ابراہیم بن ادہم اور ان جیسے یہ افراد

بدھ 23 اپریل 2014

Hafiz Zohaib Tayyab

حافظ ذوہیب طیب

رات کا آخری پہر تھا کہ آپ نے ایک شخص کو دیکھا جو ایک رجسٹر میں کچھ درج کر رہا تھا، آپ  نے اس سے دریافت کیا کہ تم کون ہو؟ جواب ملاکہ میں فرشتہ ہوں۔ سوال ہوا کہ کیا کر رہے ہو؟ جواب آیا کہ ان کے نام لکھ رہا ہوں جنہیں اللہ سے پیار ہے ، آپ  نے پوچھا اس فہرست میں کہیں میرا بھی نام ہے؟جواب ملا نہیں۔ فر مایا اس فہرست کے سب سے آخر میں میرا نام اللہ کے بندوں سے محبت کر نے والوں میں لکھ لو۔

یہ بات کہنی تھی کہ فرشتہ غائب ہو گیا۔ اگلے روز پھر اسی وقت وہ فرشتہ نظر آیا اور سوال کیا آج کیا لکھ رہے ہو ؟ جواب ملا ان لوگوں کا نام درج کر رہا ہوں جن سے اللہ پیار کر تا ہے ۔ سوال کیا اس میں میرا نام ہے ؟ جواب ملا سر فہرست آپ کا نام ہے ۔جب بھی میں نصاب میں پڑھاحضرت ابراہیم بن ادہم  کا یہ واقعہ یاد کرتا ہوں تو میری نظروں کے سامنے ڈاکٹر امجد ثاقب اور ڈاکٹر آصف محمود جاہ کے چہرے نمودار ہو جاتے ہیں ۔

(جاری ہے)

ملک عزیز کی بیوروکریسی جن کے بارے میں مشہور ہے کہ ان کے دل مخلوق خدا کی خدمت کے جذبے سے عاری ہوتے ہیں اسی گروہ کی یہ نایاب اور خوبصورت شخصیات ہمہ تن اور ہمہ وقت مخلوق خدا کی خدمت کے لئے مصروف عمل دکھائی دیتی ہیں۔غربت اور بے روزگاری کے خاتمے اور قدرتی آفات کی زد میں گھِرے مجبور و بے کس لوگوں کی معاونت کے لئے ایثار،محبت اور خدمت کے جذبے سے سر شار اپنی افسری اور دبدبے کے غرور کو ٹھوکر مارتے ہوئے کبھی خواجہ سراؤں کو نئی زندگی دینے کی جستجو میں مصروف تو کبھی بیواؤں اور مزدوروں کو کسی کے آگے دست سوال دراز کر نے سے بچانے کی اپنی سی کوشش کرتے ہوئے سود سے پاک قرضہ حسنہ دے کر ان کے چولہو ں کو جلائے رکھنے اور ان کا معیار زندگی بہتر سے بہتر بنا نے کی سعی میں مصروف رہتے ہیں۔

یہی وجہ سے کہ 2001میں صرف دس ہزار روپے سے ڈاکٹر امجد ثاقب کی زیر سر پرستی قیام میں آنے والے ادارے ”اخوت“کا بجٹ اب اربوں روپے تک جا پہنچا ہے ۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ جن غریب لوگوں کو بلا سود قرضے دئیے گئے ان کی واپسی کی شرح سو فیصد جس کا میں ذاتی شاہد ہوں ۔بلکہ ان میں سے اکثر ایسے ہیں جو اپنے پیروں پر کھڑے ہوئے اور اب اپنی کمائی سے ایک مخصوص رقم ”اخوت “ کے نام کئے ہوئے ہیں۔

اخوت یونیورسٹی کا قیام بھی ملکی تاریخ کا ایک عظیم الشان کار نامہ ہے جس کا اعزازبھی ڈاکٹر امجد ثاقب اور ان کے رفقا ء کار کو جاتا ہے جہاں غریب کا بچہ بالکل مفت ” لمزیو نیورسٹی“کی طرح کی تعلیم حاصل کر سکے گا۔
ڈاکٹر آصف محمود جاہ بھی ایک طلسماتی شخصیت کے مالک ہیں جن سے میرا تعارف ان کی کتاب ”اللہ،کعبہ اور بندہ سے ہوا جسے پڑھ کے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بندہ حرم پاک اور مسجد نبوی ﷺ میں ہی بیٹھا ہے ۔

کتاب کے ہر ورق کا مطالعہ کرتے ہوئے انسان جس کیفیت اور سرشاری کامسافر بنتا ہے اسے لفظوں میں بیان کر نا مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن ہے۔پاکستان کسٹم کے اعلیٰ افسر اور ایم ۔بی۔بی۔ایس ڈاکٹر ہونے کی وجہ سے چاہتے تو روپوں کی تجوریاں بھر لیتے، لیکن کمائی کے ان آسان نسخہ ہائے کیمیا سے بیگانے اس شخص نے خو د کو اللہ کے بندوں سے پیار کر نے کی دولت حاصل کر نے کے لئے اپنے آپ کو وقف کر رکھا ہے ۔

ڈاکٹرصاحب کی کسٹم ہیلتھ سوسائٹی بھی مخلوق خدا کے درد اور غم سے رِستے زخموں کو اپنائیت اور خلوص کے مرہم سے مند مل کر نے کے لئے سیلاب اور زلزلہ زدگان کو راشن ،پینے کے لئے صاف پانی اور رہنے کے لئے رہائش کا بندوبست کر کے دیتے ہیں۔ شہروں میں آباد غریبوں کی بستیوں میں جا کے ان کے مفت علاج معالجے کا بندوبست اِن کی اولین ترجیح ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ اقبال ٹاؤن لاہور میں واقع شفا خانے میں روزانہ سینکڑوں مریضوں کا علاج وادویات سمیت تمام ٹیسٹ بھی مفت کئے جاتے ہیں۔

میں بالخصوص یہاں متاثرین تھر کے لئے کئے گئے اقدامات کا ذکر کر نا چاہوں گا کہ ڈاکٹر صاحب ذاتی طور پر اپنی ٹیم کے ساتھ پانی کے کنوؤں کی کھدوائی، مختلف امراض میں مبتلا مریضوں کے علاج اور لوگوں کی بھوک مٹانے کے لئے راشن تقسیم کر نے کی خود نگرانی کر رہے ہیں۔ جہاں تک مجھے اطلاع ہے کہ تھر پار کر میں ڈاکٹر صاحب کی تنظیم کے علاوہ اور کوئی تنظیم اس قدر بھر پور طریقے سے کام کرتا دکھائی نہیں دے رہی ۔


قارئین محترم !قدرت کا کمال ہے کہ جب کوئی شخص مخلوق کو نفع پہنچانے کے لئے اپنی زندگی وقف کر دیتا ہے تو قدرت بھی کائنات کی ہر شے کو اس کا غلام بنا دیتی ہے ۔ پھر اُ س کو با دشاہت، وزارت، بیورو کریسیت،اور افسری کی کوئی پرواہ نہیں رہتی بالکل ابراہیم بن ادہم کی طرح جب بادشاہت کو چھوڑ کے آپ دجلہ کے ساحل میں ایک گڈری میں آباد ہو گئے تو سوال کر نے والے نے سوال کیاکہ حکومت چھوڑ کے تم نے کیا حاصل کیا؟یہ سن کر آپ نے اپنی سوئی دریا میں پھینکی تو بے شمار مچھلیاں اپنے منہ میں سونے کی ایک ایک سوئی دبائے نمودار ہوئیں۔

لیکن آپ نے فر مایاکہ مجھے تو اپنی سوئی در کار ہے۔ چنانچہ ایک مچھلی آپ کی سوئی لیکر آئی اور آپ نے سوئی لے کر اس شخص سے فر مایاکہ حکومت کو خیر باد کہہ کے اور مخلوق کی محبت کو اپنے سینے سے لگا کر ایک معمولی سے یہ شے حاصل ہوئی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ڈاکٹر امجد ثاقب اور ڈاکٹر آصف محمود جاہ نے بھی مخلوق کی خدمت کو اپنا مقصد بنا کے ایسی ہی کچھ چیزوں کا مزہ ضرور چکھا ہو گا اور سب سے بڑھ کے اور کیا بات ہے کہ ان کا نام بھی اس فہرست میں سب سے اوپر ہو گا جن سے اللہ محبت رکھتا ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :