ہماری سیاست تلخ حقیقت!

منگل 2 ستمبر 2014

Muhammad Akram Awan

محمد اکرم اعوان

تاریخ گواہ ہے ، ہمارا اجتماعی مسئلہ یہی ہے،کہ ہم نے ہمیشہ حقیقت کو تسلیم نہیں کیا، یہاں تک کہ وہ تلخ حقیقت بنے اور پھر اُسے تسلیم کرنا پڑے۔ اسی طرح ہم نے جائز مقصد کے لئے ہمیشہ درست طریقہ کار کے بجائے غیرمعروف اور ناپسندیدہ ذرائع اور طریقہ کار کا استعمال کیا اورپھر غیرمتوقع نتائج کا خمیازہ بھگتناپڑا۔اپنے ملک کے شہریوں یعنی مشرقی پاکستان کے عوام اور راہنماؤں سے نفرت اور بے توقیری ہم نے کی۔

ہم نے نہ صرف انتخابات میں اُن کی واضح برتری کو تسلیم کرنے سے انکار کیا ،بلکہ یہاں تک اعلان کردیا کہ ڈھاکہ میں ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کرنے والوں کی ٹانگیں توڑدی جائیں گی اور کہا گیا کہ صرف ہمیں اس ملک پر اقتداراور حکومت کا حق حاصل ہے۔

(جاری ہے)

بعد میں یہی غرور ، تکبر اور فضیلت پوری دُنیا میں رسوائی کا سبب بنی اور تلخ ترین حقیقت بنگلہ دیش کو تسلیم کرنا پڑا۔

صدر ایوب خان نے پختونوں کو ایک سوچ کے تحت کراچی میں آباد کیا۔اولاد ِایوب نے کراچی میں جشن ِفتح اور قتل وغارت گری میں لسانی بنیاد پر ایک گروہ کے ساتھ نفرت اور ظلم روا ر کھا ، پھرجنرل ضیاء الحق نے اپنے دور ِخلافت میں مخصوص سیاسی مقاصدکے حصول کے لئے لسانی اور فرقہ وارانہ جماعتوں کی حوصلہ افزائی کی۔ انہی میں سے ایک جماعت جو آج ایک حقیقت ہے مگر ہم نے اس حقیقت کو تسلیم نہیں کیا،بلکہ ہمیشہ نفرت اور حقارت کی نگاہ سے دیکھا جس کے نتیجہ میں پاکستان کے اہم تجارتی مرکز یعنی معیشت کی شہ رگ کراچی سمیت پورا ملک تباہ حالی کا شکار ہوگیا۔

بلوچ قوم کے ساتھ بھی ہمارایہی رویہ اور سوچ کارفرمارہی۔ اس جیسی بیشمار مثالیں دی جاسکتی ہیں کہ ہم نے ہمیشہ حقیقت کو نظرانداز کیا اورپاکستان کو اپنی انا کی بھینٹ چڑھانے کے بعد تلخ حقیقت کو تسلیم کیا۔
پاکستانی عوام کوطاہرالقادری کے طریقہ کارسے ہزار اختلاف ہوں گے،اُن کے بیانات، تقاریر، پیشین گوئیاں اور براہِ راست بشارت جیسی باتیں، ایک طرف رکھیں کہ اس پر بہت کچھ لکھا اور کہا جاچُکا اور مزید بھی کہا جاتا رہے گا۔

یہاں صرف اتنا عرض کرنا مقصود ہے کہ طاہرالقادری صاحب،اُن کے لاکھوں کی تعداد میں عقیدت مند اور اُن کی جماعت پاکستان عوامی تحریک ایک حقیقت ہے۔ ہم نے اس حقیقت کو تسلیم نہیں کیا۔17 جون 2014 کومنہاج القرآن کے بیریئر ہٹائے جانے کی کوشش میں اندوہناک سانحہ ماڈل ٹاؤن پیش آیاجس میں مملکت پاکستان کے 14شہری مارے گئے۔اس سانحہ کے پیچھے بھی حقیقت سے انکار، ضد،نفرت اورحقارت کی سوچ کارفرما نہیں توکیا ہے؟ اسی طرح عمران خان اور اُن کے ساتھیوں کی مسلسل جدوجہد کے بعدتحریک انصاف ملکی سطح پر اُبھرنے والی جماعت ہے اور یہ حقیقت ہے۔

مگر ہم آج بھی عمران خان کوایک کرکٹر سے زیادہ اہمیت دینے کو تیار نہیں۔تحریک ِانصاف ایک حقیقت ہے مگر ہم اس حقیقت کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔عمران خان کہتا ہے کہ اُس نے 14ماہ تک الیکشن کمیشن، عدالت اور جہاں سے بھی انصاف کی اُمید اور توقع کی جاسکتی تھی ہر دروازہ کھٹکایا مگر انصاف نہ ملا۔ آخریہ ہماری ضد اور ہٹ دھرمی نہیں کہ موجودہ حالات سے پہلے ہم نے یہ حقیقت تسلیم نہیں کی کہ تحریک انصاف بھی قومی سطح کی جماعت ہے اور اس کے جائز مطالبات پر توجہ دی جائے۔

مگر ماضی کی طرح ایک بار پھر ہم حقیقت کوتسلیم کرنے کی بجائے کسی تلخ حقیقت کے منتظر ہیں۔
ایک کم درجہ ملازم چپڑاسی سے لیکر اعلی ترین پوسٹ کے لئے تو کوئی نہ کوئی معیار مقرر ہے، پھر انہیں اپنے کام اور عہدہ کے اعتبار سے مکمل تربیت بھی دی جاتی ہے۔ مگر جنہوں نے ملک چلانا ہے اُن کے لئے کیا معیار ہے ؟صرف اکثریت۔جس نے بھی،چاہے جس طریقہ سے بھی اکثریت حاصل کرلی اُسے مکمل آزادی حاصل ہے۔

اُسے کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں۔ کوئی مائی کا لال اُس کے خلاف آواز تو اُٹھا کردیکھے۔کیاحکومت کا کام عوام کے جان ومال کی حفاظت کرنا نہیں اور مسائل کوآئین و قانون کے مطابق گفت وشنیدسے حل کرنا نہیں؟کیاجمہوریت کا یہی مطلب ہے کہ جس کے ساتھ اکثریت ہے،جس کے پاس حکومت اور طاقت ہے، وہ تو جوجی میں آئے کرتا پھرے ؟ کیونکہ اُسے مکمل استثنیٰ حاصل ہے۔

جب عام لوگ حق اورانصاف نہ ملنے پر احتجاج کا راستہ اپنائیں تو پھر کہاجائے کہ یہ لوگ جمہوریت کے دُشمن ہیں۔ یہ ملک کو خانہ جنگی کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ یہ لوگ ملک و قوم کے خیرخواہ نہیں ہیں۔
حکمران طبقہ یہ تاثر دینے کی کوشش کررہا ہے کہ اُس نے ملک وعوام کو خوشحال کردیا تھااور ملک میں معاشی انقلاب آچکا تھا، کہ تحریک انصاف اور طاہرالقادری کے لانگ مارچ نے ملک وقوم کو دوبارہ تباہی کے راستے پر ڈال دیاہے۔

حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ عوام موجودہ حکمرانوں کے طرز سیاست سے بیزار ہوچکے ہیں۔ بجلی کے ساتھ اب گیس کے مصنوعی بحران ، بے روزگاری، غربت اورمہنگائی نے عوام کا جیناحرام کردیا ہے۔ عوام کا اب تما م سیاسی جماعتوں اور راہنماؤں سے اعتبار اُٹھتا جارہا ہے۔ عام آدمی اب سیاست اور سیاست دانوں کا نام سننا گوارہ نہیں کرتا۔طاہرالقادری صاحب کا عملی طور پر سیاست میں کوئی کردار ہے نہ مستقبل میں ان کا ارادہ ہے مگر تحریک انصاف نے قومی سیاست میں اہم کردار ادا کرنا ہے تو خان صاحب کو وقتی ہیجان کا شکار ہونے کے بجائے اپنے نقطہء نظر اور واضح موقف پر قائم رہتے ہوئے، اپنے سیاسی کردار کی ذمہ داری کا احساس کرنا ہوگا۔

یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ماضی میں اسی انا پرستی ،ضداور ہٹ دھرمی نے پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایاہے ۔
جمہوری طرز ِحکومت میں ناانصافی،حق تلفی،ظلم وجبرکے خلاف احتجاج اور آواز اُٹھاناعوام کاآئینی اور جمہوری حق ہے۔احتجاج کا مقصدکسی ایک شخص،گروہ یاملکی سطح پر کی جانے والی ناانصافی،حق تلفی،ظلم وجبرسے دُنیاکو آگاہ کرناہے۔

تحریک انصاف اورپاکستان عوامی تحریک نے تقریباََ تین ہفتہ سے جاری احتجاجی دھرنے کے ذریعہء پوری دُنیا تک اپنا پیغام بطریق ِاحسن پہنچایا۔احتجاج کے ذریعہء حکمران جماعت نے سوائے ایک مطالبہ کے تمام مطالبات تسلیم کرلئے ۔لیکن کم ازکم اس بات کا توکریڈٹ حکمران جماعت کو جاتاہے کہ اس دوران حکومت کیطرف سے پیش کردہ مذاکرات کے کئی دور ناکام ہوئے مگرحکومت نے اِن اعصاب شکن حالات میں صبروتحمل کامظاہرہ کیا گیا۔

اس عرصہ کے دوران نہ تو مظاہرین کومنتشرکرنے کے لئے کوئی اقدام کیا اور نہ ہی قائدین میں سے کسی کوگرفتار یانظربند کیا گیا۔مگر اہل عقل ودانش کی جانب سے جس خطرہ سے بار بار متنبہ کیا جارہا تھا اور پورے ملک میں کسی بھی جانی نقصان اور افراتفری کے حالات پیدا ہونے سے پناہ مانگی جا رہی تھی بالآخر30اگست کی رات کو پارلیمنٹ کی جانب احتجاجی قافلوں کی پیش قدمی کے موقع پروہ افسوسناک واقع رونما ہوکررہا۔

آخریہ کیسی حُب ِجمہوریت ہے جس سے وفاقی دارلحکومت پر لشکرکشی اورطویل محاصرہ میں بے پناہ عورتیں،بچے ،جوان زخمی ہوجائیں۔
بے شک خیبر پختون خواہ میں تحریک انصاف کی حکومت نے اب تک صحت،تعلیم،پولیس اور محکمہء مال کے حوالہ سمیت جوبھی اقدامات کئے قابل تحسین ہیں،مگرانتخابات میں کئے گئے بیشمار وعدے ابھی تشنہ لب ہیں۔انہی وعدوں میں ایک وعدہ بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کابھی تھا۔

آپ سے اپنی عوام سے کئے گئے دعوؤں،وعدوں اورصرف آپ کے دائرہ اِختیارکے بارے میں سوال ہوگا۔خان صاحب آپ خوش نصیب ہیں کہ عوام آپ سے بے پناہ محبت کرتے ہیں،یہاں تک کہ آپ پرجان نثار کرنے سے گریزنہیں کریں گے ، خدا را ان کی محبت اور خلوص کو مزید نہ آزمائیں،کہ محبتوں کا صلہ آزمائش سے نہیں لیا جاتا۔تدبر،دلیری اور بیوقوفی میں کچھ توفرق باقی رہنا چاہیے،کہ ایک جان کے ضیایع کا بھی ازالہ ممکن نہیں۔

حصول ِمنزل کے شوق میں اتنی گرد نہ اُڑایں،کہ منزل پر پہنچ کرسانس لینا بھی محال ہوجائے۔آپ، نواز شریف کی حکومت کو آمرانہ اور شخصی حکومت گردانتے ہیں ، مگر اپنے اندر بھی تو تبدیلی لائیں اورکسی قابل ِعمل اورپائیدار حل کی طرف بڑھیں۔اس سے پہلے کہ مزیدکسی تلخ حقیقت کے سبب سب کو پچھتانا پڑے،اپنے طرز ِ سیاست میں نرمی،لچک اورگنجائش جیساخوب صورت عنصر پیدا کریں کہ یہی جمہوریت کا اصل حسن اور اسی کانام سیاست ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :