یورپ انیسویں صدی میں !

پیر 23 نومبر 2015

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

انیسویں صدی یورپ میں تبدیلی کی صدی کے نام سے جانی جاتی ہے ۔ یہ وہ زمانہ تھا جب خود یورپ ا ور یورپی تہذیب دنیا کی دیگر تہذیبوں کو پیچھے چھوڑ کے بڑی تیزی سے آگے بڑھ رہی تھی ۔ مادی ترقی عروج پر تھی ، نئی نئی یجادات سامنے آ رہی تھیں ، امریکہ اور برصغیر کی لوٹی ہوئی دولت سے برطانیہ میں صنعتی انقلاب برپا ہو چکا تھا ، زراعت کی بجائے اب صنعت کا دور تھا ، جا گیر دار کی جگہ تاجر اور سرمایہ دار نے لے لی تھی اور پوری دنیا پر برطانیہ کا معاشی اور سیاسی غلبہ ہو چکا تھا ۔

یہی دور سائنس کی ترقی کا دور تھا ، ریل ،برقی تار ، ٹیلیفون ، چھاپہ خانہ اور اسلحہ و بارود کے کارخانے وجود میں آ چکے تھے اور یورپ نئے سرے سے دنیا کو فتح کرنے کے لیئے میدان میں نکل پڑ اتھا۔ جب سماج نے ترقی کی اور معاشرے میں نئی تبدیلیاں رونما ہوئیں تو معاشرے کے نظم و ضبط کا مسئلہ پیدا ہوا ، معاشرتی نظم و ضبط اور معاشرے میں امن کا قیام یورپ کا سب سے بڑا مسئلہ بن گیا ۔

(جاری ہے)

اب مغربی فکر اور مغرب کا فلسفہ معاشرے کی تنظیم اور نظم و ضبط کے گر دگھومنے لگا ۔ مذہب کے بارے میں بھی سوال اٹھائے جانے لگے کہ یہ معاشرے کی اصلاح و تنظیم میں کوئی کردار ادا کر سکتا ہے یا نہیں ۔ اگرچہ یورپی معاشرے میں مذہب کو پہلے ہی دیس نکالا دیا تھا لیکن بہر حال ایک بار پھر اس کے کردار پر غور ہونے لگا ۔ انیسویں صدی میں معاشرے کے متعلق تین قسم کے نظریات وجو د میں آ ئے۔

پہلا نظریہ individualism(انفرادیت پسندی ) کا تھا ۔ اس نظریئے کے پیچھے یہ فلسفہ تھا کہ معاشرہ خدا کا بنایا ہو انہیں بلکہ یہ انسانوں کی اپنی تخلیق ہے ، معاشرے کی تخلیق کا مقصد انسان کو فائدہ پہنچانا ہے لہذا اگر کہیں فرد کی آزادی اور معاشرے میں ٹکرا وٴ ہوتا ہے تو معاشرے کو نظر انداز کر دینا چاہیئے ، فرد کی آزادی میں معاشرے کا کسی قسم کا عمل دخل نہیں ہو نا چاہیئے ۔

یہ نظریہ اس لیئے پروان چڑھا کہ صنعتی انقلا ب کے نتیجے میں پروان چڑھنے والے تاجر اور سرمایہ دار طبقے کو اپنا تحفظ مقصود تھا۔ اس نظریئے کا سب سے بڑا نمائندہ انگریز مفکر جان اسٹورٹ مل تھا اور اس نے اس نظریئے کو پروان چڑھانے میں بڑا اہم کردار ادا کیا ۔ دوسرا نظریہ idealism(مثالیت پسندی) کا تھا ۔ اس نظریئے کا احیاء اٹھارویں صدی کے آخر میں ہوا تھا ، اس نظریئے کا آغازجرمن فلسفیوں نے کیا تھا لیکن اس نظریئے کا سب سے بڑا نمائندہ مفکر ہیگل تھا ۔

اس نظریئے کا دعویٰ تھا کہ معاشرہ کل ہے اور فرد اس کا جزء لہذا جز کو کل کے تابع رہنا چاہیئے اور جہاں کل اور جز میں ٹکراوٴ ہو وہاں کل کو ترجیح دینی چاہیئے ۔ جرمن فلسفی کہتے تھے کہ معاشرے کے بغیر فرد کا وجود ناممکن ہے ۔ اگر معاشرہ قائم ہے تو فرد بھی زندہ ہے اور اگر معاشرہ باقی نہیں رہتا تو فرد کیسے زندہ رہ سکتا ہے ۔ یہ فلسفہ اٹھارویں صدی کے آخر میں شروع ہوا ، انیسویں صدی میں اس کو اتنا عروج نہ مل سکا لیکن بیسویں صدی میں ہٹلر اور مسولینی نے اس نظریئے کی بنیاد پر اٹلی اور جرمنی میں آمریت پیدا کی ۔

ا ن کا کہنا تھا ریاست اور معاشرہ اصل ہے لہذا ریاست کے تحفظ کے لیئے اگر فرد کی جان قربان ہوتی ہے تو یہ کوئی عجیب بات نہیں ریاست کو یہ مقام حاصل ہے ۔ تیسرا نظریہ organism(نامیت ) کا تھا ہیگل نے تو صرف تشبیہ کے طور پر معاشرے کو جسم قرار دیا تھا لیکن انگریز مفکر ہربرٹ اسپنسر اور دیگر فلسفیوں نے حقیقت میں معاشرے کو جاندار ڈکلیئر کر دیا، ان کے نزدیک معاشرہ بھی دیگر جانداروں کی طرح ایک جاندارشے ہے اور اس کا اپنا ایک وجود ہے ۔

جس طرح دیگر جانداروں پر زندگی اور موت کے اصول لاگو ہوتے ہیں اسی طرح معاشرے پر بھی ان اصولوں کو اپلائی کیا جا سکتا ہے ۔ ان کے نزدیک معاشرے کو مذہب اور اخلاقیات کی کوئی ضرورت نہیں بلکہ معاشرے کی فطرت جس چیز کا تقاضا کرے وہی اصل اصول ہے ۔ اسپنسر کے نزدیک جو معاشرہ آگے بڑھے اور ترقی کرے وہی اس قابل ہے کہ زندہ رہے اور جو معاشرہ ترقی نہیں کرتا اسے زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں ۔

اسپنسر کے فلسفے کا خلاصہ یہ تھا کہ ہر آدمی اپنے کام سے کام رکھے اور جو پیچھے رہ جائے وہ جہنم میں جائے ۔ ان تمام نظریات سے کم از کم ایک بات ضرور ثابت ہوتی ہے کہ مغربی فکر میں انسانیت پرستی اور انسان کے بارے میں غور و فکر کرنا ان کی عادت اور مجبوری بن چکی تھی ، ان کی سوچ کا محور صرف انسان اور یہ کائنات تھی اور اس سے آگے نہ وہ سو چ سکتے تھے اور نہ ان کا ذہن انہیں اس بات کی اجازت دیتاتھا ۔

دنیا کے ہر مسئلے کو انسانی اور معاشرتی نکتہ نظر سے دیکھنا ا ن کا پہلا اور آخری اصول تھا ۔ چوتھا نظریہ positivisim(ثبوتیت) کا تھا ۔ اس نظریئے کا علمبردار فرانس کا مشہور مفکر اور فلسفی کومٹ تھا ، اس کے نزدیک ہر وہ چیز جس کو دیکھا نہ جا سکے ، چھو انہ جا سکے اور جس کا حسی مشاہدہ ناممکن ہو اس کا وجود بھی ناممکن ہے ۔ حقیقت صرف وہی ہے جسے چھوا جا سکے اور جس کا حسی اور مشاہداتی ادراک ممکن ہو ۔

اگرچہ اس فلسفے کے جراثیم پہلے سے موجود تھے لیکن کومٹ نے اس کو باقاعدہ ایک فلسفے کی شکل دے دی ۔ اب اس فلسفے کی بنیاد پر مذہب، خدا ،وحی، آخرت اور جنت و جہنم کا انکا ر کیا گیا ، کومٹ کا کہنا تھا کہ انسان اور معاشرہ ارتقائی عمل سے گزر کر یہاں تک پہنچے ہیں ،سب سے پہلے جادو کا دور تھا، پھر مذہب آیا ، پھر فلسفہ اور سائنس آئی ، پھر عقلیت پرستی اور اب سائنس اور ایجادا ت کا دور ہے ۔

انسان اور معاشرہ ارتقائی عمل سے گزر کر اس اسٹیج تک پہنچے ہیں ۔ یہ مذہب سے صاف انکار اور خداکے انکارکا واضح پیغام تھا ۔ بیسویں صدی مکمل طور پر اس فلسفے کی زنجیروں میں جکڑی رہی ،ایک طرف عقلیت پرستی اور دوسری طرف ثبوتیت کے اس فلسفے نے مذہب کو مکمل طور پر معاشرے سے بیدخل کر دیا تھا ۔ اب نہ روح او ر مادے کا سوال رہا نہ حق اور باطل کی تلاش اور جستجو کا ، اب بات کی جاتی تھی تو صرف عقلیت پرستی اور انسانیت پرستی کی ۔


پانچوں نظریہ historicisim(تاریخ پرستی) کا تھا ۔یہ نقطہ نظریہ انیسویں صدی میں بہت مقبول ہوا ۔ اس نظریئے کا دعویٰ تھا کہ خدا ،مذہب ، عقل، روح ،مادہ ،اصول یا فلسفے کے صحیح اور غلط ہونے پر غور وفکر نہ کیا جائے بلکہ ان کی تاریخی حیثیت کو دیکھا جائے ، ان کی تاریخ پر تحقیق کی جائے اور دیکھا جائے کہ مختلف زمانوں میں اس نظریئے ، عقیدے یا فلسفے کی اہمیت ، حیثیت اور نوعیت کیا رہی ہے ۔

چونکہ انسانی تاریخ کا اکثر دور مذہب اور خدا سے دوری کا دور ہے لہذا اس فلسفے کے ذریعے خدا اور مذہب کا انکار بڑی آسانی سے ممکن ہوا۔ اس نظریئے کی مقبولیت کی دوسری بڑی وجہ نئی تحقیق اور نئی ایجادات تھیں ۔ نئی ایجادات اور دریافتوں سے متاثر ہو کر اس فلسفے نے محض واقعات کو ہی حقیقت سمجھ لیا اور محض واقعات سے نتائج اخذ کر کے انہیں مذہب اور عقیدے کی حیثیت دے دی گئی ۔ شاید وہ یہ بات نہیں سمجھ سکے کہ بعض اوقات ایک ہی واقعے سے مختلف نوعیت کے کئی نتائج اخذ کئے جا سکتے ہیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :