گدھے گھوڑے

جمعرات 22 جنوری 2015

Hussain Jan

حُسین جان

ایک سیاستدان صاحب کسی مینٹل ہسپتال کے دورئے پر گئے تو اُن کی ملاقات مختلف پاگلوں سے کروائی گئی ۔جناب کوشدید حیرت ہوئی جب ایک پاگل نے اپنا تعارف کرواتے ہوئے کہا کہ اُس نے پاگل خانے میں ہی ایک عدد 300صفحات کی شاہکار کتاب ترتیب دی ہے، تو سیاستدان صاحب نے پاگل خانے کے عملے سے دریافت کیا کے بھائی اس کو کیوں بند کر رکھا ہے یہ تو بالکل ٹھیک نظر آرہا ہے اور اس نے تو ایک کتاب بھی لکھ رکھی ہے تو عملے کے ایک فرد نے وہ کتاب سیاستدان صاحب کو تھما دی اور کہا زرا اس کو پڑھ کر دیکھائیں۔

اب سیاستدان صاحب نے کتاب کا پہلا ورق اُلٹا تو اُس میں لکھا تھا کہ اصطبل سے گھوڑا نکلادگڑدگڑدگڑدگڑدگڑ.......................باقی 299صفحات پر دگڑ دگڑ ہی لکھا تھا۔
اب ایک گدھے کا بھی واقع سن لیں،قصہ کچھ یوں ہے کہ ایک گدھے کو جنگل کا بادشاہ بنا دیا گیا اور اُسے تمام فیصلے کرنا کا اختیار بھی عنایت کر دیا گیا۔

(جاری ہے)

اب جب کبھی بھی اُس کے پاس کوئی فیصلہ آتا وہ صرف ڈھیچوں ڈھیچوں کرکے بات کو ٹال دیتا اور کبھی کسی فیصلے پر نہ پہنچ پاتا ،لیکن خوش قسمتی سے وہ پانچ سال تک جنگل کا بادشاہ رہا اور ڈھینچوں ڈھنچوں کرتا رہا۔


ہماری حالت بھی کچھ ایسی ہی ہے،ہمیں آج تک پتا نہیں چلا کہ ہم گھوڑے ہیں یا گدھے،گھوڑوں کی تو پھر بھی کچھ عزت ہے مگر بیچارے گدھے تو گدھے ہی رہتے ہیں۔ ہمار حکمران ہمیشہ ہمیں کسی نہ کسی بتی کے پیچھے لگا دیتے ہیں اور ہم اپنی باقی زندگی دگڑ دگڑ کرتے ہی گزار دیتے ہیں۔ کبھی بجلی نہیں تو کبھی گیس نہیں ،کبھی پانی نایاب تو کبھی پیٹرول کی کمی، یہی سب کچھ ہماری زندگی میں لکھا ہے اور یہی سب ہمارے ساتھ ہوتا رہے گا۔

کیونکہ ہم نے خود کو جانوروں سے جوڑ لیا ہے۔ جس کا جب دل کرئے جس طرف دل کرئے ہمیں ہانک لے ہم اف تک بھی نہیں کریں گے۔
کہتے ہیں گدھے کئی قسم کے ہوتے ہیں اور سب کے الگ الگ کام ہیں ایک قسم ایسی بھی ہوتی ہے جو چپ چاپ اپنا کام کرتی رہتی ہے مالک کم وزن ڈالے یا زیادہ یہ کبھی گلہ نہیں کرتے، ایک قسم ایسی بھی ہوتی ہے جو ہمیشہ کام چوری کے چکر میں رہتے ہیں یعنی ابھی تھوڑا سا ہی سامان رکھا تو چل پڑتے ہیں کہ مزید وزن نا اُٹھانہ پڑئے، ایک قسم اور بھی ہوتی ہے جو سارا دن کام بھی کرتے ہیں اور پھر مالک سے ڈنڈوں کی مار بھی کھاتے ہیں ،ہم اسی قسم کے گدھے ہیں ،سارا سارا دن محنت مزدوری بھی کرتے ہیں ،ٹیکس بھی دیتے ہیں تمام بل بھی وقت پر ادا کرتے ہیں مہنگائی ہو جائے تو چیزیں مہنگی خریدلیتے ہیں، بجلی نہ ہو تو یوپی ایس لگوا لیتے ہیں،گیس نہ ہو تو سلنڈر بھروا لیتے ہیں پیٹرول نہ ملے تو لاین میں لگ جاتے ہیں سی این جی نہ ہو تو پیٹرول ڈلوا لیتے ہیں ،سرکاری ہسپتالوں میں ڈاکٹر نہ ہو تو نجی ہسپتال میں چلے جاتے ہیں۔

سرکاری تعلمی اداروں کا میعار بہتر نہ ہو تو بچوں کو پرائیوٹ سکولوں میں داخل کروا دیتے ہیں۔ لیکن اپنے مالکوں کو کبھی تنگ نہیں کرتے مگر شو مئی قسمت اس کے باوجود سکون و چین نہیں مالک ہیں کہ ڈنڈئے مارنے کا کوئی نہ کوئی راستہ نکال ہی لیتے ہیں۔
ویسے آج کل گھوڑئے مزے میں ہیں اب اُن سے مال برداری کا کام کم کم ہی لیا جاتا ہے۔ زیادہ تر گھوڑے حکمرانوں کے اصطبل میں ہی پائے جاتے ہیں جہاں وہ شاہانہ زندگی گزارتے ہیں۔

ہر ی ہری گھاس ،انواع واقسام کے لذیزمربہ جات ،لشٹم پشٹم چال لمبے لمبے بال صراحی سی گردن،زمین کو چھوتی دم ،یعنی ان کے لیے راوی چین ہی چین لکھتا ہے۔ ہاں کچھ گھوڑے بیچارے پاکستانی عوام کی طرح بھی ہوتے ہیں جو کسی نہ کسی غلط آدمی کے ہتھے چڑ جاتے ہیں اورپھر وہ اُن کے ساتھ گدوں جیسا سلوک کرتا ہے،سارا سارا دن کھڑا رکھتا ہے سوکھی گھاس ڈالتا ہے اُوپر سے کمبخت ہرئے رنگ کی عینک بھی لگا دیتا ہے کہ گھاس ہری ہری لگے۔


اب تو سنا ہے گدھے گھوڑوں کی ڈیمانڈ میں پھر اصافہ ہو گیا ہے، کل ایک موصوف اپنی دلہن کو بیانے گدھے پر ہی سوار ہو گئے تھے ویسے ہم نے بھی زندگی میں پہلی دفعہ گدھے کو گدھیپر بیٹھے دیکھا۔ لوگوں نے اپنی اپنی ٹیکسیاں ،ویگنیں اور بسیں بیچ کر گھوڑے اور گدھے خرید لیے ہیں کہ اب سواری لیجانا صر ف اسی سے ممکن ہے۔ ایک صاحب بتانے لگے یار یہ مشرف کو کس نے کہا تھا کہ ہماری بات مان لو ورنہ ہم تمھیں پتھر کے زمانے میں دھکیل دیں گے۔

سالے کو اتنا بھی نہیں پتا کہ اس کام کے لیے تو جمہوریت پسند عناصر ہی کافی ہے۔ کل ایک ڈاکو نے قیمتی موبائل کو چھوڑ کر شکار سے 10لیٹر پیٹرول گن پوائنٹ پر لوٹ لیا، اب بیچارے کو کیا پتا تھا کہ پیڑول کو بھی بڑی بڑی تجوریوں میں رکھنا پڑئے گا۔ کسی صحافی نے سنا ہے کہ گھوڑے پر بیٹھ کر رپوٹینگ کی ہے جس پر گھوڑوں نے ہرٹال پر جانے کا فیصلہ کر لیا ہے کہ بھائی چلو انسان تو اشرف المخلوقات ہے وہ تو ہم پر بیٹھ جائیں مگر یہ گدھوں کو کیوں ہم پر بیٹھایا جا رہا ہے۔


اب تو لمبی لمبی گاڑیوں کو دھکیلنے کا کام بھی انہی دو جانوروں سے لیا جارہا ہے۔ جس طرح شادی والے دن صرف دولہا ہی ہیرو ہوتا ہے باقی سب کا کردار سائد ہیرو جیسا ہوتا ہے اسی طرح پاکستان کے موجودہ حالات میں سرف گدھے ،گھوڑے ہی ہیرو لگ رہے ہیں۔ ہمارے بڑے بڑے دانشوروں نے لاکھوں کے حساب سے کتابین پڑھ رکھی ہیں اور پھر اپنے وسعت مطالعے کا رعب غریب عوام پر ڈالٹے ہیں لیکن ان دانشوروں کو کبھی توفیق نہیں ہوئی کہ کبھی گھوڑوں یا گدھوں پر بھی کوئی کتاب پڑھ لیتے کہ کبھی ان کی بھی ضرورت پڑسکتی ہے۔

ہمارے بزرگ بھی بڑئے مزاح پسند گزرئیں ہیں جب کبھی گدھے کی مثال دینے کی باری آتی صرف خاوند کی مثال دیتے کہ بیچارا شادی کے بعد گدھوں جیسی زندگی گزار رہا ہے۔ لگتا ہے ان بزرگوں کا کبھی جمہوریت سے پالا نہیں پڑا ورنہ ان کو پتا چل جاتا کہ بھائی ووٹ ڈالنے والا بھی گدھا ہی ہوتا ہے۔
ہمارے ایک استاد محترم ہمیشہ ہمیں کہا کرتے تھے اوئے گدھے تو کبھی نہیں سدھرئے گااور پھر ایک دن سکول گئے تو پتا چلا آج ماسٹر صاحب سکول نہیں آئے تو سوچا چلو گھر جا کر کے پتا کرلیتے ہیں ابھی گھر میں داخل ہوئے ہی تھے کے ماسٹر صاحب کے کراہنے کی آوازیں آنے لگیں استسفارکرنے پر بتایا کہ تمھیں روز گدھا کہنے پر ایک گدھے نے غصہ کر لیا اور دی زور سے دولتی میریں جبڑئے پر کہ نکما تمہارا شاگرد ہے اور برا بھلا تم مجھے کہتے ہو۔

تم انسانوں کا جب دل کرتا ہے ہماری نسل کوکھری کھری سنانا شروع کردیتے ہو ،لہذا میری توبہ جو میں پھر کبھی تم کو گدھا کہوں ،آج پتا چلا گدھو ں کی بھی کوئی عزت ہوتی ہے تم کو کبھی سدھرنے والے نہیں میں ہی باز آجاؤں۔
خبر تو یہ بھی ہے کہ کچھ سائنسدان بیٹھ کر تحقیق کر رہے ہیں کہ پاکستان کے عوام زیادہ عزت دار ہیں یا گدھے گھوڑئے،کیونکہ ترقی یافتہ ممالک میں توسب برابر ہی ہیں صرف پاکستان کے عوام کو ہی گدھوں گھوڑوں سے کم عزت دی جاتی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے سائنسدان کیا فیصلہ کرتے ہیں، تب تک ہم انتظار کرتے ہیں اور سوکھی سوکھی گھاس کو ہرے رنگ کی عینک لگا کر کھاتے ہیں کہ بھائی کچھ تو آسرا ہو، آخر کب تک بھوکے بیٹھے رہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :