اس ملک کو چلنے دیں !

پیر 25 اگست 2014

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

حسین شہید سہروردی پاکستان کے باکمال وزیر اعظم تھے۔وہ بیک وقت کئی خصوصیات کے مالک تھے۔بلا کے ذہین ،مقرر،پڑھے لکھے اور بادشاہوں والا مزاج،وہ دن رات کام میں جتے رہتے اور رات کو بھی نہ سوتے اور اگر دل کرتا تو کابینہ کے اجلاس میں ہی سو جاتے ۔ایک دفعہ سہروردی صاحب ملتان میں جلسہء عام سے خطاب کرنا چاہتے تھے مگر ان دنوں میڈیا میں ایک تصویر گردش کر رہی تھی جس میں سہروردی صاحب فلپائن میں ایک خاتون کے ساتھ ڈانس کر رہے تھے ،اپوزیشن نے اس تصویر کو استعمال کر کے ان کے ملتان دورے کو ہر صورت ناممکن بنانے کی کوشش کی۔

اپوزیشن نے بڑے بڑے پوسٹر چھپوا کر ملتان شہر میں لگوا دیے اور نوائے وقت نے ان کے خلاف خبریں لگانا شروع کر دیں ۔حسین شہید سہروردی نے اپنے سیکرٹری سے ملتان کی صورتحال کا جائزہ لینے کا کہا۔

(جاری ہے)

سیکرٹری نے ملتان کی مقامی انتظامیہ سے رابطہ کیا تو انتظامیہ نے زیر اعظم کو اس غلطی سے باز رہنے کا مشورہ دیا۔حسین شہید سہروردی نے سیکرٹری سے کہا ##”انتظامیہ کو کہہ دو میں کل تین بجے ملتان میں جلسے سے خطاب کروں گا۔

“ اگلے روز حسین شہید ملتان پہنچ گئے ۔لاکھوں کا مجمع ان کے خلاف سڑکو ں پر جمع تھا ،لوگ نعرے لگا رہے تھے اور وزیر اعظم کو بر ابھلا کہ رہے تھے،جیسے ہی سہروردی صاحب جلسہ گاہ پہنچے سارا مجمع خاموش ہو گیا ،سہروردی صاحب نے دو گھنٹے تقریر کی مجمع نے بڑے غور سے تقریر سنی ،وزیر اعظم کے حق میں نعرے لگائے اور جاتے ہوئے لاکھوں کا مجمع ان کے ساتھ تھا ۔

اگلے روز میڈیا نے اس جلسے کو بھرپور کوریج دی اور اسے ایک کامیاب جلسہ قراردیا۔
یہ ہے ہماری سادگی اور یہ ہے ہمارے عوام کا پاگل پن۔یہ واقعہ محض ایک واقعہ نہیں بلکہ یہ ہمارے سماجی رویے کی ایک جیتی جاگتی تصویر ہے اوریہ ہمارے سماج کا اصل رخ ہے ۔آج پاکستان اگر مسائل کے ہمالیہ سے گھرا ہوا ہے تو اس کے حکمران کم اور عوام ذیادہ ذمہ دار ہیں ۔

ہندوستان سے مسلم اقدار کے زوال کے ساتھ ساتھ ہماری قومیت کابھی جنازہ نکل گیا تھا اور بد قسمتی یہ ہے کہ ہم ابھی تک ایک قوم کے روپ میں دوبارہ اکھٹے نہیں ہو سکے ۔متحدہ قومیت کے لیئے مشترکہ مفادات کا ہونا ضروری ہے جبکہ ہمارے ہاں ہرگروہ،ہر پارٹی،ہرطبقے اور ہر جماعت کے اپنے اپنے مفادات ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہم آج تک کسی قومی ایشو پر من حیث القوم اکھٹے نہیں ہوئے۔

آخر ہم لوگوں کا مسئلہ کیا ہے ،ہم لوگ چاہتے کیا ہیں ؟ہم کسی طرح کے بھی طرز حکمرانی سے مطمئن نہیں ۔پہلے ہم جمہوریت کا راگ الاپتے ہیں اور جب جمہوریت آتی ہے تو ڈنڈے سوٹے لے کر اس کے پیچھے پڑ جاتے ہیں ۔ہم بوریا بستر باندھ کر اسلام آباد کے ریڈ زون میں بیٹھ جاتے ہیں اور جمہوریت کی میت کا انتظار کرنے لگتے ہیں ،ہم آمریت کے دروازے پر دستک دینا شروع کر دیتے ہیں ۔

آج اگر عمران خان دس پندرہ ہزار افراد لے کر ریڈ زون میں بیٹھے ہوئے نواز شریف کے استعفیٰ کا مطالبہ کر رہے ہیں تو کیا گارنٹی ہے کل کو نواز شریف عمران خان کے ساتھ یہ سلو ک نہیں کریں گے ۔ عمران خان تو صرف دس پندرہ ہزار افراد کے ساتھ ریڈ زون میں بیٹھا ہے اور میاں صاحب بڑے آسانی سے چار پانچ لاکھ بندے اسلام آباد میں اکٹھے کر لیں گے ،لاکھ دو لاکھ بندے تو میاں صاحب لاہور سے آتے ہوئے گوجرانوالہ گجرات سے اپنے ساتھ لیتے آئیں گے پھر آپ کیا کریں گے ۔

آپ یقین کریں اس ملک میں ایسی سیاسی اور مذہبی جماعتیں بھی ہیں کہ اگر یہ چاہیں تو بڑی آسانی سے اسلام آباد میں دس لاکھ بندے اکٹھے کر سکتی ہیں لیکن سوال پھر یہی ہے کہ اس لمحے آپ کیا کریں گے ؟
خدا را س ملک کو چلنے دیں ،عمران خان کو بہت اچھا موقع ملا تھا ،یہ خیبر پختونخواہ میں کچھ کر کے دکھاتے ،آج اگر مرکز میں ن لیگ کی حکومت ہے تو اس کا سارا کریڈٹ چھوٹے میاں صاحب کو جاتا ہے ،عمران خان بھی یہی کر سکتے تھے ،یہ خیبر پختونخواہ میں کچھ کر کے دکھاتے ،اپنے احتجاجی دھرنوں اور ریلیوں کی سیاست کا سارا زور سر حد کی عوام کی خدمت میں لگاتے تو شاید انہیں وزیر اعظم بننے کے لیئے یوں اسلام آباد میں رسوانہ ہو ناپڑتا ۔

اگر آج وزیر اعظم استعفیٰ دے دیتے ہیں تو اس ملک میں کچھ نہیں بچے گا ،ہر روز کو ئی نیا عمران خان کھڑا ہو گا اور اپنے مطالبات کی منظوری تک پارلیمنٹ ہاوٴس ،وزیر اعظم ہاوٴس اور ایوان صدر کا گھیرا وٴ کر کے بیٹھ جائے گا ۔ہم عجیب لو گ ہیں ،یہاں دوخاندانوں کی آپس میں لڑائی ہو تی ہے تو پورا جی ٹی روڈ بلاک کر دیا جا تا ہے ،مسئلہ دو خاندانوں کی لڑائی کا ہو تا ہے اور ساری ٹریفک بلاک کر دی جاتی ہے،یہاں کو ئی بھی کسی بھی وقت روڈ بلاک کر کے اپنی ”بدمعاشی“ کا مظاہرہ کر سکتا ہے ،یہاں کو ئی بھی کسی بھی وقت اسلام آباد میں آ کر ”اسکندر “بن سکتا ہے ۔

یہاں کو ئی بھی کسی بھی وقت آئین اور قانون میں ترمیم کا مطالبہ کر سکتا ہے ،کو ئی بھی کسی بھی وقت دس پندرہ ہزار بندے اسلام آباد میں لے آئے اور وزیر اعظم کو گھر بھیج دے ۔یہ سب کیا ہے ،کیا ایسے ملک چلا کر تے ہیں اور ہم اس سارے ڈرامے سے دنیا کو کیا پیغام دے رہے ہیں ۔لیڈر کو ن ہو تا ،لیڈر کی سب سے پہلی شرط ہی یہ ہے کہ وہ صلح جو ہو ،وہ توڑنے کی نہیں جو ڑنے کی بات کر ے ،وہ نفرتوں کے بیج نہیں بلکہ پیار اور محبت کی فصل کاشت کرے ،وہ صبر اور رضا کے ساتھ چپکے سے اپنا کام کرتا چلا جائے اور لوگوں کو اس وقت خبر ہو جب انقلاب ان کے دروازے پر دستک دے چکا ہو ،لیڈر اسٹیج کا ایکٹر نہیں عمل کا دھنی ہو تا ہے ،وہ انقلاب اور تبدیلی کے بیج بونے کے بعد چپکے سے ان کی آبیاری اور دیکھ بھال میں لگا رہتا ،اسے انقلاب اور تبدیلی کے اعلان کے لیئے ”غیر پارلیمانی “اور غیر مہذب زبان استعمال نہیں کر نی پڑتی ۔

میری کسی جماعت سے سیاسی وابستگی نہیں لیکن بخدا آپ بتائیں انقلاب اور تبدیلی کے علمبردار گزشتہ ڈیڑھ ہفتے سے جو زبان استعمال کر رہے ہیں کیا کسی لیڈر یا انقلابی کے منہ سے یہ زبان جچتی ہے ۔میں حیران ہوں ان کالم نگاروں اور دانشوروں پر جو تبدیلی اور انقلاب کے نام پر عوام کو پاگل بنا رہے ہیں ،ایک عام یا پڑھا لکھا پاکستانی اگر یہ بات کرے تو اس سے صرف نظر کیا جا سکتا ہے لیکن کالم نگار اور دانشور جو کسی بھی معاشرے کا مغز اورکریم ہوتے ہیں وہ ان دس پندرہ ہزار سے انقلاب اور تبدیلی کے لال قلعے تعمیر کرنا چاہتے ہیں توپھر دانشوری کو اپنا ماتم کر لینا چاہئے ۔


خدا را اس ملک کو چلنے دیں اوراس پر رحم کریں، اگر یہ ملک ہی نہ بچا تو کہاں کا نقلاب اور کہاں کی تبدیلی ۔خان صاحب آپ تھوڑا سا انتظار کرلیں ،آپ خیبرپختونخواہ میں عوام کو ڈیلور کریں اگلی باری یقینا آپ کی ہو گی ،تین سال بعد بد قسمت عوام کے پاس کو ئی تیسرا آپشن نہیں ہو گا ،پھر صرف آپ ہی آپ ہوں گے اور آپ کے پاس تبدیلی کے لئے یکسوئی کے پانچ سال ہوں گے مگر خدا را اس وقت اس ملک پر رحم کریں،یہ ملک بہت نازک موڑ پر کھڑا ہوا ہے ۔اور شیخ الاسلام صاحب آپ بھی اپنا یہ ”انقلابی سرکس “بند کردیں اور اپنے اصل کی طرف لوٹ آئیں ،آخر آپ نے مرنا بھی ہے اور ابھی منکر نکیر کا سامنا بھی ہونے والاہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :