عمران خان اور امریکی بیان بازی

پیر 25 اگست 2014

Zabeeh Ullah Balghan

ذبیح اللہ بلگن

آزادی مارچ کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان نے کہا ہے کہ” امریکا پاکستان میں نواز شریف حکومت کو بچانے کی کوشش کررہا ہے۔ پاکستان کوئی مزارع نہیں ہے، امریکی دفتر خارجہ وزیر اعظم نواز شریف کی حمایت کا بیان واپس لے، نوازشریف پاک فوج اور امریکا کے پیچھے چھپ کر نہیں بچ سکتے“۔
بین الاقوامی سیاست میں دلچسپی رکھنے والے ہر سیاسی ، صحافی اور سفارتی کارکن کو تحریک انصاف کے سربراہ کے اس بیان پر حیرت سے دوچار ہونا پڑا ہے ۔

کیونکہ تیسری دنیا یعنی تھرڈ ورلڈ کنٹریز میں ببانگ دہل امریکہ کی مخالفت کرنا اور واشگاف انداز میں اسے ہدف تنقید بنانے کا واضح مقصد اپنے لیے اقتدار میں آنے کے دروازے بند کرنا ہے ۔ عام تاثر یہی ہے کہ امریکہ کی مخالفت مول لے کر اقتدار حاصل نہیں کیا جاسکتا۔

(جاری ہے)

بین الاقوامی سیاست کے داؤ پیچ سے واقفیت رکھنے والے اس حقیقت کا ادارک رکھتے ہیں کہ اکثر ممالک میں امریکی مداخلت کوئی نیا اقدام نہیں بلکہ دوسری جنگ عظیم کے بعد سے لے کر تادم تحریر امریکہ عالمی دنیا میں سیاسی اکھاڑ پچھاڑ کا موجب بنتا رہا ہے اور مختلف ممالک میں اپنی مرضی کی حکومتوں کے قیام کیلئے انتہائی اقدام سے بھی گریز پا نہیں ہوا ۔

ماضی قریب میں امریکہ اور اس کے حواریوں کی سیاسی تخریب کاری کی مثال ہمیں مصر میں دکھائی دیتی ہے جہاں محمد مرسی کی منتخب حکومت کو غیر آئینی طریقے سے ہٹا دیا گیا اور فوجی جرنیل السیسی کو ”صاحب اقتدار“ہونے دیا گیا ۔ شائد عمران خان امریکہ سے یہ استفسار کرنا چاہتے تھے کہ اگر پاکستان میں” منتخب“ حکومت کونہیں ہٹایا جا سکتا تو مصر میں غیر آئینی طریقے اور بغاوت کے زریعے منتخب حکومت کو کیونکر ہٹایا جاسکتا ہے ؟۔

ویسے بھی تحریک انصاف کی دھاندلی کے خلاف تحریک میں ابھی تک کسی غیر آئینی عنصر کو تلاش نہیں کیا جاسکا ۔ اقوام متحدہ کے چارٹرڈ آف ہیومن رائٹس میں پر امن احتجاج ہر شہری کا بنیادی اور انسانی حق قرار دیا گیا ہے توپھر کن استدلال کی بنیاد پر امریکہ اوراس کے بعض ہم خیال پاکستانی صحافی اور سیاسی زعما تحریک انصاف کی احتجاجی تحریک کو غیر آئینی قرار دے رہے ہیں ۔

ہو سکتا ہے کہ تحریک انصاف کے چیئر مین کو یہ استفسار کرنا یاد نہ رہا ہو کہ ”حضور ! پاکستان میں وزیر اعظم سے مستعفی ہونے کا مطالبہ غیر آئینی ہے تو کیا اقوام متحدہ کی موجودگی میں امریکی وزارت خارجہ کا پاکستان کی داخلی سیاست کے حوالے سے بیان بازی کرنا دستوری اور آئینی اقدام ہے؟۔
تحریک انصاف کے چیئر مین کے ذات سے ہزاوں اختلاف ہو سکتے ہیں مگر یہ تسلیم کر لیجئے کہ وہ ”ٹرینڈ میکر“ہیں اور یونیورسل سچ یہی ہے کہ لیڈر ہوتا ہی ٹرینڈ میکر ہے ۔

قائد اور لیڈر عوام کے پیچھے نہیں لگتا بلکہ وہ عوام کو اپنے پیچھے لگاتا ہے ۔ عمران خان نے یہی کیا ہے اس نے ستاسٹھ سال سے جمہوری زنجیروں سے بندھی پاکستانی عوام کو جمہوریت کی حقیقی تشریح سے آگاہ کیا ہے ۔ اس نے پاکستان میں رائج سیاسی نظام کے بدلے میں عوام کو غلام ابن غلام بننے کی ریاضت پر نقب لگائی ہے ۔وہ عوام کو یہ باور کروانے کی جدوجہد میں ہے کہ جمہوریت کے نام جلال پادشاہی کا یہ نظام اٹھارہ کروڑ عوام کا استحصال کر رہا ہے ۔

جہاں تک امریکہ کی پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا سوال ہے اس بابت تاریخ پاکستان شاہد ہے کہ روز اول سے امریکہ اس مجرمانہ طرز عمل کا حامل ہے ۔ قیام پاکستان سے لے کر ہنوز امریکہ پاکستان کے معاملات میں مداخلت اپنا جائز حق تصور کرتا ہے ۔اس بابت مجھے ایک مختصر واقعہ یاد آگیا ہے جو پاکستانی سیاست میں امریکی حکام کے مداخلت کی غمازی کرتا ہے ۔

واقعہ کچھ یوں ہے کہ ستمبر 1983کو افغان جنگ عروج پر تھی اور پاکستان فرنٹ لائن ریاست شمار ہوتا تھا۔ امریکی ڈیفنس سیکر ٹری کاسپر وین بر گر پاکستان کے دورے پر آرہا تھا ، اس کے ساتھ کچھ امریکی صحافی بھی جہاز میں سوار تھے، پاکستان میں ان دنوں ضیا الحق کے خلاف ایم آر ڈی کی تحریک زوروں پر تھی خصوصاً سندھ میں حالات کافی خراب تھے۔ امریکی ڈیفنس سیکر ٹری سے جہاز میں جب پوچھا گیا کہ ’ ایم آر ڈی کی تحریک کے ردعمل کے طور پر امریکہ کی ترجیح کیا ہو گی ؟ وین نے جواب دیا ” اس صورت میں ہمیں ضیا الحق کا متبادل تلاش کرنا نا گزیر ہو گا“یہی ضیال الحق جنہوں نے افغان جنگ میں ناقابل یقین کردار ادا کیا تھا ۔

امریکہ نے افغانستان کے سلسلے میں ان کی خدمات کو فراموش کردیا۔لیکن ان مجاہدین راہنماؤں سے رابطہ جاری رکھا جو پاکستان مخالف خیالات رکھتے تھے۔
یہ محض ایک واقعہ ہے جبکہ پاکستانی سیاست میں امریکی مداخلت کی تاریخ بہت وسیع ہے ۔جنرل ایوب خان کا مارشل لاء ،ذولفقار علی بھٹو اور جنرل یحییٰ خان کے مابین مشرقی پاکستان کے حوالے سے ہونے والی مخاصمت، مشرقی پاکستان کے معاملات میں علیحدگی پسندوں کو مالی اعانت کی فراہمی، ذولفقار علی بھٹو کے خلاف تحریک نظام مصطفیٰ کی فنڈنگ، 5جولائی کو جنرل ضیاء الحق کا مارشل لاء ، جنرل ضیاء الحق کے طیارے کو پیش آنے والافضائی حادثہ ،جنرل پرویز مشرف کی غیر آئینی حکومت کی حمائت کرنا اور سب سے بڑھ کر 2013مئی کے عام انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کی کامیابی سب ایسے اقدامات اور واقعات ہیں جن میں امریکی مداخلت کی کوئی نہ کوئی صورت تلاش کی جا سکتی ہے ۔

تحریک انصاف کے سربراہ نے اگر امریکہ کو پاکستان میں مداخلت سے باز رہنے کی تلقین کی ہے تو یہ خوش آئند ہے کہ پاکستان کے کسی سیاسی لیڈر نے بلآخر اس جرائت کا اظہار تو کیا ہے ۔ وگرنہ ہماری سیاسی جماعتیں اقتدار حاصل کرنے کیلئے اکثر امریکی حمائت کی طلبگار دکھائی دی ہیں ۔ وکی لیکس نے تو جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی اس خواہش کو بھی آشکار کر دیا تھا جس کا اظہار انہوں نے امریکی سفیر سے ملاقات میں کیا تھا ۔

اس ملاقات میں مولانا نے کہا تھا کہ آپ ہمیں اقتدار میں آنے کا موقع فراہم کریں ہم جنرل پرویز مشرف سے زیادہ آپ کی”خدمت“کر سکتے ہیں ۔ دراصل عمران خان کے دھرنے اور مطالبات سے ان سیاسی جماعتوں اور دیگر افراد کو خطرات لاحق ہیں جن کے مفادات اس فرسودہ جمہوری نظام سے وابسطہ ہیں بصورت دیگر یہ تمام مطالبات اور جدو جہد عام پاکستانی شہری کی بقا اور فلاح کا موجب ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :