اینٹ پر اینٹ ، دیوارِ چین

جمعہ 29 اگست 2014

Abdul Raheem Anjaan

عبدالرحیم انجان

عمران خان نے ایک اچھے کام کے لئے وقت اچھا نہیں چنا ،افواج پاکستان ہمارے ایک انتہائی خطرنا ک دشمن کے ساتھ ہماری سلامتی کی جنگ لڑ رہی ہیں اور ہمارے ذرائع ابلاغ نے پل پل کی خبروں کے لئے اسلام باد کی شاہرئے دستور پر ڈیرے جمائے ہوئے ہیں۔جبکہ اس وقت ساری قوم کو متحد ہو کر افوا ج ِ پاکستان کے ساتھ کھڑا ہونا چا ہیے تھا۔لیکن کیا کیا جائے کہ
یہ آوارگی سی جو شبنم میں ہے
اس میں کچھ جرم آفتاب بھی ہے
یہ جو شاہرائے دستور پر گزشتہ کئی دن سے حکومت وقت کے خلاف عوامی احتجاج کی دیوار چین نظر آ رہی ہے ،یہ کسی بڑی طاقت کے سکرپٹ کے زیر اثر آناً فانا چند دنوں میں کھڑی نہیں ہو گئی، عمران خان کے الیکشن ۱۳ ء ء میں بلا کی دھاندلی کے سد باب کے مطا لبا ت کے جواب میں ن لیگ کی قیادت کے متکبرانہ روّیے اور چند وزرا کے تمسخرانہ جملوں کے اینٹ گارے سے کم و بیش ایک سال چار ماہ میں تیار ہوئی ہے ۔

(جاری ہے)

مدبرانِ ِ حکومت اپنے گریبانوں میں تو جھانکتے نہیں ،البتہ اپنی بیڈگورننس پر انگلی ا ٹھانے والوں پر تنقید کرتے ہوئے بڑی بے رحم بے احتیاطی کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔
یہ جو میاں نوازا شریف موقعہ بے موقعہ بین الا قوامی اداروں میں اپنی حیرت انگیز عوامی مقبولیت کے اشتہار بنوانے کے باوجود اپنے خلاف سازش بننے والے کسی ہاتھ کا ذکر کرتے رہتے ہیں۔

عمران خان کی ڈوری کس کے ہاتھ میں ہے ؟ ان کے احتجاج کے سکرپٹ کا پرچار کرتے رہتے ہیں۔تو یہ کسی وجہ کے بغیر ہی نہیں ہو رہا۔ وہ اپنے اعمال کے آئینے میں اپنا انجام دیکھ رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ لوگوں کے دل میں افواج ِپاکستان کے خلاف یہ زہر بھر دیں کہ میرے خلاف سازش ہو رہی ہے۔بین الاقوامی اداروں کے سروے بھی اسی زنجیر کی ایک کڑی ہیں۔پیو ریسرچ کے تازہ تریں سروے کے مطابق ۔

ن لیگ ۶۴۔عمران ۵۳۔فوج بحیثیت ادارہ ۸۷ اور چیف آف آرمی سٹاف ۴۱ فیصد۔۔اگر یہ سروے سچا ہے تو پھر کیا میاں برادران کو کوئی مینٹل پرابلم ہے کہ انہوں نے اتنے منظم طریقے سے اور اتنے بڑے پیمانے پر دھاندلی کرائی ہے؟
بین الا قوامی اداروں کی اس رپور ٹ کے بعد کہ پاکستان میں میاں صاحب سب سے زیادہ مشہور ہیں جس کا سبب یہ کہ انہوں نے سیاست کی دنیا میں آنے کے بعد جس محنت اور قابلیت سے اپنے خاندان کو دنیا کے امیر ترین لوگوں میں شامل کیا ہے، اُن کی فاقہ زدہ قوم اُن کی اِِس محنت سے سے بہت خوش ہے اور سوچتی ہے جو شخص اپنے خاندان کے لئے اتنا کچھ کر سکتا ہے۔

شاید ہماری باری بھی آجائے۔اتنی متاثر کن شہرت کے بعد ، بد بخت قوم نے تو آپ کے قدموں میں ڈھیر ہونا ہی تھا۔ ایسی شرمناک دھاندلی کی ضرورت تو نہیں تھی۔
دنیا بھر کی افواج ہمیشہ اپنی قیادت کے سبب عزت یا رسوائی کماتی ہیں کہ انہیں کے احکامات پر اچھے یا برے کام کر کے عزت و رسوائی کماتی ہیں۔ ہماری افواج پاکستان کی یہ بد نصیبی رہی ہے کہ دنیا کی بہترین افواج میں ایک عزت مندانہ مقام رکھتے ہوئے بھی اپنے چند اقتدار کے حریص جرنیلوں کی وجہ سے اتنی بد نام ہوئی ہیں کہ آج ہر ایرا غیرا جو مُنہ میں آتا ہے افواج پاکستان کے بارے میں کہہ لیتا ہے۔

”پیو ریسرچ“ والے اپنے حالیہ عوامی سروے میں افواج پاکستان کے بارے میں حاشیہ آرائی کرتے وقت یہ بھول گئے کہ افوج ِ پاکستان کے موجودہ چیف اپنے خاندان کے شاندار فوجی پسِ منظر اور قوم کے لئے اُن کی قربانیوں کے صلِّے میں قومی اعزات سے نوازے جانے کی وجہ سے افواج پاکستان اور سول سو سائٹی میں برابر عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔غالب # کے ایک شعر میں توڑ پھوڑ کے لئے معذر ت کے ساتھ ۔


سو پشت سے ہے پیشہ آبا سپہ گری
فوج کی قیادت ِ ہی ذریعہ ِ عزت نہیں مجھے
فوج کے لئے ادارے کی حیثیت سے ۸۷ فیصد اور چیف آف افواج پاکستان کے لئے ۴۱ فیصد عوامی مقبولیت کے نمبر دینا، کہیں نا کہیں اس اشتہار کے Paidہونے کی طرف نشاندہی کر رہا ہے۔بہر کیف ،وقتا وفقتاً میاں صاحب کی عوامی مقبولت کے لئے آنے والی سروے رپورٹ اگر سچی ہیں تو پھر میاں صاحب دھاندلی جیسی ذلت کے طوق کو گلے سے اتار کر مڈ ٹرم الیکشن کے لئے تیار کیوں نہیں ہو جاتے؟
اگر یہ سچ ہے کہ انہوں نے کوئی دھاندلی نہیں کراتی تو پھر انہوں نے محض چار حلقوں کی چھان پھٹک سے انکار کیوں کیا تھا ؟ ان کے وزیر داخلہ چوہدری نثار نے قومی اسمبلی کے فلور پر یہ اعتراف کیوں کیا کہ سبھی حلقوں میں ساٹھ سے ستر فیصد ووٹ جعلی ہیں ؟ میاں صاحب کس مُنہ سے اپنی حیثیت کو آئینی حیثیت کہتے ہیں ؟ اتنا بڑا جھوٹ اور وہ بھی قومی اسمبلی کے فلور پر کہ عمران خان نے میری حکومت کو بھی مان لیا تھا اور الیکشن کو بھی اور سبھی قومی معاملات میں میرا ساتھ دینے کی حامی بھی بھر لی تھی۔

لیکن میاں صاحب ملک کے حالات کے پیش نظر عمران خان صاحب کی مشروط اطاعت کو بیان کرتے ہوئے عمران خان کی شرط کو گول کر گئے ہیں کہ ”میں الیکشن کو مانتا ہوں ، لیکن الیکشن میں دھا ند لی کو نہیں مانتا۔صرف چار حلقوں کی چھان پھٹک کر کے زمہ دار لوگوں کو سزائیں ضرور دی جائیں۔تا کہ ہمارے ہاں بھی رائے عامہ کی چوری بند ہو سکے۔“ میاں صاحب جو لوگ جمہور ی نظام کو بچانے کے نام پر آپ کا ساتھ دینے کی حامیاں بھر رہے ہیں یہ سب آپ کی مدد کے پس پردہ اپنے کالے کرتوتوں کا دفاع کر رہے ہیں۔

پاکستان میں آج تک ” جمہور“ کے پیٹ سے جنم لینے والی جمہور یت آئی ہے اور نہ پاکستان کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے والے چوروں کو نچوڑنے والی آ مریت آئی ہے ۔ آپ اپنی قومی خدمات ہی کے معاملے کو لے لیں۔آپ کہا کرتے تھے۔ ”ہمارا جینا مرنا پاکستان کے ساتھ ہے۔“ پچھلے دنوں جب عمران خان الیکشن ۱۳ میں شرمناک دھاندلی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تو مریم نواز ، جو میری اپنی بیٹی سے عمر میں بہت چھوٹی ہیں اور میں انہیں بیٹی بھی لکھ سکتا ہوں۔

بیٹی مریم نے بڑے چڑ جانے والے انداز میں کہا۔”عمران خان کو بنیادی تربیت کی ضرور ت ہے ؟ “ وہ ساری عمر کنٹینر میں بیٹھے رہیں،میاں نواز شریف مستعفی نہیں ہوں گے۔ کیا وہ عمران خان کو اپنے والد گرامی میاں محمد نواز شریف اور چچا جانی شہباز شریف والی بنیادی تربیت دینا چا ہتی ہیں؟ مریم بیٹی !آپ اپنے ابا کی بنیادی تربیت کے انڈے بچے( لو ٹ مار) کی راجدھانی میں اتنے سکون کے ساتھ سو سکتی ہیں ؟ جتنے سکون کے ساتھ عمران اپنے گھر میں سوتا ہے اور فخریہ انداز میں کہتا ہے۔

”میں اک نیا پاکستان بناوٴں گا۔“ہم بیرون ملک پاکستانیوں کا اوڑھنا بچھونا ، ہمارا پاکستان ہے۔میاں نواز شریف میرے وطن عزیز کے وزیر اعظم ہیں۔میرا دل چاہتا ہے کہ میں اپنے وزیر اعظم کی عزت کرو ں ۔لیکن کیسے کروں ؟ ان کے کس کارنامے کو سامنے رکھتے اُن کی عزت ہوئے کروں؟ موٹر وے کو اپنے بڑے کار ناموں میں شمار کرتے ہیں۔لیکن موٹر وے جیسے کارنامے کے ساتھ غریب قوم کو ملین اینڈ ملین ڈالر کا ٹیکہ لگانے کا سچ بھی تو ہے ۔

جسے باہر کے کچھ صحافیوں نے بھی بے نقاب کیا تھا۔جنگلہ بس میں بھی کمیشن کی ملاوٹ ہے۔لوگ ٹی۔وی پر کہتے ہیں۔ اور اگر یہ سب جھوٹ ہے تو پھر دنیا بھر میں اتنی لمبی چوڑی سرمایہ کاری اور بزنس ایمپائر کھڑی کرنے کے لئے سرمایہ کہاں سے آیا ہے اور اس انکم کا کوئی انکم ٹیکس بھی تو ہو گا ؟جب کہ اعتزاز احسن جیسے معتبر قانون دان کہتے ہیں۔نواز شریف نے۹۵۔

۹۶۔اور ۱۹۹۷ ء ء میں تین سالوں کا کل انکم ٹیکس ۴۷۷ روپے ادا کیا تھا۔بیٹی مریم !میں تو صرف ایک بات جانتا ہوں کہ انسان کی شخصیت میں انسان کی فطرت کا بڑا عمل دخل ہوتا ہے اور فطرت کبھی بدلا نہیں کرتی اور لٹیروں والی فطرت رکھنے والے لوگوں کو اپنی زندگی میں سب سے زیادہ اس خوف کا سامنا رہتا ہے کہ وہ اپنی لوٹ مار کا دفاع کیسے کریں :؟مجھے یہ لکھتے ہوئے دکھ کے ساتھ ساتھ شرم بھی آ رہی ہے کہ ہمارے اسلام آبا د میں سب سے طاقت ور امریکن سفیر ۔

دوسرے نمبر پر چیف آف پاک آرمی اور تیسرے نمبر پر عوامی نمائند ے وزیر اعظم کو سمجھا جاتا ہے اور جس نے یہ دیکھنا ہو کہ کیا عمران خان کی ڈوری کوئی دوسرا ہلا سکتا ہے ؟ وہ Youtubeپر جا کر Imran Khan Interveiw with cbc TV in Toronto Oct.25 2012 دیکھ لے۔جسے سننے کے بعد ٹورونٹو ائیر پورٹ پر امریکہ کے لئے روانہ ہوتے ہو ئے عمران خان کو امریکن امیگریشن نے ڈیڑھ دو گھنٹے پریشاں بھی کیا تھا۔

امریکہ کا ڈر خوف ہمارے اُن محبان ِ وطن لیڈران کو ہے۔جو کہنے کو تو یہ کہتے رہے ہیں کہ ہمارا مرنا جینا پاکستان کے ساتھ ہے لیکن اب اُن کا سب کچھ باہر پہنچ چکا ہے۔ ایسے حالات میں جبکہ اسلام آباد بندپڑاہے، میاں محمد نواز شریف نے اپنی بنیادی تربیت کے دفاع کے لئے اپنے خاندان کو پہلے ہی انگلینڈ بھجوا دیا ہے۔جس دن عمران خان نے کسی ایسی تربیت کی طرف قدم اٹھایا اس دن وہ عمران خان نہیں رہے گا۔

جس کا شمار کرکٹ کی کم و بیش ایک سو ساٹھ سالہ تاریخ میں چند سرکردہ کپتانوں میں(شاید پہلے یا دوسرے نمبرپر) ہوتا ہے۔عمران کو محض ایک کرکٹر کہہ کر انضمام اور وسیم اکرم سے ملانے والے ۹۲ کا فائینل بال ٹو بال دیکھ لیں۔ سلیم ملک اور عامر سہیل کے درمیان گراوٴنڈ ہی میں سجدئہ شکر بجا لانے کے بعد ایک مکالمہ ہوا تھا۔ خوشی سے چھلکتے ہوئے لہجے میں ایک نے دوسرے سے کہا تھا۔

”اوئے، ساڈے گھر بن جان گے تے اِدھا (عمران کا) ہسپتال بن جائے گا۔“ (افسوس کہ میں لاہور کا پنجابی ہو کر بھی اپنے ناقص نظام تعلیم کی وجہ سے پنجابی نہیں لکھ سکتا) بہر کیف سلیم اور عامر سہیل صاحبان کے درمیان میں یہ مکالمہ سن کر ہی میرے دل میں غریب قوم کے ساتھ عمران کے جنونی عشق کے لئے محبت کی ایک چھوٹی سی کونپل پھوٹی تھی۔جو آج سدا بہار پھول بن چکی ہے۔


اسلام آباد گزشتہ چودہ دنوں سے بند پڑا ہے۔ ایسے حالات میں میرے گھومنے پھرنے کے شوقین وزیر اعظم ترکی جا رہے تھے۔بقول اُن کے انہیں کسی ایک جگہ چین نہیں ملتا۔جب کہ غریب ممالک کے وزرائے اعظم دن رات محنت کر کے دنوں میں بوڑھے ہو جاتے ہیں۔لیکن ہمارے وزیر اعظم نے گھومنے پھرنے اور خاندانی بزنس کی آبیاری کے لئے اپنے ڈیڑھ سالہ دور حکومت میں پندرہ کے قریب بیرونی دورے کر لئے ہیں۔

سوال ہے آج تک انہوں نے جتنے بھی دورے کئے ہیں، اُن سے قوم کو کتنا فائدہ ہوا ہے، اس کے بارے میں کوئی خبر کبھی نظروں سے نہیں گزری؟
دوسری بات جس پر مجھے اپنے مسلمان لیڈروں پر حیرت ہوتی ہے۔وہ یہ ہے کہ شائہ ایران کے عبرت ناک انجام سے ہمارے مسلمان لیڈروں نے کچھ نہیں سیکھا۔حالانکہ اُس وقت منی لانڈرنگ کا قانوں بھی نہیں تھا، اگر بیرون ِ ملک کسی کاروباریا جائیداد پر خرچ کئے گئے اور بنکوں میں نقد سرما ئے کو منی لانڈرنگ کے قانو ن سے پاک نہ کرایا جا سکے تو ایسی صورت میں منی لانڈنگ کے قانون کی زد میں آ کر بہت کچھ گنوایا جا سکتا ہے۔

بالخصوص ایک نقصان یہ بھی ہوتا ہے کہ دنیا کی سپر پاور کے ساتھ بات کرتے ہوئے منی لانڈرنگ کے قانون کا ڈر ہی سر اٹھا کے بات کرنے کی ہمت نہیں دیتا۔ عمران خان کے پاس امریکی مفادات پر اپنے قومی مفادات کو فوقیت دیتے ہوئے اپنی کس چیز کے ضبط ہونے کا خوف ہو سکتا ہے ، بقول ان کے زندگی بھر کرکٹ کھیل کرجو کچھ انگلینڈ میں کمایا تھا اُس کمائی کا ایک ایک پیسہ اپنے ملک میں لے آئے ہوئے ہیں ۔

اُن کا کسی بیرونی بنک میں نقد سرمایہ ہے اور نہ کوئی جائیداد ہے۔ایک قیمتی اپاٹمنٹ تھا ،جسے بیچ کر انہوں نے پاکستان میں گھر بنا لیا ہے۔جو کچھ ہے اپنے ملک میں ہے۔بس یہی بات ہے کہ وہ امریکہ اور انگلنیڈ یا کسی بھی بیرونی ملک کے بارے میں ہر سچی بات کر لیتے ہیں۔بھلہ انہیں اپنی کس چیز کو بچانے کا خوف ہو سکتا ہے۔؟ ِ بقول غالب کے
گھر میں تھا کیا کہ ترا غم اُسے غارت کرتا
وہ جو رکھتے تھے ہم اک حسرت ِ تعمیر، سو ہے
میاں نوازا شریف کئی دنوں سے یہ سوال اٹھا کر کہ عمران کے احتجاج کا سکرپٹ کس نے لکھا ہے؟ اشاروں کنائیوں میں قوم کے دل میں افوج ِ پاکستان کے لئے بد گمانیاں پیدا کر رہے تھے۔

جب کہ چیف آف آرمی سٹاف کا کردار یہ رہا ہے کہ غیر آئینی دھندے کون کر رہا ہے؟سانحہ ماڈل ٹاوٴن کے بعد ”اے۔آر۔وائی “ کے لوگوں پر محض اس جرم میں کہ پاکستان میں سچ بولنا منع ہے۔قاتلانہ حملے ہو رہے ہیں۔ جنرل راحیل شریف نے سول کے معاملے میں دخل اندازی نہیں کی۔ آج بھی وزیر اعظم نے اپنی سیاسی سمجھ بوجھ کے دیوالیہ پن کا اعلان کرتے ہوئے انہیں اپنے اور عمران خان و طاہر القادری کے درمیان ثالثی کرنے کی دعوت دی ہے۔

لیکن اے۔آر،وائی کے مطابق ان کا جواب تھا۔پہلے سانحہ ماڈل ٹاوٴن کی ایف۔آئی۔آر کاٹو۔جو شہباز شریف کے خلاف کٹ چکی ہے اور چیف آف آرمی سٹاف کل عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری سے مل کر مذاکرات میں طے پانے والی باتوں کی ضمانت دے کر اس معاملے کو حل کرانے کی کوشش کریں گے۔ثابت ہوا ۔کفر کا نظام چل سکتا ہے۔ظلم کا نہیں، ظالم کو اللہ کی بے آواز لاٹھی کو اپنے مظالم کا حساب دینا ہوتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :