چلو بھٹو تو زندہ ہے

منگل 21 اکتوبر 2014

Hussain Jan

حُسین جان

بچپن سے سنتے سنتے کان پک گئے ہیں کہ پاکستان میں قائد کے بعد اگر کوئی لیڈر تھا تو وہ زولفقار علی بھٹو تھے۔ مان لیتے ہیں ایسا ہی ہے مگر یہ کیسے لیڈر تھے کہ جب سیاست میں عروج پر تھے تو اُس وقت ملک کو نہیں بچا پائے ۔ہمارے نام نہاد تاریخ دان بھی عوام کو گمرہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے آپ ایک کتاب کو پڑھ کر دیکھ لیں تو اُس میں بھٹو صاحب کو سانحہ مشرقی پاکستان کا زمہ دار ٹھہرایا گیا ہے دوسری پڑھیں تو اُس میں سارا ملبہ فوج پر گرا دیا گیا ہے۔

چلیچھوڑیں اس بات کو یہ تو تاریخ کا حصہ ہے جو پاکستان میں ہمیشہ مسخ کرکے ہی بیان کی جاتی ہے ۔ ہمارے ایک جیالے دوست ہیں جو بڑئے فخر سے ہمیں بتاتے ہیں کہ ملتان میں پی پی پی کو پانچ ہزار نظریاتی ووٹ پرئے ہیں جو کہ خالصتا بھٹو کے نام پڑ ڈالیں گئے ہیں ایک جیالے کے منہ سے اس بات کو سننا عجیب لگتا ہے کہ لاکھوں ووٹ لینے والی جماعت کے کارندے اب مانچ ہزار ووٹوں پر بھی خوش ہیں کہ چلو کچھ تو آیا۔

(جاری ہے)


تمام مذاہب کے بھکاریوں کا بھیک مانگنے کا اپنا اپنا انداز ہوتا ہے کوئی اللہ کے نام پر مانگتا ہے تو کوئی بھگوان کے نام پر کسی نے بیوی بچوں کا واسطہ دینا ہوتا ہے تو کوئی نیک اولاد کی دُعا کر کے بھیک مانگتا ہے ۔ خیر ہم ووٹ مانگنے کو بھیک تو نہیں کہ سکتے مگر کام اس میں بھی بھکاریوں جیسا ہی کرنا پڑتا ہے۔ پوری دُنیا میں روایت ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنے اپنے منشور پر ووٹ مانگتی ہیں۔

سابقہ برسراقتدار پارٹیاں اپنی کارکردگی کی بنا پر خود کو ووٹ کا حق دار سمجھتی ہیں۔ قوم پرست جماعتیں تبدیلی اور اسی طرح کا کچھ نیا کرنے پر ووٹ کی طلب گار ہیں مذہبی سیاسی جماعتیں مذہب کے نام پر ووٹ اکٹھاکرنے کا پلان بناتی ہیں اسی طرح ہر ایک کا الگ انداز ہے مگر دُنیا میں کوئی ایسی سیاسی جماعت نہیں جو اپنے گزر چکے لیڈروں پر ووٹ مانگتی ہولیکن ہمارے ملک کی ایک سیاسی جماعت کا وطیرہ ہی ہے کہ جب بھی کوئی بات کرنی ہو سب سے پہلے اپنے "شہیدوں"کا واسطہ دیتی ہے پھر کوئی اور بات کرتی ہے۔

یہ پارٹی پاکستان کے مستقبل اور حال پر کوئی بات کرنے کو تیار نہیں پر گزر چکے لوگوں کے نام کی دہائی دے دے کر پتا نہیں کیا کیا بیان دیتے ہیں۔ ان کو پانچ سال حکومت کرنے کا موقع بھی ملا مگر کارکردگی سب کے سامنے ہے۔ غریب مزید غریب ہوا اور جو کچھ بہتر تھے وہ بھی غریب ہی ہوئے۔ ایسی ایسی کہانیاں اخبارات کی زینت بنی کے خدا کی پناہ۔ لیکن یہ ابھی بھی خوش فہمی میں ہے کہ بھٹو صاحب کے نام پر ہمیں پھر ووٹ مل جائیں گے۔

کیا ہی اچھا ہو اگر یہ جماعت بھی اپنی کارکردگی کی بنا پر ووٹ مانگے ۔ لوگوں کے اچھے مستقبل کی زمانت دے۔
کراچی میں پی پی کا جلسہ بہت شاندار تھا مگر ساری دُنیا جانتی ہے کہ سندھ حکومت کے لیے دو سال میں ایک عدد بڑا جلسہ بھڑکانا کوئی بڑی بات نہیں تھی۔ کالے کپڑووں میں ملبوس خواتین پتا نہیں کس کو امپریس کرنے کے لیے بلائی گئیں۔
ویسے تو پورئے ملک کے حالات کچھ بہتر نہیں مگر کراچی کے حالات تو سب کے سامنے ہیں امن و امان کا نا ختم ہونے والا ایک ایسا سلسلہ چل رہا ہے جسے پی پی کی حکومت ختم کرنے میں بری طرح ناکام رہی ہے۔

پہلے بھی پانچ سال حکومت کی اب بھی ڈیرھ سال ہونے کو ہے چوری چکاری ،ڈاکہ زنی ،ٹارگٹ کلنگ عروج پر ہے اور تو اور بیچارئے ایدھی صاحب بھی لٹ گئے۔ لیکن خیر بھٹو تو زندہ ہے نہ۔ پاکستان کے پہلے وزیر آعظم جناب لیاقت علی خان صاحب بھی ایک جلسہ میں گولی لگنے سے شہید ہو گئے تھا اُن کا تعلق مسلم لیگ سے تھا ،ہوسکتا ہے آج کی لیگیوں کی کارکردگی کچھ بہتر نہ ہو مگر کبھی کسی نے لیاقت صاحب کا واسطہ دے کر ووٹ نہیں مانگا۔

کیونکہ یہ عزاز صرف پی پی والوں کے حصے میں آیا ہے۔ کتابوں میں تو یہاں تک بھی لکھا ہے کہ بھٹو صاحب بھی فوج کے کندھوں پر چڑھ کر سیاست میں وارد ہوئے تھے۔ کہنے کا مطلب ہے سیاست چلتی رہتی ہے اوتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں کبھی ووٹ ملتے ہیں کبھی نہیں ملتے لیکن بات بات پر کچھ لوگوں کا حوالہ دینا بھی مناسب نہیں ۔ سب کو پتا ہے بی بی بھی مشرف صاحب سے ڈیل کرکے ہی ملک میں تشریف لائیں تھی۔

اس میں بھی کوئی شک نہیں وہ ایک اچھی سیاست دان تھیں مگر یہ کیا بات ہوئی کہ آپ اُن کے نام کو کیش کروانے کی پلانینگ کرنا شروع کر دیں۔
کہتے ہیں ایک زمانہ تھا جب یورپ جہالت کی پستیوں میں گم تھا مگر مسلم دُنیا علم و فن میں عروج پر تھی۔ بہت سی چیزیں دریافت اور ایجاد ہورہیتھیں۔ ترقی کی منازل طے کی جارہی تھیں لیکن پھر ایک دم اس میں بریک آگیا مسلم دُنیا علم و فن میں بہت پیچھے راہ گئی اور یورپ نے ترقی کی ایسی بیل ڈالی جو آج تک پھل دے رہی ہے اور ہم آج بھی ایک ہی جگہ رکے ہوئے ہیں ہمیشہ انتظار میں رہتے ہیں کہ انگریز کوئی نئی چیز ایجاد یا دریافت کرئیں تو ہم اس سے فائدہ اُٹھا سکیں۔

ہم تو ڈینگی کا تدارک نہیں کرسکتے اور کیا کریں گے۔ لیکن چلو بھٹو تو زندہ ہے نہ۔ اگر ہم بھی ہر وقت یہی الاپ راگتیرہیں کہ مسلمان ایک وقت میں بہت ترقی یافتہ تھے تو کیا ہم موجودہ دنیا کا مقابلہ کرسکیں گے۔ اس کے لیے صرف اور صرف ہمیں خود ہی محنت کرنی ہو گی۔ ماضی کو یاد کرنا اچھی بات ہے مگر ماضی کے ساتھ چپٹے رہنا کہاں کی عقلمندی ہے۔ متحدہ نے پی پی کی حکومت سیعلیدگی کا علان کر دیا ہے اب پی پی اپنی تمام توانیاں اُسے واپس لانے میں سرف کر دے گی۔

جلسے جلوس اپوزیشن جماعتوں کو اچھے لگتے ہیں وہ بھی مرکزی حکومت کے خلاف یہ کیا بات ہوئی آپ سندھ میں خود حکومت میں ہیں اور اپنے ہی صوبے میں جلسے رکھنا شروع کر دیے۔ کے پی کے میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے مگر عمران خان نے وہاں ابھی تک ایک بھی جلسہ نہیں کیا کہ کوئی یہ نہ کہ دے کہ حکومتی مشینری کا استعمال کیا گیا ہے۔ لہذا پی پی کو چاہیے کہ آنے والے وقت کے بارے میں حکمت عملی اپنائے۔

سندھ میں اپنی کارکردگی کو بہتر سے بہتر کرئے ۔ لوگوں سے کیے گئے وعدوں کو پورا کرئے اور پھر اُس کی بنیاد پر آنے والے الیکشن میں ووٹ مانگے۔ یہ نا ہو پانچ سال پھر حکومت کے مزئے بھی لیں پروٹوکول کافائدہ بھی خود اُٹھائیں تمام سہولتیں اپنی جیب میں ہوں لیکن ووٹ پھر بھٹو کے نام کا ہی مانگا جائے۔ جو گزر گئے اُنہوں نے واپس نہیں آجانا جو زندہ ہیں اُن کی قدر کریں۔

ملکی مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرئیں آپ کو تو دعا کے لیے بھی ہیلی کاپٹر کی ضرورت پڑتی ہے۔ زمانہ بدل چکا ہے لوگوں کو اچھے برئے کی پہچان ہونا شروع ہو گئی ہے اب مزید کسی کے نام پر ووٹ نہیں ملے گا۔ اب بات ہو گی صرف اور صرف کارکردگی پر عوام اُسے ہی لائیں گے جو اُن کے لے بہتر ثابت ہوہر دوسرئے دن دوروں پر جانے والے عوام کے دکھ درد کو جلدی نہیں سمجھ پاتے۔

عوام کے پاس روٹی کپڑا مکان نہیں ،روزگار نہیں ،تعلیم نہیں، صحت کی سہولیات نہیں، پینے کو صاف پانی نہیں بجلی گیس نہیں۔ لیکن خیر بھٹو توزندہ ہے نہ۔
اگر آپ سچ میں بھٹو کا نام زندہ رکھنا چاہتے ہیں تو ملک کے عوام کی خدمت کریں اپنے تمام وسائل غریب لوگوں کی فلاح و بہبود پر لگا دیں اپنے اپنے اخراجات کم کرئیں ایک پیر لندن اور دوسرا پاکستان میں اس کو چیز کو بھی ختم کریں۔ ووٹ ضرور مانگیں لیکن بھکاریوں کی طرح نہیں اپنی کارکردگی پر سینہ تان کر مانگیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :