اسرائیل کا قیام ،تاریخ کے آئینے میں

جمعہ 1 اگست 2014

Zabeeh Ullah Balghan

ذبیح اللہ بلگن

اہلیان فلسطین پر اسرائیل کی حالیہ بربریت کے پس منظر میں لکھے گئے میرے کالموں پر اظہار خیال کرتے ہوئے بعض دوستوں کی رائے ہے کہ مجھے اسرائیل اور فلسطین کے حوالے سے مزید لکھنا چاہئے تاکہ عام قاری کو اسرائیل اور فلسطین کے متعلق سیر حاصل معلومات میسر آسکیں ۔لہذا دوستوں کی آراء کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہاں اسرائیل کے قیام کے حوالے سے چند تاریخی حقائق حاضر خدمت ہیں۔


دراصل اسرائیل مشرق وسطی کی ایک صیہونی ریاست ہے جو سرزمین فلسطین پر قبضہ کرکے بنائی گئی ہے۔ پاکستان سمیت دنیا کے متعدد مسلم ممالک اسرائیل کو ملک تسلیم نہیں کرتے ۔آسٹروی یہودی تھیوڈور ہرستل یا تیفادار ہرستل سیاسی صیہونیت کا بانی ہے ۔ وہ بڈاپسٹ میں پیدا ہوا اور ویانا میں تعلیم پائی۔

(جاری ہے)

اس کا اصلی نام بن یامین بتایا جاتا ہے ۔ اس نے جرمن زبان میں ایک کتاب ” ڈر جوڈن شٹاٹ“ یعنی یہودی ریاست لکھی جس کا انگریزی ترجمہ اپریل 1896 میں ہوا۔

اس ریاست کے قیام کے لئے ارجنٹائن یا مشرق وسطی کا علاقہ تجویز کیا گیا تھا۔ برطانوی حکومت نے ارجنٹائن میں یہودی ریاست قائم کرنے کی سخت مخالفت کی اور اسے فلسطین میں قائم کرنے پر زور دیا۔ لارڈ بیلفور نے 1905ء میں جب وہ برطانیہ کا وزیرِ اعظم بنا تو برطانیہ میں یہودیوں کا داخلہ روکنے کے لئے ایک قانون منظور کرایا اور اْس کے بعد برطانیہ نے یہ ڈکلیئریشن منظور کی’ حکومت برطانیہ اِس کی حمائت کرتی ہے کہ فلسطین میں یہودیوں کا وطن بنایا جائے‘ ۔

اس کے بعد باسل، سوئٹزرلینڈ میں صیہونی کانگریس کااجلاس ہوا جس میں فلسطین میں خالص صیہونی ریاست بنانے کی منظوری دی گئی اور ساتھ ہی بین الاقوامی صیہونی تنظیم بنائی گئی تاکہ وہ صیہونی ریاست کا قیام یقینی بنائے ۔ اس ریاست کا جو نقشہ بنایا گیا اس میں دریائے نیل سے لے کر دریائے فرات تک کا سارا علاقہ شامل دکھایا گیا یعنی مصر کا دریائے نیل سے مشرق کا علاقہ بشمول پورٹ سعید ،مکمل فلسطین ، اردن اور لبنان، شام اور عراق کا دو تہائی علاقہ اور سعودی عرب کا ایک چوتھائی علاقہ اس میں شامل تھا۔

فلسطین میں یہودی ریاست بنانے کے لئے وہاں بڑی تعداد میں یہودی داخل کرنا مندرجہ بالا پروگرام کا اہم حصہ تھا اور اس کے لئے مسلمانوں کو فلسطین سے باہر دھکیلنا بھی ضروری قرار پایا ۔ 1895ء میں تھیوڈور ہرستل نے اپنی ڈائری میں لکھا تھا” ہم فلسطین کے غریب عوام کو فلسطین سے باہر ملازمت دلانے کا چکمہ دینے کی کوشش کریں گے اور ساتھ ہی اْن کو فلسطین میں ملازمت نہیں کرنے دیں گے“ ۔


باقی صیہونیوں نے راست اقدام کا منصوبہ بناتے ہوئے مندرجہ ذیل فیصلہ کیا: ”جونہی ہماری تعداد فلسطین میں زیادہ ہو گی ،ہم زمینوں پر قبضہ کر لیں گے ۔ ہم طاقتور ہو جائیں گے پھر ہم دریائے اْردن کے بائیں طرف کے علاقہ کی خبر لیں گے اور فلسطینیوں کو وہاں سے بھی نکال دیں گے ۔ ان کا ارادہ یہ تھا کہ جب اس طرح کافی یہودی آباد ہو جائیں گے تو اس وقت برطانیہ فلسطین میں حکومت یہودیوں کے حوالے کر دے گا“ ۔

مگر ہوا یہ کہ شروع میں کچھ فلسطینی عربوں نے اپنی زمین یہودیوں کے ہاتھ فروخت کی مگر باقی لوگوں نے ایسا نہ کیا جس کے نتیجہ میں باون سال گزرنے کے بعد 1948ء میں فلسطین کی صرف 6 فیصد زمین یہودیوں کی ملکیت تھی ۔ یہودیوں نے 1886ء سے ہی یورپ سے نقل مکانی کر کے فلسطین پہنچنا شروع کر دیا تھا جس سے 1897ء میں فلسطین میں یہودیوں کی تعداد دو ہزار سے تجاوز کر گئی تھی ۔

اْس وقت فلسطین میں مسلمان عربوں کی تعداد پانچ لاکھ سے زائد تھی۔ 1903ء تک یورپ اور روس سے ہزاروں یہودی فلسطین پہنچ گئے اور ان کی تعداد 25000 کے لگ بھگ ہوگئی ۔ 1914 تک مزید چالیس ہزار کے قریب یہودی یورپ اور روس سے فلسطین پہنچے ۔
لارڈ بیلفور نے 1905ء میں جب وہ برطانیہ کا وزیر اعظم تھا تو اِس خیال سے کہ کہیں روس میں قتل عام کی وجہ سے یہودی برطانیہ کا رْخ نہ کر لیں ۔

برطانیہ میں یہودیوں کا داخلہ روکنے کے لئے ایک قانون منظور کرایا اور پھر کمال عیاری سے متذکرہ بالا ڈیکلیریشن منظور کرائی ۔ مصر میں برطانیہ کے ہائی کمشنر ہنری میک موہن نے 1916ء میں وعدہ کیا کہ عربوں کے وہ علاقے جو سلطنت عثمانیہ میں شامل تھے آزاد کردیئے جائیں گے مگر برطانیہ نے عیاری برتتے ہوے ایک خفیہ معاہدہ "سائیکس پیکاٹ" کیا جس کی رو سے برطانیہ اور فرانس نے عربوں کے علاقہ کو اپنے مشترکہ انتظام کے تحت تقسیم کر لیا۔

چنانچہ مصر سے بدعہدی کرتے ہوے انگریزوں نے پہلی جنگ عظیم کے اختتام پر 1918ء میں فلسطین پر قبضہ کر لیا ۔ جمعیت الاقوام (لیگ آف نیشنز) نے 25 اپریل 1920 کو فلسطین پر انگریزوں کے قبضہ کو جائز قرار دے دیا ۔ برطانیہ نے مزید عیاری یہ کی کہ 1917ء میں برطانیہ کے وزیر خارجہ آرتھر بیلفور نے برطانیہ کی طرف سے لارڈ راتھ شِلڈ نامی صیہونی لیڈر کو ایک خط لکھا جس میں فلسطین میں یہودی ریاست بنانے کی یقین دہانی کرائی ۔

فلسطین میں یہودی ریاست کے قیام کا مقصد ایک صیہونی اڈا بنانا تھا جو وہاں سے فلسطینیوں کے انخلاء اور ان کی جائیدادوں پر قبضے کے بغیر پورا نہیں ہو سکتا تھا ۔ چنانچہ جوں جوں یورپ سے یہودی آتے گئے توں توں فلسطینیوں کو وہاں سے نکلنے پر مجبور کیا جاتا رہا ۔ برطانیہ نے دوسری جنگ عظیم سے ہوش سنبھلنے کے بعد 1947ء میں فلسطین کا معاملہ اقوام متحدہ کے حوالے کر دیا ۔

اس وقت تک فلسطین میں یہودیوں کی تعداد ایک تہائی ہو چکی تھی لیکن وہ فلسطین کی صرف 6 فیصد زمین کے مالک تھے ۔ اقوام متحدہ نے ایک کمیٹی بنائی جس نے سفارش کی کہ فلسطین کے ساڑھے 56 فیصد علاقہ پر صرف 6 فیصد کے مالک یہودیوں کی ریاست اسرائیل بنا دی جائے اور ساڑھے 43 فیصد علاقہ میں سے بیت المقدس کو بین الاقوامی بنا کر باقی تقریبا 40 فیصد فلسطین کو 94 فیصد فلسطین کے مالک مسلمانوں کے پاس رہنے دیا جائے ۔

29 نومبر 1947 کو جنرل اسمبلی نے 13 کے مقابلہ میں 33 ووٹوں سے اس کی منظوری دے دی۔ جیسا کہ گزشتہ کالم میں عرض کیا گیا تھا کہ اس غیر منصفانہ تقسیم کے خلاف جنرل اسمبلی کے 10 ممبر غیر حاضر رہے ۔ فلسطینیوں نے اس تجویز کو ماننے سے انکار کر دیا جبکہ صیہونیوں نے فلسطینی مسلمانوں پر تابڑ توڑ حملے شروع کر دیئے اوریہ سلسلہ ہنوز جاری ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :