انڈیا کے نئے دوست اورسازشی منصوبے

پیر 24 اگست 2015

Badshah Khan

بادشاہ خان

انڈیا نے کشمیر سمیت دیگر مسائل پر بات کرنے سے تقریبا انکار کردیا ہے ،اگرچہ باضباطہ اعلان نہیں ہوا مگر حالات اور واقعات سے ایسا لگتا ہے کہ انڈیا مذاکرات سے راہ فرار اختیار کررہا ہے ،کیونکہ اب وہ مزید پاکستانی سفارت کاروں کو میٹھی گولیاں کھلانے میں ناکام ہوگیا ہے ، اور بھارت نے انتہائی بھونڈے انداذ سے دھمکی دی کہ اگر حریت رہنماوں سے پاکستانی وفد ملاقات کرے گا تو پھر بات نہیں ہوسکتی ،دوسری جانب پاکستان بھی ڈٹ گیا ہے کہ حریت رہنماوں سے ملاقات ہوگی،اور اپنے تاریخی موقف کو دہراتے ہوئے کہا کہ کشمیر کا مسئلہ اقوانم متحدہ کے قراردادوں کی روشنی میں حل کیا جائے ،جبکہ اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ملیحہ لودھی نے اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فلسطین،کشمیر اور مشرق وسطیٰ کے تنازعات حل کرانے کے لئے مصالحتی کردار ادا کرے ،بڑے عرصے بعد پاکستان کے اس موقف کو مقبوضہ کشمیر میں حریت رہنماوں نے اور کشمیری عوام میں سراہا جارہا ہے ،اللہ کرے کہ پاکستان اپنے اس اصولی موقف پر ڈٹا رہے ،تاکہ کشمیری مسلمانوں پر جاری مظالم کا خاتمہ ہوسکے اس کے ساتھ ایک اور خبر انڈیا کی سازشوں کے حوالے سامنے آئی ہے اگر چہ اس کی تصدیق تاحال نہ ہوسکی لیکن خبر گردش میں ہے ،حالیہ دنوں میں انڈین وزیر اعظم یو اے ای کا دورہ کیا اور کئی معاہدے کئے ، اسی دوران انڈیا نے سعودی عرب کو اس شرط پر مزید تعاون دینے کا پیغام بھیجا کہ وہ پاکستان کیساتھ سرمہری کا مظاہرہ کرے اور اس سے دوری اختیار کرے تو مزید فوجی تعاون انڈیا دے سکتا ہے،جیسے سعودی اعلی حکام نے مسترد کردیا، جو کہ اچھا ہے ،جبکہ متحدہ عرب امارات نے پچھتر بلین ڈالرز کے معاہدے ہندوستان کے ساتھ کرنے کا اعلان کیا یہی نہیں بلکہ اماراتی حکومت نے چانکیہ کے پیروکار کو خوش کرنے کے لئے مندر کے لئے زمین دینے کا اعلان کیا،آخر کیوں ؟ کئی وجوہات ہیں مگر بنیادی وجہ ایک ہی ہے کہ گودار کے آباد ہونے سے دبئی کی رنگینیاں ساحل سمندر پر ڈوب جائیں گی،دوسری جانب ایران نے گذشتہ ماہ آٹھ ارب ڈالرز کی صرف چاہ بہار میں انوسٹمنٹ کرنے کی انڈیا کو پیشکش کی ہے اس منصوبے کے ذریعے انڈیا چاہ بہار کی بندرگاہ کو ریل کے ذریعے پورے ملک سے لنک کرے گا اور بندرگاہ پر تیسرا ٹرمینل بنائے گا،دوسرا سوال آخر ایران ایسا کیوں کررہا ہے؟ حالانکہ اس کے بیانات الگ ہیں اور عمل الگ؟بات صرف اتنی ہے کہ یہ دور دنیا میں مقابلے کا دور ہے اور معاشی ترقی اور اپنے مفادات کے لئے دوست بدلنا وطیرہ بن چکا ہے دنیا کمرشلز ہوچکی ہے اور اس مادی دور میں گودار اور اکنامک کوروڈور جیسے منصوبے دنیا کے لئے بڑی پریشانی کی وجہ ہے ،ان منصوبوں سے بظاہر ہمارے دوست کہلانے والے بھی بے نقاب ہوتے جارہے ہیں،
یہ بات تو واضح ہوچکی ہے کہ گوادر بندرگاہ کے فعال ہونے سے جن ممالک کا زیادہ نقصان ہونا ہے ان میں سر فہرست انڈیا ہے جس کی بندرگاہ نواسیشی پورٹ کی اہمیت کم ہوجائے گی ،اومان کی سلالاپورٹ اور دبئی پورٹ کی اہمیت کم ہوجائے گی،اس کی ایک بڑی وجہ گودار کا ڈیپ سی پورٹ ہونا بھی ہے یہاں مدر ویسل بھی ڈائریکٹ آسکتا ہے،جو کہ بہت بڑا جہاز ہوتا ہے جو دنیا کی کئی پورٹس پر لنگر انداز نہیں ہوتے باہر سمندر میں کھڑے ہوتے ہیں جس سے چار سے پانچ دن بڑھ جاتے ہیں گودار پورٹ سے ہماری گڈز کا ٹرانزٹ ٹائم بھی کم ہوجائے گا ،پاکستان کو اللہ نے گودار کی شکل میں بڑی نعمت دی ہے ،اس لئے بھی پاکستان کے دشمن بہت ہیں،کیونکہ اس پورٹ کے ذریعے ہمیں سینٹرل ایشیا ء سے جو فوائد اور منافع ملے گا اس وقت ہم سوچ بھی نہیں سکتے، روس جو کہ ماضی میں گرم پانی کی تلاش میں تھا اب گودار کی شکل میں قریب کرنے والا پورٹ ہے ،انکا مال یہاں آئے ہمارا وہاں جائیگا،اور اسی ترقی کے سفر کو ناکام بنانے کے لئے ملک کے حالات خراب کئے جارہے ہیں تاکہ یہ بندرگاہ فعال ہی نہ ہوسکے۔

(جاری ہے)


جنوبی ایشیاء اور وسطی ایشیاء دنیا کے وہ خطے بن چکے ہیں کہ جس میں ،امریکہ اور اس کے اتحادی ،جہادی گروپس،پاکستان ،چین وروس سب کے مفادات میں ٹکراو ہے،جبکہ عرب ممالک بھی اب ایسا لگتا ہے کہ الگ الگ اتحادوں میں شامل ہونے جارہے ہیں،کہ شائد اس طرح ان کی چھوٹی چھوٹی بادشاہتیں محفوظ ہو جائیں؟یہ وہ پس منظر ہے کہ جس میں عرب امارات نے امریکن لابی جس میں اس وقت انڈیا فرنٹ فوٹ پر ہے شامل ہوچکا ہے، اب اس منظر نامے میں سامنے انڈیا اور ایران ہونگے جہاں ضرورت انڈیا کی ہوگی وہاں ڈیل انڈیا کرے گا اور جہاں ایران کا اثررسوخ ہوگا وہاں سامنے ایران ہوگا اور ان کے پیچھے وہ تمام لابی ہوگی جس سے ان ممالک میں نفرت کی جاتی ہے اسی لئے امریکہ افغانستان میں ایران کے ساتھ انڈین حمائتی لابی کو مضبوط کررہا ہے،اب سوال یہ ہے کہ افغانستان میں ہندوستان کا کردار امریکہ کیوں چاہتا ہے؟ اس کے کیا مقاصد ہیں؟ اور امریکی صدر کاچند ماہ قبل یہ کہنا کہ افغانستان میں قابل اعتماد پارٹنر کی ضرورت ہے،کیا یہ افغانستان کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی نہیں؟ کیا پاکستان جس نے اس جنگ میں سب سے زیادہ قربانیاں دی وہ بے کار گئیں ؟ ایسا ہوچکا ہے ،پاکستان کو نظر انداز کیا جائے گا اگر ایسا نہیں ہوتا تو پھر واضح تقسیم نہ ہوتیہزاروں کلومیٹر دور امریکہ ہندوستان کو گلوبل پارٹنر قرار دے رہا ہے تو ہم قریبی روس،چین ومسلم ممالک کے اتحاد کو کیوں نہیں بنا سکتے ،حالانکہ ہمارے مفادات کاروبار اور مسائل تقریبا مشترکہ ہیں نیادور ہے نئے معاہدے ہیں ہمارے خارجہ پالیسی بنانے والے کب امریکہ کے علاوہ سینٹرل ایشیا کی طرف متوجہ ہونگے ، مسئلہ پھر بھی ہمارا ہے کہ ہم کہاں ؟ کس مقام پر؟ اور کس کے ساتھ؟اور کون ہمارے ساتھ؟ ہے اور وقت تیزی سے گذرتا جارہا ہے ، پاکستان کے مفادات اور ضروریات مسائل سے کسی کو غرض نہیں، ایران چاہتا ہے کہ گیس پائپ لائن شروع کی جائے، دوسری طرف ایران انڈیا کے تعاون سے چاہ بہار ر بحری بندرگاہ کو ترقی دینے کے لئے ہندستان سے معاہدہ کر چکا ہے ، گوادر بندرگارہ کو ناکا م بنانے کے لیئے دشمنان پاکستان کے ساتھ دوست نما دشمن بھی فعال ہیں، سفارت کاری کی اس جنگ میں ہماری تیاری اور لائحہ عمل کیا ہے؟وہ تو پر تول چکے ہیں اورکمان ہمارے پاس ہے ،اور چند دوست بھی ہیں بس انکے ساتھ چلنا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :