دھرنے بنتے مارچ ،ایک تیسرا پہلو

منگل 16 ستمبر 2014

Farhan Ahmed Fani

فرحان احمد فانی

ایک ماہ ہونے کو ہے ۔اسلام آباد میں سجے دھرنوں کی رونق بدستور قائم ہے ۔مذاکرات کے کئی دور چلے ۔جماعت اسلامی کے سرخیل سراج الحق مناسب حل کی امیدیں دلاتے رہے ۔لیکن اب ان کی آواز میں اس درجہ اعتماد نہیں رہا ۔اپنے تئیں احتجاجیوں اور سرکارکو تیسرا باعزت راستہ دکھانے کے بعدکنارے ہوتے دکھائی دے رہے ہیں ۔بر سر اقتدار پارٹی کے وزراء کا کہنا ہے کہ تما م مطالبے مان لئے،استعفیٰ دینے کی بات نہیں مان سکتے۔

جبکہ عمران خان اسی کو بنیادبناتے ہیں۔وہ کہتے ہیں پہلے نواز شریف کا استعفیٰ پھر کوئی اور بات ہو گی۔یہ غالباً پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ حزب اختلاف اور اقتدار کسی موقف پر اتنی مضبوطی سے ہم آواز ہوئے ہیں ۔اور بہت مرتبہ ان کی تقاریر سے ایک دوسرے کے ترجمان ہونے کا تأثر بھی ملا ہے ۔

(جاری ہے)

ڈاکٹر طاہر القادری بھی تسلسل کے ساتھ کینٹینر کی چھت پر چڑھ کر سسٹم پر چار حرف بھیج رہے ہیں۔

وہ استعفوں سے کچھ آگے کی بات کر رہے ہیں۔ہر پاکستانی کے ذہن میں یہ سوال گردش کر رہا ہے کہ اس سارے تماشے کا ڈراپ سین کا ہو گا؟ابھی بظاہر اس کا کوئی ٹھوس جواب نہیں دیا جا سکتا۔
جب طاہر القادری اور عمران خان نے لاہور میں اپنے عزائم کااظہار کیا تو عام خیال یہ تھا کہ بس اسلام آباد پہنچنے کے کچھ ہی لمحوں بعد تخت یا تختے کا فیصلہ ہو جائے گا۔

مختلف پیشن گوئیاں سامنے آئیں ۔کچھ نے کہا کہ میچ فکسڈ ہے ۔تین دن مصنوعی دھرنے کے بعد کسی وقتی کامیابی کو بنیاد بنا کے فیس سیونگ کر لی جائے گی ۔کچھ دھرنوں کے اسکرپٹ رائٹرز کی کھوج کرید میں رہے ۔غرض بھانت بھانت کے تبصرے تھے۔مگر اکثر غلط ثابت ہوئے۔پھر جب دھرنوں کا دورانیہ طوالت اختیا ر کرنے لگا تو مبصرین محتاط ہو گئے ۔صورتحال کے بارے میں پیشگی بات کرنا مشکل ہو گیا۔

تجزیہ کار رات کسی ٹی وی ٹاک شو میں کچھ کہتے صبح دھرنے کے کرتا دھرتا معاملے کا رخ کسی اور سمت موڑ دیتے ۔ابھی تک یہی صورت حال جاری ہے ۔بیچ میں سہولت کاری کی بات بھی آئی ۔کافی کھچڑی بنی۔تیسری قوت کے لئے پر امید لوگوں کی امیدیں کچھ لمحے کے لئے ہری ہونے کے بعد مرجھا سی گئیں۔
قطع نظر اس بات کے کہ کون درست اورکون غلط ہے، ان دھرنوں میں کچھ چیزیں ذرا ہٹ کر دیکھی جا رہی ہیں۔

پہلی چیز ان کے دورانیے کی طوالت ۔پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار لوگ کسی لیڈر کے ساتھ اتنا طویل احتجاج کررہے ہیں۔ایک اور جہت سے دیکھیں تو پاکستانی قوم ایک تربیتی مرحلے سے گزر رہی ہے۔دھرنوں کے شرکاء کی مسلسل حاضری نے اسٹیمنا ختم ہو جانے کے تأثر کو مسترد کر دیا ۔اور اس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مناسب منصوبہ بندی کے ساتھ کسی درست کاز کے لئے اگر پاکستانی عوام نکلنا پڑھے تو وہ کافی حد تک اس کے لئے تیار ہوں گے ۔

دوسری چیز یہ کہ ان دھرنوں سے ایک عام آدمی کے سیاسی شعور میں اضافہ ہو رہاہے ۔مجھے کئی لوگ ایسے ملے جن کا کہنا تھا کہ ہم نے زندگی میں پہلی بار پارلیمنٹ کے اجلاس دیکھے۔عمران خان اور طاہر القادری کی تقاریر کے منتظر لوگ باہم مباحثے کرتے نظر آئے ۔مجھے دستیاب ٹی وی لاوٴنج میں چوکیدار چپراسی قسم کے لوگوں کا انہماک ۔یہ سب چیزیں ظاہر کرتی ہیں کہ اب عام آدمی اپنے اور ریاست کے درمیان تعلقات اور معاملات کو سمجھنے کے کوشش کر رہا ہے ۔

وہ یہ سمجھنے کی کوشش کر رہا ہے کہ مہنگائی کیوں ہوتی ہے؟ٹیکس کا پیسہ کیسے جمع کیا اور کہاں لگایا جاتا ہے؟بینکوں کے قرضے کن لوگوں کو ملتے ہیں؟اور کیونکر معاف ہوجاتے ہیں؟پرچے اور ایف آئی آرز کیوں وقت پر نہیں کٹتیں؟ بار بار آئین کا لفظ سنا جا رہاہے۔جمہوریت کی بات کی جارہی ہے۔سو اب اس کے ذہن میں اگرچہ کم اور نسبتاً بے ضرر مگر سوال تو پیدا ہو رہے ہیں۔

اور سوال جواب مانگتے ہیں ۔جوابوں کی کھوج عمومی شعور میں اضافہ کا باعث بنتی ہے۔سو اس لحاط سے یہ ایک اہم مرحلہ ہے۔
تیسری چیز یہ کہ ان دھرنوں نے لوگوں کو جمع رکھنے کے لئے کچھ نئے رجحانات متعارف کرائے ہیں۔تحریک انصاف کے دھرنے میں وقفے وقفے سے موسیقی کا استعمال اس کی مثال ہے ۔شرکاء موسیقی سے لطف اندوزہو تے ہیں اور رقص کرتے ہیں۔اور ان وقفوں میں عمران خان ذرا سستا لیتے ہیں۔

اس کے علاوہ رقص کرنے والے گھوڑوں اور علاقائی رقص کرنے والے انسانوں کی ٹولیاں مسلسل مجمعے کو تازہ دم اور گرم رکھتی ہیں۔طاہر القادری کے ہاں قوالی کی محفلیں بھی اسی مقصد کے تحت لگائی جا رہی ہیں۔چائے کے اسٹالز اورروٹیاں بنانے کے لئے تندور سب موجود ہیں۔دھرنے والوں نے اپنے شرکاء کو اکتاہٹ سے بچانے کے لئے یہ انوکھے طریقے متعارف کرائے ہیں۔

یہ سب چیزیں کسی بھی احتجاجی تحریک کو طویل عرصے تک زندگی بخشنے کی ضمانت ہوتی ہیں۔
چوتھی چیز یہ دیکھی جارہی ہے کہ مضافات کے لوگ دن بھر اپنی مصروفیات میں رہنے کے بعد رات اپنے قائدین کی تقاریر سننے اور جلسوں کی رونق بڑھانے دھرنوں میں حاضر ہو جاتے ہیں۔اس طرح ان کے کام اور دھرنے دونوں ساتھ چلتے رہتے ہیں۔پانچویں چیز نوجوانوں کی کثیر تعداد میں شرکت ہے ۔

یہ پہلا موقع ہے سیاست سے بیزار نوجوان اس جانب راغب ہو رہے ہیں۔اور کچھ ہو نہ ہو کم از کم فریقین کی تقاریر ،پریس کانفرنسز ،عدلیہ،مقنّنہ ،انتظامیہ،میڈیا اوراسٹیبلشمنٹ وغیرہ کے کردار کا کافی حد تک شعوری مشاہدہ تو بہر حال کر رہے ہیں۔نوجوانوں کی بیٹھکوں اور سوشل میڈیاپرگپ شپ کے موضوعات میں واضح فرق دیکھا جا رہا ہے۔یہ سب حالات دیکھ کر ہمیں ماننا پڑتا ہے کہ ان طویل المدتی دھرنوں نے سماج کے رویّوں کو ایک خاص جہت سے متاثر ضرور کیا ہے۔


گزرے دنوں میں مظاہرین کی پارلیمنٹ کی جانب پیش قدمی،پولیس اور مظاہرین کی ہاتھا پائی اور شیلنگ،قومی نشریاتی ادارے پر دھاوا ،یہ سب واقعات معاملے کو کشیدگی کی انتہائی حد تک لے گئے تھے ۔لیکن اب ایسا نہیں ہے۔حکومتی اراکین کے لب و لہجے میں کچھ اعتماد دکھائی دے رہاہے ۔لیکن کیا کیجیے طاہر القادری اور عمران خان کی ہر نئی تقریر پھران کے اعتماد کومتزلزل کر دیتی ہیں۔

یہ کہنا مشکل ہے کہ عمران خان اور طاہر القادری کے ان اعتماد بھرے خطابات کا راز کیا ہے ۔ہاں!پیچ میں موسمی کروٹ سے یہ تاثر ابھرا کہ اب لوگ چلے جائیں گے لیکن تاحال ایسا کچھ ہوا نہیں۔پنجاب کے کا بہت بڑا علاقہ سیلاب کی زد میں ہے ۔اڑسٹھ سالوں میں مناسب منصوبہ بندی نہ کرنے کی سزا اب بند توڑے جانے کی وجہ سے دیہی علاقوں کے غریب عوام کو بھگتنی پڑ رہی ہے ۔پاکستان کی اکثریتی آبادی دیہات میں رہتی ہے ۔اگران افراد کی مناسب انداز میں دادرسی نہ کی گئی تو حکومت کے لئے ان متاثرین کی نفرت اور ناراضگی کوئی بھی روپ دھار سکتی ہے ۔اور اگر وہ در بدر اور درماندہ لوگ بھی دھرنے والوں کے ہمنوا بن گئے تو سب کچھ تلپٹ ہو جائے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :