بچوں کا اشتیاق

پیر 23 نومبر 2015

Nadeem Tabani

ندیم تابانی

”جہاں بچے ، وہاں اشتیاق احمد“دھنک نگار کے حضرت ِاقدس کااز راہِ مزاح کہا گیا یہ جملہ اُس وقت حقیقت بن کر سامنے آیا ، جب جناب اشتیاق احمدرحمہ اللہ کوسفر آخرت پر رخصت کرنے والے ان کی قبر پر مٹی ڈال کر فارغ ہوئے ۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ سفر آخرت میں بھی جناب اشتیاق احمدکو بچوں کا ساتھ ملا ہے، یعنی ان کی قبر کے ساتھ 7ننے ننے بچوں کی قبریں ہیں۔

کل قیامت کے روز جب سب اپنی اپنی قبروں سے نکل کر میدان حشر کو چلیں گے تو ان شا ء اللہ اشتیاق احمد بچوں کی جھرمٹ میں ہوں گے۔اورکیا عجب فرشتے ایک دوسرے سے کہہ رہے ہوں :”ارے وہ دیکھو ! بچے اپنے اشتیاق کو لیے جا رہے ہیں “۔
####
انتہائی حساس ، ذرا ذرا سی بات محسوس کرنے والے ، ایک ایک کا درد دل میں بسانے اورخود کو اس غم میں گھلانے والے ،دوسروں کی تکلیف میں تڑپنے والے اشتیاق احمد نے جب جان جان ِ آفریں کے سپرد کی تو ان کے پاس ان کا کوئی جاننے اور چاہنے والا نہیں تھا،سب اجنبی تھے ، اشتیاق احمد کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے امڈ امڈ اور ہمک ہمک کر آنے والے لاکھوں قارئین اس بات سے بے خبر تھے کہ ان کے محبوب مصنف کو لینے کے لیے فرشتے آ پہنچے ہیں ، اب وہ کبھی اپنے اشتیاق کو دیکھ نہیں سکیں گے ، وہ جتنا بھی اشتیاق رکھیں ، ان کے اشتیاق کی کوئی نئی تحریر اب تخلیق نہیں ہوگی ۔

(جاری ہے)


####
لکھتے بچوں کے لییتھے، اس لیے بچوں ہی کی طرح سوچتے تھے، خود بھی کہا کرتے:” میں بھی تو ایک بچہ ہی ہوں“۔بڑوں کی موجودگی میں ان پر قدرے شرماہٹ اور گھبراہٹ طاری ہو جاتی تھی، لیکن بچوں کی محفل میں بے ساختہ پن ہوتا،کبھی کسی معصوم بچے کا روپ نظر آتا اور کبھی کسی چلبلے اور شرارتی بچے کی طرح لگتے ۔ ذرا سی بات دل پر لے لیتے ، ناگواری چھپانا ان کے لیے ممکن نہ تھا ،فوراناراضی کا اظہار کرتے مگر....... ذرا سی معذرت فورا قبول بھی کر لیتے، پھر وہی اشتیاق احمد ہوتے اور وہی ہنسی مزاح،وہی ان کے تعلق دار اور وہی ہنستے مسکراتے اشتیاق ۔

ایسا لگتا کچھ ہوا ہی نہیں ۔
####
غذاسادہ، لباس سادہ، رہن سہن سادہ، رہائش سادہ، نشست و برخاست سادہ، باتیں سادہ ، تحریر سادہ ہر چیز تکلف سے کوسوں دور، قلم کے علاوہ ہر چیز سادہ منتخب کرتے، قلم البتہ بہت قیمتی ہوتے ، اتنے قیمتی کہ سن کر عام لکھنے والو ں کو دانتوں پسینہ آجائے ، حیرت سے ڈوب ڈوب جائیں ، بہت سوں کو یقین بھی نہ آئے کہ قلم اتنے قیمتی بھی ہوتے ہیں۔

لیکن ان کی جان قلم میں تھی ،قلم ان کا ساتھی تھا، کچھ لوگ یہ سوچ کر کہ قلم ہدیے اور تحفے میں دیتے کہ لکھاری ہیں ، بہترین تحفہ قلم ہی ہو سکتا ہے ، لیکن شاید .......دو تین لوگ ہی ایسے ہوں گے..... جن کے دیے قلم .....جناب اشتیاق احمد کے ..معیار پر پورا اترتے تھے۔
####
اشتیاق احمد کواللہ نے پیدا ہی لکھنے کے لیے کیا تھا، صرف ان کے جاسوسی ناول آٹھ سو کے لگ بھگ تھے، دوسری کتابیں بھی دو سو کے قریب ہوں گی ۔

اور کہانیاں ......اتنی بے حساب کہ کسی انسان کے پاس ان کا ریکارڈ نہیں ہو گا، بیسیوں رسالوں میں شائع ہونے والی ہزاروں کہانیوں کا ریکارڈ کون رکھ سکتا ہے۔ خود حضرت ِ اشتیاق کواس کی فکر تھی ، نہ کبھی کوشش کی ، کوئی توجہ دلاتا توٹال دیتے۔ ہر کہانی بے مثال ، لاجواب ، پڑھنے والا خود کوکہانی کے ساتھ ہنستا مسکراتا ، روتارلاتا، چلتا پھرتا ، دوڑتا بھاگتا بلکہ کہانی کی روانی میں بہتا محسوس کرتا۔

کہانی چھوٹی ہویا بڑی پڑھنے والے کا دل تب تک اس میں اٹکا رہتا جب تک وہ مکمل نہ ہو جاتی ،جس مقابلے میں ان کی کوئی تحریر اور کہانی ہوتی پہلا انعام اسی کا ہوتا تھا۔
####
5جون 1942کو پانی پت میں پیدا ہونے والے حضرت ِاشتیاق 17نومبر2015کو کراچی کے قائد اعظم انٹر نیشل ایر پورٹ پراللہ کو پیارے ہو گئے ۔اپنے آخری سفر کراچی میں بار بار یہی کہتے پائے گئے کہ” بس یہاں اپنے بزرگوں اور دوستوں سے ملنے آیا ہوں ، لوگ سوچتے ہوں گے ، مجھے آنے سے مالی فائدہ ہوتا ہواگا،میرے آنے سے مالی فائدہ مجھے بلانے والے ہوتا ہے، مجھے تو اپنوں سے ملاقات کر کے جو خوشی اور جو قوت حاصل ہوتی ہے وہی میرا سرمایہ وہی میرا نفع ، بس اس خوشی کی خاطرمیں اتنے لمبے سفر کی تکلیف برداشت کر لیتا ہوں ، یہی نہیں بلکہ کام میں اتنے دنوں کا حرج برداشت کرتا ہوں ، آنے سے پہلے اور جانے کے بعد کئی کئی دن معمول سے زیادہ کام کر تا ہوں تو اس نقصان کی تلافی ہو پاتی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :