ڈار کی دھار !!!

بدھ 4 مارچ 2015

Nadeem Tabani

ندیم تابانی

گزشتہ دنوں وزیرخزانہ اسحاق ڈار میاں صاحب سے مل کر آئے تو سوچوں میں گم تھے،میاں صاحب نے آنے والے بجٹ میں ایسی پلاننگ کا مطالبہ کیا تھا جس سے حکومت کی آمدن میں ٹھیک ٹھاک اضافہ ہو، ایسا اضافہ جس میں عوام پر زیادہ بوجھ بھی نہ پڑے اور حکومت کے ہاتھ مال آجائے ، جیسے قرضہ فراہمی اسکیم کے دوران فارم کے ذریعے آمدن ہوئی تھی۔ چناں چہ اسحاق ڈار صاحب بیڈ پر لیٹے اضافے کی ترکیبیں سوچنے لگے،موبائل ہاتھ میں تھا، الٹتے پلٹتے جا رہے تھے، اچانک ان کا ذہن چل پڑا، ذہن چلنا تھا کہ ڈار صاحب اچھل پڑے۔


”وہ مارا ! اب آئیں گے نا بکرے چھری تلے، نہ صرف بکرے بلکہ بکروں کی مائیں بھی ، یہی نہیں بلکہ د نبے اور مرغے بھی ، اور ان سب کی آل اولاد بھی، موبائل کی سروسز پر ٹیکس لگا دیا جائے تو! نوٹوں کی بارش ہو جائے گی، ایک موبائل سے کتنے کام لیتے ہیں لوگ، نام موبائل کا اور سارا جہان مٹھی میں دبائے بیٹھے ہیں ، چلتا پھرتا فون، ریڈیو ، ٹی وی ، انٹر نیٹ ، کیلکولیٹر ، گھڑی، الارم کی سہولت ، کمپیوٹر جیسی خصوصیات رکھتے موبائل، خرید فروخت اسی سے کرتے ہیں، پیسے منگوانے ہوں یا بھجوانے ، ڈاک خانے کا کام بھی لیتے ہیں ،بنک کاکام بھی موبائل سے ہونے لگا ہے۔

(جاری ہے)

اگر ایک ایک کر کے ان پر ٹیکس لگایا جائے تو تو تو ! !! پہلے ریڈیو پر لگاتے ہیں ، پھر ٹی وی پر لگائیں گے، پھر انٹر نیٹ پر۔طریقہ بہت آسان ، سادہ اور سلیس ، بیلنس ڈلوائیں، کارڈ لوڈ کروائیں ،بل اد کریں اسی وقت ریڈیو ٹیکس کاٹ لیا جائے، کئی ایک کے پاس دو دو ، تین تین موبائل اوراکثر لوگوں کے پاس کئی کئی سمیں ہیں، ہر موبائل اورہر سم پر الگ الگ ٹیکس کاٹا جائے تو کتنا مزہ آئے گا، اپنے میاں صاحب کتنے خوش ہو ں گے یہ ترکیب سن کر۔


####
واہ اسحاق ڈار صاحب واہ ! کیا کہنے آپ کے ! کیا دماغ پایا ہے آپ نے ! بات تو واقعی سحیح ہے موبائل ریڈیو سروس فراہم کرتے ہیں، چلتے پھرتے ریڈیو ، خبریں ، میچ کی کمنٹری، لطیفے، شاعری ، گانے ، کھانے کی ترکیبیں ۔ ٹی وی کی مد میں دہرا ٹیکس لگنا چاہیے ، آوازیں بھی سنتے ہیں اور تصویریں بھی دیکھتے ہیں۔پروگرام کے دوران لوگ کال کرتے ہیں، کیسی کیسی خوب صورت آوازیں سننے میں آتی ہیں۔

اور انٹر نیٹ کی سہولت کے تو کیا ہی کہنے !گویاموبائل ہوتے ہوئے آدمی تنہا ہو کے بھی تنہا نہیں ہوتا ، اس لیے دوستی ٹیکس بھی لگنا چاہیے ، پھر لڑکوں کے لیے لڑ کیوں اور لڑکیوں کے لیے لڑکوں کی دوستی کی سہولت ہر وقت موجود، جو کہیں جیسا کہیں ، جتنا کہیں ، جتنی بار کہیں ، نہ صرف کہیں بلکہ تصویریں بھی پاس کریں، گڈ مارننگ اور گڈ نائٹ کے بہانے ہی کیسی کیسی تصویریں آر پار ہوں اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو، اس سب پر ٹیکس لگنا چاہیے۔

اور فیس بک کے استعمال پر الگ ٹیکس ہونا چاہیے ! اس لیے کہ فیس بک تو شاید ہنڈرڈ ان ون کی سہولت دیتا ہے۔ نام بدل کر ، کام بدل کر ، جنس بدل کر، ذات بدل کرجو بھی کہیں ، جو بھی کریں ، جس سے بھی ۔ آپ کی مرضی۔
####
یہ جوحکومت نے سموں کی بائیو میٹرک تصدیق کا شوشہ چھوڑا تھا، کیا کمال کا شوشہ تھا، ایک پنتھ کئی کاج ۔ اربوں کی آمدن ہو گئی ، حکومت کو آمدن کی طلب اور تڑ پ تھی ، کروڑوں لوگوں نے حکومت کی یہ تڑپ بانٹ لی ، بلکہ تڑپ تڑپ کر بانٹ لی عوام کو بوجھ بھی محسوس نہیں ہوا ، بلکہ فائدہ ہی فاہدہ لگا انہیں، حکومت کی جیب گرم ہو گئی ، حکومت کے ساتھ ساتھ موبائل کمپنیوں کی بھی جیبیں گرم ہو گئیں۔

لوگ دھڑا دھڑ سمیں اپنے نام کر وارہے ہیں، جن کے شناختی کارڈ نہیں بنے وہ بنوا بنوا کے سمیں اپنے نام کر وا رہے ہیں ، ایک ایک کے پاس کتنی کتنی سمیں ہیں، آگے چل کر اس میں بھی ٹیکس کی کئی راہیں کھل سکتی ہیں۔
####
کہا جا تا اسحاق ڈار دھونے کے بھی ماہر ہیں اور نچوڑنے کے بھی ، خاص طور پر نچوڑنے کے تو بہت ہی ماہر ہیں۔آئی ایم ایف والے بھی اش اش کر اٹھتے ہیں،گمان کیا جا رہا ہے 2018تک ٹیکس کی ایسی ایسی ترکیبیں نکالیں گے کہ نہ صرف ٹیکس دینا پڑے گا ،بلکہ کئی کئی بار دینا پڑے گا، خوشی سے دیں یا غم سے دینا تو پڑے گا، یہ مت سوچیے کہ آپ کا ا نکم ٹیس والوں کے پاس ریکارڈ نہیں، آپ کا شناختی نمبر ہی آپ کا ٹیکس نمبربن رہا ہے ، لنگوٹ کس لیجیے ٹیکس دینے کے لیے !یہ مت سوچیے کہ فلاں نہیں دے رہا اس کو سرکاری چھوٹ ہے تو میری پکڑ کیوں ؟ میں بھی نہیں دوں گا ۔

آپ کے تو اچھے بھی دیں گے ۔ڈار کی دھار سے بچ کے تو دکھائیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :