دھرنے ختم ‘سیاست شروع

جمعرات 23 اکتوبر 2014

Muhammad Saqlain Raza

محمد ثقلین رضا

عوامی تحریک کے رہنما ڈاکٹر طاہر القادری نے بالآخر ستر دن کے بعد دھرنے ختم کرنے کا اعلان کردیا ‘یوں تو کئی دنوں سے امید کی جارہی تھی کہ یہ دھرنے اپنے انجام کو پہنچنے والے ہیں کیونکہ چوہدری پرویز الہیٰ دو دن قبل عندیہ دے چکے ہیں کہ محرم کے احترام میں کوئی جلسہ جلوس دھرنا نہیں ہوگا دوسری جانب عوامی تحریک کی سب سے بڑی معاون جماعت مجلس وحدت مسلمین محرم کو سوگ کے مہینہ کے طورپر مناتی ہے ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں وہ کیونکر دھرنے میں ساتھ دے پاتی
یوں بھی آغاز محرم سے ہی پورا پاکستان طرح طرح کے خدشات میں مبتلا ہوجاتاہے خاص طورپر ان د س دنوں کیلئے باقاعدہ سیکورٹی پلان مرتب کیاجاتا ہے‘ گویا معمول کی سرگرمیاں معطل ہوکر رہ جاتی ہیں ایسے میں یقینا سیاست اور وہ بھی اتنے کڑے انداز میں‘ یقینا انہی مشکلات کے پیش نظر دھرنے ختم کرنے کا اعلان کیاگیا ۔

(جاری ہے)

تاہم ڈاکٹر طاہرالقادر ی نے ملک بھر میں احتجاجی دھرنوں کا اعلان کیا جس کے تحت وہ مختلف شہروں میں احتجاجی جلسے نما دھرنوں کاپروگرام بھی مرتب کرچکے ہیں۔دوسری جانب عوامی تحریک کی پارٹنر یعنی دھرنے کی سب سے بڑی معاون جماعت عرف عام میں یوں کہاجاسکتا ہے کہ چھوٹے بھائی کی جماعت تحریک انصاف نے تاحال دھرنا جاری رکھا ہوا ہے یہ جاری تو ہے مگر اس میں اب وہ پرانا رنگ باقی نہیں البتہ کچھ رونق میلہ باقی ہے جو محرم کے شروعات میں ہی ختم ہوجائیگا ۔

اس طرح انصافی دھرنا بھی اپنے انجام کو پہنچنے کے قریب ہے
صاحبو! دھرنے ختم ہوگئے ‘ سوال یہ پیداہوتا ہے کہ کیا ان دھرنوں سے ”گلاس “ توڑنے کے سوا بھی کچھ حاصل ہوا ‘قرآئن کے مطابق ”گونواز گو “ سب سے بڑی حقیقت بن کر سامنے آیا ہے اس نعرے کی مقبولیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتاہے کہ حجاج کرام نے شیطانوں کوکنکریاں مارتے ہوئے بھی یہ نعرہ بلندکئے رکھا۔

خیر وہ منظرکیساہوگا ؟یہ الگ بحث تاہم 14اگست کے بعد سے پاکستانی سیاست کی شب دیگ مسلسل گرم رہی ‘ کبھی تو اس میں پولیس کریک ڈاؤن کا تڑکہ لگایاجاتارہاتو کبھی جوابی پتھراؤ کی صورت جوابی تڑکہ سامنے آیا۔کئی لوگ جانوں سے گئے گویا ان کا خون بھی ساٹھ ستر دن مسلسل آگ کے الاؤ پر چڑھی دیگ میں شامل ہوا ۔ گو کہ ”چھوٹے بھائی“ کے دھرنے میں ہونیوالے ”شغل میلہ“ پر اچھا خاصا اعتراض بھی سامنے آیا مگر وہ اپنی لگن میں لگے رہے اورآج بھی یہ سلسلہ جاری ہے ۔

”شغل میلے“ سے یاد آیا کہ ٹیلیویژن چینلز کے پروگراموں میں چھوٹے بھائی کے اس شغل میلے پر تنقید کرنے والی پیپلزپارٹی کی ایک خاتون رہنما بھی بلاول بھٹو کی کراچی آمد پر اسی رنگ میں رنگی ہوئی نظرآئی جس پر انصافین نے خوب انداز میں”جواب آں غزل“ کہی۔
ان دھرنوں کے فوائد ‘نقصانا ت سے ہٹ کر دیکھاجائے تو پاکستان کی دو بڑی اورماضی کی سخت حلیف مگر اب ”میثاق جمہوریت “ کی راکھی میں بندھی دو جماعتیں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ میں بڑھتی ہوئی دوریاں کم ہوئیں اور وہ ایک دوسرے کے اتنے قریب آگئیں کہ یکجان سی محسوس ہونے لگی ہیں۔

میثاق جمہوریت کے بعد دونوں جماعتوں کی مثال دریا کے دو کناروں کی طرح دی جاتی رہی کہ جو آپس میں مل تو نہیں سکتے البتہ ساتھ ساتھ ضرور چلتے ہیں ۔
صاحبو!تحریک انصاف نے کچھ کھویا یا پایا ہومگر ا س نے ملک بھر میں عمومی اورپنجاب میں خصوصی طورپر دونوں بڑی جماعتوں کے ووٹ بنک کو نقصان پہنچایا ہے تاہم اگر نتائج کی آنکھ سے دیکھاجائے تو پیپلزپارٹی زیادہ خسارے میں رہی ۔

ان دنوں ایک تصور بڑی تقویت پارہا ہے کہ ماضی میں وفاق کی علامت قرار پانیوالی جماعت اب صرف ایک صوبے یعنی سندھ تک محدود ہوچکی ہے تاہم کراچی جلسے نے ایک اورعقدہ بھی کھول دیا کہ سندھ کے شہری علاقے اس جماعت کے ہاتھ سے نکلتے جارہے ہیں چھوٹے ‘پسماندہ اوردیہی علاقوں میں ابھی ”بھٹوازم“ ضرور نظرآرہا ہے تاہم اگر 2008سے 2013کے دورانئیے میں جاری رہنے والی پالیسیوں کوتسلسل کے ساتھ باقی رکھاگیاتو پھر یہ دیہی علاقے بھی اس جماعت کے شکنجے سے نکل جائیں گے ۔


پیپلزپارٹی کو توقع تھی کہ وہ اپنی پانچ سالہ ناکامیوں کو بلاول بھٹو کی صورت کامیابیوں میں بدل دے گی مگر یہ خام خیالی ہی ثابت ہوئی اور بلاول بھٹودوسری جماعتوں پرتو کجا اپنی جماعت کے دیرینہ کارکنوں پر کوئی تاثر چھوڑنے میں ناکام رہے ۔چہ جائیکہ وہ اپنی والدہ (جن کی وجہ سے اپنے نام کے ساتھ بھٹو لکھتے ہیں) کے طرز سیاست کو اپناتے انہوں نے والد محترم کے مشیروں کے رحم وکرم پر اپنی سیاسی کشتی چھوڑ رکھی ہے اور یہ مشیران بلاول بھٹو کی کشتی کو ڈبونے کا فریضہ خوب انجام دے رہے ہیں۔

فی الوقت تو کہیں سے نہیں لگ رہا ہے کہ بلاول زرداری بھٹو فیصلہ سازی میں ماہر ہیں یا وہ پارٹی کے حوالے سے پختہ فیصلے کرسکتے ہیں فی الوقت وہ اپنے ”اباجی“ کے مشیران کے رحم وکرم پر ہیں ۔گویا نام ان کا اور کام ان کے ابا جی کا چل رہاہے
آخری بات کہ فی الوقت مڈٹرم انتخابات کی خو کہیں سے بھی نظر نہیں آرہی ‘تاہم اگر کوئی ”چمتکار“ ہوا بھی موجودہ صورتحال میں پیپلزپارٹی کیلئے دوسری بڑی جماعت کارتبہ بحال کرنا بھی محال ہوگا چہ جائیکہ وہ بقول گیلانی پھر اقتدار میں آسکے۔

کیونکہ بقول عمران‘ قادری اب باریوں کی حاکمیت کا دور گزرچکا ۔دیکھنا یہ ہے کہ ن لیگ اورپیپلزپارٹی اپنا ایک ایک دور مکمل کرنے کے بعد مارشل لاء کیلئے کیسے راستہ ہموار کرتی ہیں تاکہ مارشل لاء کے بعد ان کیلئے باریوں کے کھیل کادوبارہ راستہ ہموارہوسکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :