حاضر سروس شوہر

جمعرات 23 اپریل 2015

Jahid Ahmad

جاہد احمد

خدانخواستہ محترمہ مریم نواز کہیں پنجاب کی صوبائی حکومت کی جانب سے سڑک چھاپ بچوں کے حقوق کی آگاہی کے حوالے سے صوبائی سفیر کی طرز کے کسی عہدے پر نامزد کر دی جاتیں تو پاکستان تحریک انصاف کس حد تک سینہ کوبی کرتی اور آہ و بکا مچاتی یہ تصور کرنا مشکل بات نہیں!اس لئے تصور کیجئے اور دل ہی دل میں مسکرا کر بات وہیں دبا دیجئے گا۔ کیونکہ مسکراہٹ دل سے بڑھ کر ہونٹوں پر پھیلی اورآپ کی بیگم کی نظر کی زد میں آئی تو یقینا سوال تیر کی طرح اڑتا چلا آئے گا کہ کیوں صاحب کس کو یاد کر کے مسکرائے جاتے ہیں؟
بیگم خان کی خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے سڑک چھاپ بچوں کے حقوق کی آگاہی کے حوالے سے صوبائی سفیرکے طور پر نامزدگی اور سال سوا سال پہلے تک مریم نواز صاحبہ کی بطور چیر مین یوتھ لون سکیم تقرری پر خان صاحب کی شعلہ بیانیوں و’ نیپوٹسم‘ کے نعروں میں نظر آنے والا عملی تضاد صرف اتنا ثابت کرتا ہے کہ اب خان صاحب کی حیثیت سیاسی قائد کے ساتھ ساتھ دیگر شادی شدہ حضرات کی طرح ایک عدد حاضر سروس شوہر کی بھی ہے اوریہ قیاس بھی مشکل نہیں کہ بیگم صاحبہ کے سامنے ان کی اتنی ہی چلتی ہو گی جتنی تاریخ کے بڑے بڑے سورماؤں سمیت کسی بھی قسم کے شوہروں کی اپنی بیگمات کے سامنے چلتی رہی ہے!بلاشبہ شادی شدہ افراد کے لئے یہ خبرمسکراہٹ کا سبب ہے اور بڑی بڑی باتیں بھگارنے والے غیر شادی شدہ مَردوں کے لئے باعثِ عبرت۔

(جاری ہے)


ریحام خان صاحبہ کی مذکورہ صوبائی سفیرکے طور پر تقرری کیا اب خان صاحب کی مرتب کردہ ڈکشنری میں ’نیپوٹسم‘ اور لغت کے مطابق ’اقربا پروری‘ کے معنوں پر پوری نہیں اترتی جبکہ ابھی چند دن پہلے تک مریم نواز صاحبہ کی تقرری بطور چیر مین یوتھ لون سکیم وزیر اعظم نواز شریف کے لئے اسی نیپو ٹسم اور اقربا پروری کی بنیاد پر طعنہ بن چکی تھی ۔

تب بجا طور پر اِس عمل کے خلاف پاکستان تحریک انصاف کے ایک رہنما نے کیس عدالت میں دائر بھی کیا اور پھر اسی دوران درست فیصلہ کرتے ہوئے محترمہ مریم نواز نے اپنے عہدے سے استعفی دے کر مستقبل کے حوالے سے اہلِ اقتدار اور عوام کے لئے اچھی مثال قائم کی تھی۔ ایسے مثبت دور کے آغاز کی امید دکھائی دینے لگی تھی جہاں مقتدر طبقہ ایسی ناقص روایات کو عوامی و سیاسی سطح پر مخالفت اور ردِ عمل کے خوف سے ترک کرنے پر تیار نظر آنے لگا تھا۔

پر پھر ہوا یوں کہ انقلاب آیا، چند مہینوں اور ایک عدد ریکارڈ ساز دھرنے کے بعد خان صاحب کی زندگی میں حقیقی تبدیلی آ گئی یا سلیس اردو میں یوں کہیے کہ حضرت پھر سے دولہا بن بیٹھے۔ اب کون سا نیپو ٹسم اور کہاں کی اقربا پروری! بھلا بیگم کی خواہشات کی تکمیل کبھی نیپوٹسم یا اقربا پروری بھی گردانی جاتی ہیں۔کم عقل راقم! یہ نیپوٹسم نہیں رن مریدی ہے! رن مریدی۔

بیگم کی خواہشات تو اعلی ظرف شوہر کے لئے حکم کا درجہ رکھتیں ہیں۔ کیونکہ ہر فرمانبردار شوہر یہ جانتا اور مانتا ہے کہ جنت ماں کے قدموں تلے نہیں بلکہ بیگم کے آنچل تلے ہے حضور۔
یقینا محترمہ ریحام خان کی اس عہدے پر نامزدگی کوپاکستان تحریکِ انصاف کے کارکنان کی جانب سے ٹھیک اسی طرح رد کر دیا جانا چاہیے جیسا کہ محترمہ مریم نواز کے سلسلے میں کیا گیا، مزید براں امید کرنی چاہیے کہ حکومتی جماعت کے قائد کی بیگم کی اس حکومتی نامزدگی کو کسی کارکن کی طرف سے کسی بھی طریقے اور کسی بھی بنیاد پر درست عمل نہیں گردانا جائے گا۔

تحریک انصاف کے کارکنان کو اپنے رہنما کے سکھائے ہوئے موتی جیسے رہنما اصولوں ہی کی بنیاد پر ان سے اس بارے ضرور سوال کرنا چاہئے کہ اے رہنما یہ بھی ایک عدد یو ٹرن ہے یا کہ نیپوٹسم کی اصطلاح بیگمات پر عائد نہیں ہوتی یا پھر پاکستان تحریک انصاف کو اقربا پروری کے معاملات پر ہر قسم کا استثنی حاصل ہے ! ضروری ہے کہ کارکنان انقلابی نوعیت کے جوابات وصول کر کے سیر حاصل دلائل تیار کر لیں کیونکہ انہی کارکنان اور پیروکاروں نے روز مرہ کی بنیادوں پر متنوع پلیٹ فارموں سے اپنے لیڈر کے انقلابی احکامات، اقوالِ زریں ، پر مغز فیصلوں اور حیران کن اقدامات کا بھرپور دفاع کرنا ہوتا ہے۔

لیکن کوئی بھی دلیل تیار کرنے سے پہلے یہ خیال کیا جانا بہر حال ضروری ہے کہ حکومتی عہدہ حکومتی عہدہ ہی ہوتا ہے چاہے اختیارات اور کام کے حوالے سے اس کی نوعیت کسی بھی قسم کی ہو!
بیگم خان براڈکاسٹنگ اور میڈیا کے شعبہ میں تجربہ اور اچھی شہرت رکھتی ہیں! اسی لئے اگر انہیں کام کرنے کی خواہش ہے تو پہلے کی طرح اپنا کام جاری رکھ سکتی ہیں اور اگر مقصد سیاست میں شوہر کا ہاتھ بٹانا یا عوامی و سماجی خدمات سرانجام دینا ہے توبھی کوئی بندش نہیں کیونکہ ان کے پاس یہ امور سرانجام دینے کے لئے اب قابلِ ذکر غیر حکومتی پلیٹ فارم موجود ہیں۔

پر حکومتی جماعت کے قائد کی اہلیہ ہونے کے ناطے ایسی کسی خدمات کے نام پر بھی حکومتی نوعیت کی نامزدگیوں و عہدوں سے دور رہنا اس طور بہتر فیصلہ ہے کہ اقربا پروری کا خاتمہ اور اس مشق سے دوری ان کے شوہر کی پالیسی اور سیاسی لائحہ عمل کا حصہ ہے ۔جبکہ عملی طور پر بہت سے حضرات انہی خطوط پر خان صاحب کے عتاب کا شکار بھی ہوئے ہیں۔ بہتر بات یہی ہے کہ بیگم صاحبہ خان صاحب کے اقوال پر عمل پیرا ہونے کے مقصد سے اور درست روایات کو آگے بڑھاتے ہوئے محترمہ مریم نواز کی طرح اپنی اس نامزدگی سے اصولی بنیادوں پر معذرت کرتے ہوئے صوبائی سفیر کے عہدے سے بجا طور پر سبکدوش ہو جائیں اس بات سے قطع نظر کہ تکنیکی بنیادوں پر وہ اس نامزدگی کے لئے مکمل اہلیت رکھتی ہیں یا نہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :