں ، بیرون ملک سبھی پاکستانی اپنے وطن عزیز کے لئے خاصے جذباتی ہیں اور یہ لوگ ہمارے لیڈران کرام کی طرح حب الوطنی کے محض نعرے ہی نہیں لگاتے ، پاکستان کے ساتھ بے لوث محبت کا عملی مظاہرہ بھی کرتے ہیں۔ پاکستان میں زر ِمبادلہ کی آمدن کا سب سے بڑا ذریعہ بیرون ملک پاکستانی ہیں۔بیرون ملک پاکستانی جو رقوم اپنے ماں باپ اور بہن بھائیوں کو
بھیجتے ہیں ،اُن کے علاوہ ایسے صاحب ِ حیثیت پاکستانی بھی کثرت میں ہیں جو کماتے باہر ہیں لیکن اپنی بچت پاکستانی بنکوں میں رکھتے ہیں۔

(جاری ہے)


صرف ہمارے ہاں ہی نہیں،آج کل سیاست میں جھوٹ بولنا عام سی بات ہے۔لیکن ہمارے ہاں سیاست کو جھوٹ بنا دیا گیا ہے۔میاں محمد نواز شریف صاحب کی سیاست میں اُن کے بے شمار بیان حقیقت کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتے۔ اُنہیں اکثر یہ فرماتے سنا گیا ہے ۔” ہم تو پاکستان کو ایشیا کا ٹائیگر بنانے کے سفر پر گامزن تھے ، ملک بڑی تیزی کے ساتھ ترقی کر رہا تھا،لیکن مشرف نے پاکستان کی ترقی کا پہیہ روک دیا تھا“ جبکہ حقیقت حال یہ ہے کہ میاں صاحب کے دوسرے دور ِ اقتدار میں پاکستان بنک کرپسی کے دھانے پر پہنچ گیا تھا۔

جس سے بچنے کے لئے میاں صاحب نے نہ صرف فارن کرنسی اکاوٴنٹ سیز کر دئے تھے اورقرض اتارو ، ملک سنوارو کے نام سے پاکستانیوں سے قرض ِ حسنہ کے لئے اپیل بھی کی تھی، جس اپیل کے جواب میں اُنہیں کتنے پیسے وصول ہوئے ؟ اور وہ پیسے کہاں گئے ؟ کے بارے میں کسی کو کو ئی علم نہیں۔البتہ میں ٹورونٹو میں ایک ایسے نوجوان کو جانتا ہوں ، جس نے اس اپیل کے جواب میں کمال حب الوطنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک ملین ڈالڑ دیا تھا اور اپنے گھر میں میا ں محمد نواز شریف کے ساتھ ایک فوٹو بھی لگا رکھی تھی۔

جسے وہ اپنے جاننے والوں کو بڑے فخر سے دکھایا کرتے تھے۔ نہ جانے وہ اس فوٹو پر اب بھی فخر محسوس کرتے ہیں یا انہوں نے وہ فوٹو اتار کر گھر کے کسی تاریک کونے میں رکھ چھوڑی ہے۔بہر کیف ، یہ تفصیل لکھنے سے مراد یہ بتانا مقصود ہے کہ پاکستانیوں میں ایسے پاکستانی بھی ہیں جو باہر سے کما کر پاکستان لے جاتے ہیں اور ان کے مقابلے میں پاکستان کو ایشیا کا ٹائیگر بنانے کے داعی ایسے لیڈر بھی ہیں جو پاکستان کو لوٹ کھسوٹ کر باہر لے گئے ہیں اور یہ ایک یا دو کی کہانی نہیں ،ہمارے سبھی لیڈران کرام کی کہانی ہے۔

صرف این۔آر۔او سے مستفید ہونے والے لیڈران کرام نے قوم کو نو کھرب بتیس ارب روپئے کا نقصان پہنچایا ہے۔ہمارے لیڈران ِ قوم نے غریب قوم کو بڑی بے دردی سے لوٹنے کی وہ شرمناک کہانی رقم کی ہے، جس کہانی کے عبرت ناک انجام کے خوف نے سبھی لیڈران کرام کو اکیلے عمران خان کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بنا کر کھڑا کر دیا ہے۔
ویسے میاں برادران کو کسی عبرت ناک انجام پر پہنچانا بہت مشکل ہے۔

میں اکثر لکھا کرتا ہوں” چوری دا کپڑا، ڈانگا دے گز“ یعنی اگر کپڑا چوری کا ہو تو پھر اس میں سے کسی کو دیتے ہوئے چور پیمائش کی پروا نہیں کرتا۔بالکل اسی طرح لوٹ کھسوٹ
کے سرمائے میں سے میاں برادران بھی اُن اداروں اور صاحب ِ اختیار لوگوں پر بڑی فراخدلی سے خرچ کرتے ہیں، جو انہیں کسی بھی برے وقت میں دفاع دے سکتے ہوں۔میرے پچھلے کالم میں میاں صاحب کی نا اہلی کے مقدمے کے فیصلے کے حوالے سے ایک قاری نے ایک مختصر سا ای۔

میل بھیجا ہے۔جس کا ذکر کرتے ہوئے خوف محسوس ہو رہا ہے کہ کہیں توہین عدالت کے شکنجے میں نہ پھنس جاوٴں ، لیکن یہ سوچ کر لکھنے کی ہمت کر رہا ہوں کہ جب ہمارے معزز عادلوں کو فیصلے سناتے ہوئے عدل و انصاف کی تذلیل کا احساس نہیں ہوتا تو پھر ہمیں عدلیہ کے کسی فیصلے پر بات کرتے ہوئے خوف کس بات کا ؟ لاہور سے ایک قاری نے لکھا ہے۔جج صاحب نے فیصلہ دیا ہے کہ خلفائے راشدین اور ان کے اصحابہ ِ کرام کے بعد تو کوئی بھی صادق اور امین نہیں ہے۔

جس شخص ( جنرل ضیا الحق ) نے آئین میں صادق اور امین کے لئے ۶۲۔۶۳ کی شِک داخل کی ہے، وہ خود کتنا صادق و امین تھا۔وغیرہ وغیرہ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ جھوٹ صرف ان ہی معاشروں یا حکومتوں میں بولا جاتا ہے۔جہاں جھوٹ بولنے پر کوئی سزا نہیں دی جاتی۔ورنہ امریکی صدر نکسن کی حکومت جھوٹ بولنے پر ہی گئی تھی۔فرق اتنا ہے کہ وہ مسلمان نہیں تھا اور الحمد اللہ مسلمان ہیں،جنہوں نے چار سو اسلام کا نام روشن کر رکھا ہے۔


دوسری بات یہ کہ اگر جنرل محمد ضیا الحق خود صادق و امین نہیں تھے اور محض ان کے کردار کی وجہ سے ۶۲۔۶۳ کی شِک قابل عمل نہیں ہے تو پھر اسے آئین سے نکال کر لیڈران کرام کو ’ کھلا کھاوٴ ، ننگے نہاوٴ “ یعنی جھوٹ بولنے کی کھلی چھٹی کیوں نہیں دے دی جاتی ۔
تیسری بات یہ کہ خلفائے راشدین کے بعد کون جھوٹ نہیں بولتا ۔کے جواذ سے ایک جھوٹے آدمی کو چھوڑ دینا تو بالکل ایسے ہے۔

جیسے اگر کوئی لائسنس کے بغیر ڈرائیو کرتا ہوا پکڑا جائے تو وہ یہ کہہ کر چھوٹ جائے کہ جناب والا شہر میں کئی دوسرے لوگ بھی بغیر لائسنس کے گاڑی چلا رہے ہیں۔ الغرض یہ فیصلہ کسی بھی لہاز سے عدل و انصاف کی کسوٹی پر کھرا ثابت نہیں ہوتا۔
جیسا کہ لکھ ہی چکا ہوں کہ ہمارے ہاں سیاست کو جھوٹ بنا دیاق گیا ہے۔ مجھے کسی کا نام لینے کی ضرورت نہیں، سب جانتے ہیں بے سرو پا ہانکنے والوں کی ڈگریاں کن کن کے پاس ہیں؟
لاہور کے جلسے میں محترمہ ثنا مرزا کے ساتھ تحریک انصاف کے جیالوں کی زیادتی شرمناک ہے۔

جس پر جتنا بھی افسوس کیا جائے وہ کم ہے۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ ”جیو ٹی۔وی “ اور ” جنگ “اخبار کا کردار بھی خاصا توجہ طلب ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے دنیا میں تین چیزوں کو اپنی پسندیدہ کہا ہے۔نماز ، خوشبو اور عورت۔ عورت کو خوشبو کے مقابل کھڑا کیا ہے۔ثنا مرزا نہ صرف ایک سنیئر صحافی ہیں، ایک عورت بھی ہیں ، انہیں اپنے عورت ہونے کے قابل احترام اعزاز کی حفاظت کرنی چاہیے۔

میر شکیل الرحمن کی صحافت کا حصہ نہیں بننا چاہیے۔ عمران خان پر” جلاوٴ ، گھراوٴ اور توڑ پھوڑ “ کا الزام صحافتی غنڈہ گردی ہے اور یہ غنڈہ گردی جیو گروپ ایک مدت سے کر رہا ہے۔
صھافت کیمرے کی آنکھ ہے،جس کے اپنے جذبات نہیں ہوتے،ہمارے ہاں صحافت کیمرے کی آنکھ تو کبھی نہیں بن سکی۔ لیکن صحافی اپنے دامن تار تار پر نظر مارنے کے لئے تیار نہیں ہیں اور اپنی زیادتیوں کے جواب میں کسی چھوٹی سی زیادتی پر رائی کا پہاڑ بنا کر آسماں سر پر اٹھا لیتے ہیں۔

پاکستان میں ایسا احتجاج کب اور کہاں ہوا ہے۔ جس میں ٹائر نہیں جلائے گئے ؟
سانحہ پشاور کے بعد عمران خان نے دہشت گردی کے خلاف حکومت کے ساتھ یکجہتی کے اظہار کے لئے اپنے احتجاج کو ملتوی کرنے کا اعلان کر کے سبھی پاکستانیوں کے دل جیت لئے ہیں۔ غیر جانب دار صحافیوں کی اکثریت نے ان کے اس اقدام کی بہت تعریف کی ہے۔لیکن ایک ایسے صحافی بھی ہیں، جن کے ماتھے پر عمران خان کے ساتھ اللہ واسطے کے بیر کی شرمناک پرچی ایک مدت سے لگی ہوئی ہے۔

فرماتے ہیں۔”میں عمران خان کے اعلان کو کوئی بڑا واقعہ نہیں مانتا،وہ اگر یہ نہ کرتے تو اور کیا کرتے؟
جناب والا ! عمران خان وہی کرتے جو کچھ چار ماہ اور کچھ دن سے کرتے آ رہے تھے۔
ایک اور صحافی جو اپنے پروگرام کا آ غاز رسول اللہ ﷺ پر لاکھوں درود بھیج کر کرتے ہیں۔ وہ سانحہ ِ ماڈل ٹاوٴں کے قاتلوں اور عمران خان پر دہشت گردی کے الزامات کو ایک ہی سطح کے جرائم میں گردانتے ہیں۔


میں نے اگر پہلی قسط کے آ خر میں باقی آئندہ نہ لکھا ہوتا تو میں یہ کالم بالکل نہ لکھتا ،نہ ہی لکھنے کا موڈ بن رہا تھا، موڈ بنے بھی کیسے ؟ کسی مرے ہوئے جانور پر لاکھ بار بھی تکبیر پڑھ لی جائے تو وہ حلال تو نہیں ہو جاتا۔ ِ ساحل ِ سمندر پر لکیریں کھینچنے والی بات ہے۔
ہم مسلمانوں کی تاریخ دن بدن شرمناک سانحات سے بھری جاتی ہے۔تازہ تریں سانحہ پشاور ہے ۔

جس پر جتنا افسوس کیا وہ کم ہے اور جس کے بعد طالبان پر جتنی بھی لعنت بھیجی جائے وہ بھی کم ہے۔ہزار بار لعنت ایسے مسلمانوں پر جنہیں قرآن پاک میں احکامات خدا وندی کی پروا ہے اور نہ ہی خوف خدا ہے۔
ایک سو بتیس ہنستے مسکراتے اور جگمگاتے ستارے ، جنہوں نے مستقبل میں مائہ تمام بن کر قوم کو روشنی دینی تھی۔بر بریت کے اندھیروں میں ڈوب گئے۔


اس سانحہ نے دل و دماغ کو بالکل مفلوج کر کے رکھ چھوڑا ہے، لکھنے کے لئے سوچتا بہت کچھ ہوں، لیکن لکھ کچھ بھی نہیں پا رہا۔ سید مظفر حسین برنی کُلّیات میکا تیب ِ اقبال “ کے مقدمے میں لکھتے ہیں۔” اسلوب یا اسٹائل کے بارے میں ڈاکٹر بوفان ۱۷۰۷ ء ء ۔۱۷۸۸ ء ء نے کہا تھا۔ ”اسلوب خود انسان ہے۔یعنی اس میں انسان کی چھپی ہوئی شخصیت اور اُس کے ذہن کو پڑھا جا سکتا ہے ۔

“ بس تو ڈاکٹر بوفان کی اس بات نے بھی ڈرا دیا ہے کہ اپنے کسی دشمن کو گالیاں نکال لینے سے مسائل حل نہیں ہو جایا کرتے۔پاکستان کے حالات نے میری طبعیت میں اچھا خا صا زہر بھر دیا ہے۔ ایسی کیفیت میں صرف چند باتیں مزید لکھ کر اس نیت کے ساتھ کالم بند کر رہا ہوں کہ میں کچھ عرصے کے لئے کالم نہیں لکھوں گا۔
(1) طالبان کا لیڈر فضل اللہ یا خبیث کا جو بھی نام ہے، کون ہے کیا ہم اتنا بھی پتا نہیں لگا سکتے کہ اس خبیث کی فیملی کہاں ہے ؟تا کہ اس خبیث کو بھی اس درد سے آشنا کیا جا سکے جو رنج و غم اور درد اس نے ہماری ساری قوم کو دیا ہے۔


(2) مذکورہ دسانحہ کی تاریخ 16 دسمبر کو اور اس بات کو بھی ذہن میں رکھا جائے کہ افغانستان میں دہشت گردی کے کیمپ کون چلا رہا ہے؟ ہمیں دنیا کو یہ بتانا چاہیے کہ کہ اس شرم ناک بربریت کے پیچھے کس کے ہاتھ کار فرما ہیں؟ ہمارے جو لیڈر یہ کہتے ہیں کہ مجھے مینڈیٹ ہی انڈیا کے ساتھ دوستی کے لئے دیا گیا ہے۔ یہ ایک شرمناک جھوٹ ہے۔پاکستان کے عوام مدت ہوئی کہ ” بغل میں چھری اور مُنہ میں رام رام “ انڈیا کی پالیسی سمجھ چکے ہوئے ہیں اور اتنے بے غیرت نہیں ہیں کہ کسی کو بھی انڈیا کے ساتھ دوستی کے لئے مینڈیٹ دیں۔

اس کے علاوہ چرائے ہوئے مینڈیت کی کہانی بھی سب کے سامنے آ چکی ہے۔سعد رفیق کے پانچ حلقوں سے جو کچھ برآماد ہوا ہے۔ریلوے میں غیر قانونی اسلحے کی اسمگلنگ کا دو صحافیوں نے خود کو خطرے میں ڈال کر جو کار نامہ انجام دیا ہے۔کسی عدل و انصاف والے ملک میں اس وقت تک سعد رفیق اپنے انجام سے بغلگیر ہو چکا ہوتا۔
(3) طالبان پر قابو پانے کے لئے ہمیں اپنے دینی مدارس کی بڑی کڑی نگرانی کرنا ہو گی۔

بلکہ انہیں بند کر کے دینی تعلیم سرکاری اسکولوں دی جانی چاہیے۔دینی مدرسے نہ صرف فرقہ واریت کی آگ بڑھکا رہے ہیں۔ان پر طالبان کے لئے نرم گوشہ رکھنے کا الزام بھی ہے۔ اسلام میں داڑھی ہے اور بڑی عزت و تکریم کا مقام رکھتی ہے۔لیکن داڑھی میں اسلام نہیں ہے ۔ مولانا فضل الرحمن اور مولانا اشرفی جیسے شرابی کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔
(4)ہماری پولیس ہمارے بجٹ پر بوجھ کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔

مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے، کیا کسی پولیس والے سے یہ پوچھا جا سکتا ہے کہ یہ لوگ اتنے سارے اسلحے کے ساتھ شہر میں کیسے داخل ہوئے ہیں ؟ہماری سیاسی پارٹیوں نے اپنے اپنے صوبے میں پولیس فورس میں رسوائے زمانہ غنڈے اور جرائم پیشہ مجرموں کو بھرتی کر کے پولیس کو غنڈہ فورس میں بدل دیا ہے۔پاکستان میں پولیس کے محکمے کو ختم کر کے ان کا بجٹ ملٹری پولیس کے حوالے کر دیا جائے کہ وہ عوام الناس کی پروٹیکشن کی ذمہ داری سنبھالتے ہوئے ایک ملٹری پولیس فورس تیار کرلیں۔


(5)بلدیاتی الیکشن جلد سے جلد کر اکے۔ہر علاقے میں نئے آنے جانے والے لوگوں پر نظر رکھنے کا کام کونسلر زکے حوالے کر دیا جائے۔اِس حوالے سے خیبر پختون خواہ نے مالکان ِ مکان کے لئے یہ قانون پاس کر کے بہت قابل تعریف کام کیا ہے کہ وہ ہر نئے کرایہ دار کی رپورٹ پولیس کو کیا کریں گے۔میں سمجھتا ہوں کہ یہ قانون قومی اسمبلی میں پاس کر کے سارے پاکستان پر نافذ کرنا چاہیے اور صرف قانون ہی پاس نہیں کرانا چاہیے اس پر سختی کے ساتھ عمل بھی کرانا چاہیے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :