بلدیاتی انتخابات سیاسی و تاریخی معمہ

جمعہ 31 اکتوبر 2014

Muhammad Akram Awan

محمد اکرم اعوان

بلدیاتی نظام ِ حکومت کو جمہوریت کی نرسری کہاگیاہے۔جس سے جمہوری اداروں کی مضبوطی اور مقامی سطح پر سیاسی شعور اور قیادت پیداہوتی ہے۔بلدیاتی نظام، جمہوری طرز ِ حکومت کی ایسی بنیادی اکائی ہے جس میں نچلی سطح پر اقتدار و اختیارات کی منتقلی کے ذریعہ عوام کو براہ راست نظام حکومت میں شراکت داری کا موقع ملتا ہے۔ عوام کے روزمرہ کے مسائل،بنیادی شہری سہولتوں کی دستیابی مقامی، تحصیل اور ضلعی سطح پرممکن ہوتی ہے۔

اس نظام کے تحت تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندے کسی نہ کسی صورت میں اپنے حلقہ کے عوام کیساتھ رابطہ میں رہتے ہیں۔ جس سے عوام میں کسی حدتک صبروحوصلہ اورتسلی کے جذبات پیدا ہوتے اور مایوسی میں قدرے کمی واقع ہوتی ہے۔ پاکستان میں2005کے بعد بلدیاتی الیکشن نہیں ہوئے،حالانکہ ہر چار سال بعدمنصفانہ بلدیاتی انتخابات کا انعقاد تمام سیاسی جماعتوں کی مشترکہ ذمہ داری اور عوام کا بنیادی جمہوری اور آئینی حق ہے۔

(جاری ہے)

مگر ہمارے ساتھ المیہ یہ ہے کہ عام انتخابات سے قبل اپنے ووٹروں کومطمئن کرنے اورعوام کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لئے ہمدردعوامی حکومت اوراداروں کی مضبوطی ہرسیاسی جماعت کا منشور اورہرسیاسی راہنماکانعرہ ہوتا ہے۔ اسی طرح ہر بارعام انتخاب کے موقع پرتمام سیاسی پارٹیوں اور ان کے راہنماؤں کی طرف سے عوامی مسائل بلدیاتی انتخاب کے بعدبلدیاتی نظام کی بحالی کے ذریعہ حل کرنے اور حقیقی جمہوریت کے ثمرات عوام تک پہنچانے کے صرف وعدے کئے جاتے ہیں۔


جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ہمیشہ جمہوری ادوار میں عوام کو ان کے اس بنیادی اور آئینی حق سے محروم رکھا گیا۔ہر سیاسی دورمیں ہمارے سیاستدان ،قومی وصوبائی اسمبلیوں کے ممبران ہمیشہ بلدیاتی نظام سے خائف ،منحرف اوربلدیاتی انتخابات کے انعقادکی بجائے راہِ فرار اختیار کرتے نظرآئے۔ جب بھی بلدیاتی انتخابات کی صورت پید ا ہونے لگی، کبھی حالات کی ناسازی ،توکبھی حلقہ بندی کابہانہ کیا گیا۔

سیاسی طاقتوں کی طرف سے ٹال مٹول اور تاخیری حربے استعمال کرنے اورماضی میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد نہ کروانے کا مقصداور نیت عوام کے سامنے عیاں ہے کہ بلدیاتی انتخابات کے نتیجہ کے طور پر قائم ہونے والے نظام کی صورت میں سیاستدانوں اور بیوروکریسی کی ترقیاتی فنڈ کے نام پر لوٹ مار اور اختیارات میں کمی واقع ہوتی ہے ۔مرکز اور صوبائی سطح پراکثریت کی بنیاد پر قائم ہونے والی عوامی حکومتوں کا بھانڈا بھی بیچ چوراہے پھوٹنے کا خطرہ ہوتا ہے ۔

جب کہ سیاسی جماعتوں کی حکومتوں کے برعکس جنہیں ہم جمہوریت کے دُشمن سمجھتے ہیں ہمیشہ اُنہی نے بلدیاتی نظام بحال کیا اور مقامی حکومتوں کے ذریعہ عوام کے مسائل مقامی سطح پر حل کئے گئے۔
سابقہ عام انتخابات سے قبل بعض انقلابی راہنماؤں کی جانب سے تو 90دن کے اندربلدیاتی انتخاب کروانے کی یقین دہانی کروائی گئی جوکہ ابھی تک پوری نہیں ہوئی ۔

اب ایک بار پھر حالات سے مجبورعوام کوبلدیاتی انتخابات کے انعقادکی اُمیددلوائی جارہی ہے۔دیکھئے اب کی بارکیا ہوتا ہے۔چاہیے تو یہ تھا کہ عام انتخابات کے نتیجہ میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے قیام کے فوراََ بعدبلدیاتی انتخابات کی خلوص نیت سے تیاری کی جاتی اور بروقت انتخابات کے بعدبلدیاتی نظام بحال کردیا جاتا مگراعلی عدلیہ کی پوری کوشش کے باوجودآئین کی پاسداری کے دعویداروں نے مختلف حیلوں بہانوں سے بلدیاتی انتخابات نہ ہونے دیئے۔

موجودہ سیاسی بحران میں حکومت مخالف اجتماعات میں عوامی دلچسپی کی وجہ مہنگائی ،غربت ، بے روزگاری،بدامنی جیسے بے پناہ اسباب کے ساتھ ساتھ ایک سبب بلدیاتی نظام کی بحالی کے ذریعہ عوامی مسائل حل نہ کرنے اور حقیقی جمہوریت کے ثمرات عوام تک نہ پہنچانابھی ہے ۔
سیاسی دورِ حکومت میں بلدیاتی نظام کا تسلسل معطل ہو جانے کی وجہ سے مہنگائی ، بے روزگاری، دہشت گردی سے تنگ عوام اپنے بنیادی اور معمولی مسائل کے حل کے لئے در بدر کی ٹھوکریں کھانے سے مزید مایوسی کا شکار ہوجاتے ہیں۔

جس سے عوام میں سیاستدانوں کیخلاف نفرت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ پھرحالات سے مجبور، بنیادی مسائل کے بوجھ تلے دبے عوام بھاری مینڈیٹ اورسیاسی حکومتوں کی مدت پوری نہ کرنے پرحیلہ بازسیاست دانوں سے اپنی نفرت اور حقارت کا مظاہرہ بھنگڑے ڈال کراور مٹھائی تقسم کرنے کی صورت کرتے ہیں۔ آ ج عوام موجودہ حکمرانوں سے جس قدر مایوس ہوچکے ہیں ،اس مایوسی اورنفرت کاعوامی ردِ عمل بلدیاتی انتخاب کے موقع پر سامنے آئے گا۔

جس متوقع ردِ عمل سے عوامی نمائیندگی کے دعویدارابھی سے خائف نظرآرہے ہیں،اس بوکھلاہٹ کا مظاہرہ سرگودھا میں مسلم لیگ نون کے رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر ذوالفقاربھٹی کا سوئی گیس کے دفتر پردھاوا بول کر سرکاری اہلکار کو تھپڑمارنے جیسے واقع سے نظر آنا شروع ہوگیا ہے۔گزشتہ عام انتخابات میں عوام نے شہنشاہ ِتعمیرات انور علی چیمہ کی بجائے ڈاکٹر ذوالفقاربھٹی کو منتخب کیا،سرگودہا کے عوام کوممبرقومی اسمبلی کی طاقت کا کسی احساس ہونا اور حقیقی جمہوریت کے ثمرات کا عوام تک پہنچنا ضروری تھا۔

جب ماڈل ٹاؤن جیسے سانحہ کے بعد کچھ نہیں ہوا توایک معمولی سرکاری اہلکارکوتھپڑمارنے سے کون ساآسمان گر پڑے گا۔
اعلیٰ عدلیہ کی انتخابات کے انعقاد کے لئے مسلسل اور بھرپور کوشش کے بعدحکومت اور دیگر سیاسی جماعتوں کے راہنمابلدیاتی انتخابات کے انعقاد میں جس دلچسپی کا اظہار کررہے ہیں، اس سے ایک بار پھرسے بلدیاتی انتخابات جیسے سیاسی و تاریخی معمہ کے حل کی اُمیدپیدا ہوتی نظرآتی ہے۔

اب چونکہ بلدیاتی انتخاب کے انعقاد کے آثار نظر آنا شروع ہوگئے توحکومتی راہنماؤں کی طرف سے حالات میں بہتری پیداکرنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔ مگردوماہ سے زائدعرصہ سے جاری دھرنوں اور حکومت مخالف اجتماعات کے باوجود جیسے ہی کشیدگی اورسیاسی درجہ حرارت میں کچھ کمی واقع ہوتی ہے۔ حکومتی وزراء اور ممبران قومی اسمبلی کی طرف سے کوئی نہ کوئی ایسی حرکت یاایسا اچھوتابیان داغ دیا جاتا ہے،جو حکومت کی گرتی ساکھ میں مزید اضافہ کا باعث بنتا ہے۔

موجودہ حالات میں چاہیے تو یہ تھا کہ پچھلے ڈیڑھ سال سے زیادہ عرصہ کے دوران عوام کو سہولت اور ریلیف دینے ، غربت ، مہنگائی کم کرنے اورانرجی بحران کو کم کرنے میں جو کمی کوہتائی ہوئی اس کے ازالہ کے لئے عوامی پذیرائی حاصل کرنے والے مقبول اقدامات کئے جاتے۔ طاہرالقادری کا دھرنا ختم کئے جانے کے بعد وزیراعظم محترم جناب محمد نوازشریف صاحب کی گفتگوحوصلہ افزاء اور مصالحتی بیانات قابل ِ تعریف ہیں۔

اس لئے موجودہ حالات میں مسلم لیگ نون کے دیگر راہنماؤں کواپنے عمل اور بیانات کے باعث حکومت کے لئے مزید مشکلات پیداکرنے کے بجائے اپنے قائدمحترم جناب محمد نواز شریف کی پیروی کرتے ہوئے حالات کوبتدریج بہتری کی سمت لے جانے کی سعی اور کوشش کرنی چاہیے۔مگر افسوس کہ حکومتی وزراء اور راہنماؤں کی جانب سے بظاہرایسی کوئی کوشش نظرنہیں آتی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :