اپنا اپنا محا سبہ شروع کریں

منگل 31 مارچ 2015

Hafiz Zohaib Tayyab

حافظ ذوہیب طیب

تاریخ کے صفحات جہاں خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروقکی شجاعت و بہادری، طرز حکمرانی، اسلوبِ جنگ و جدل سے بھرے پڑے ہیں وہاں چوبیس لاکھ مربع میل پر حکومت کر نے والے حکمران کا اپنی رعایا کے ساتھ کیا سلوک تھا ،تاریخ کے اوراق اس کے بھی گواہ ہیں ۔آپ رعایا کے حقوق سے اتنے شنا سا تھے جس کا اندازہ ان کے اس فقرے سے کیا جا سکتا ہے ” اگر فرات کے کنارے کوئی کتا بھی بھوکا مر گیا تو کل قیامت کے روزعمر  اس کا جوابدہ ہو گا “۔


آخر وہ کو نسی وجو ہات تھیں جس کی وجہ سے لوگوں کے دل عمر کی محبت سے لبریز تھے۔ایک ایسا ہی واقعہ تاریخ کے اوراق کی ورق گر دانی کر تے ہوئے میری نظروں کے سامنے گذرا ۔ایک روز عمر  اپنا در بار ختم کر کے دن بھر کی تھکاوٹ کے ساتھ گھر پہنچے ہی تھے کہ رعایا کی خدمت کی وجہ سے کئی دنوں سے رہ جانے والے ضروری کام میں مصروف ہوگئے ۔

(جاری ہے)

اسی دوران ایک فر یادی آیا اور سوال کیا کہ اے امیر المومنین! آپ فلاں شخص سے میرا حق واپس دلائیں؟ آپ چونکہ کسی بہت ضروری کام میں مصروف تھے اس لئے بے دھیانی میں ایک تھپڑ اُ س شخص کی کمر پر مارتے ہوئے گو یا ہو ئے کہ تم دوران در بار اپنی شکا یا ت لے کر کیوں نہیں آتے؟فر یادی آپ  کے اس جلا ل کو دیکھتے ہوئے یہاں سے نکل جانے میں ہی اپنی عافیت سمجھتے ہوئے واپس لوٹ جا تا ہے۔


کچھ ہی وقت گذرا تھا کہ حاکم وقت ، امیر المومنین حضرت عمر فاروق کو اپنی غلطی کا احساس ہو تا ہے ، اندر ہی اندر پشیمانی اور خوف کے ملے جلے احساسات جنم لیتے ہیں اور فوراََ اُ س فر یادی کو بلایاجا تا ہے ۔تھوڑی ہی دیر گذرتی ہے کہ فر یادی اور وقت کے حکمران آمنے سامنے ہوتے ہیں۔عمر اپنا جسم اس فر یادی کے سامنے کرتے ہیں اور فر ماتے ہیں کہ مجھے بھی تھپڑ مارو، میں نے تیرے ساتھ زیادتی کی ہے ۔

فر یادی کا جسم کپکپانے لگتا ہے اور عر ض کر تا ہے کہ اے امیر المونین  میں نے آپ کو معاف کیا۔عمر فر ماتے ہیں نہیں ! کل روز قیامت مجھے اپنے رب کے حضور اس کا جواب دینا پڑے گالہذاتم مجھ سے اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کا بدلہ لوتا کہ تمہارا بد لہ پورا ہوجائے۔
قارئین !میں اِس واقعے کو پڑھ کے دورِ فاروقی اوردورِحاضرمیں موازنے کی ناکام سی کوشش کر تا ہوں تو اسی دوران ایک اور واقعہ نظروں کے سامنے آتا ہے جسے پڑھ کے روح کانپ جاتی ہے اور پھر اپنی عاقبت کے حوالے سے اندیشے ہیں جوروح میں خوف اور ڈر کا زہر گھولتے، اپنی سیاہ کاریوں اور بد اعمالیوں کی طویل فہرست لے کر روز قیامت اپنے رب کے حضور کیسے کھڑا ہو جائے گا جیسا سوال میرے سامنے لئے کھڑے ہیں۔

شر مندگی کا ایک نہ ختم ہو نے والا سلسلہ جاری ہے جس میں وقت کے ساتھ اضافہ ہو تا جا رہا ہے۔
نہایت دیا نتدار،ذہین ،اپنے رب کے حضور ہمیشہ سر بسجود اور نظام حکومت کے ماہر،نظام المک طوسی کا ” سیاست نامہ“سچائی، ایمانداری ،،قر آنی آیا ت اوراحادیث پر مشتمل ایک ایسی تصنیف ہے جس کی سچائی پر کسی بھی قسم کا کوئی شک نہیں کیا جا سکتا جس میں حضرت عمر  اور ان کی بیٹے حضرت عبد اللہ بن عمر  کے مابین ایک مکالمہ درج ہے۔


حضرت عبد اللہ بن عمر  نے اپنے والد حضرت عمر فاروق سے بوقتِ وفات دریافت کیا کہ اب ان کی اگلی ملاقات کب اور کہاں ہو گی؟حضرت عمر  نے جواب دیا :”اگلی دنیا میں“۔حضرت عبد اللہ بن عمر  نے عرض کیا:”میں آپ سے جلد ملاقات کر نا چاہتا ہوں “حضرت عمر نے فر مایا:”میں تمہیں خواب میں اِسی رات،دوسری رات یا تیسری رات میں ملنے آؤں گا“ ۔

12 سال کا طویل عرصہ گذرنے کے بعد جب آپ  کی اپنے بیٹے عبدللہ بن عمر  سے خواب میں ملاقات ہوتی ہے تو انہوں نے ازراہ شکایت عرض کیا:”آپ  نے تو فر مایا تھا کہ تین راتوں کے اندرتشریف لائیں گے ؟“حضرت عمر  نے فر مایا:”میں بے حد مصروف تھا کیونکہ بغداد کے قرب میں میرے زمانہ میں تعمیر شدہ ایک پل خستہ ہو گیا تھااور ایک بکری کی اگلی ٹانگ اس کے سوراخ میں پھنس کے ٹوٹ گئی تھی ، میں اس تما م عرصہ میں اس کی جواب دہی کرتا رہا ہوں“۔


قارئین محترم !اب ہم خود ہی اپنے اند ر جھانک کے اپنا محاسبہ کریں کہ صبح سے شام اور شام سے صبح ہم لوگ کس طرح لوگوں کو تکلیف دینے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔لوگوں پر ظلم و زیادتی کے تما م ریکارڈ ہیں جوہم لوگ توڑ رہے ہیں۔ بے گناہ و معصوم انسانوں کو اپنے اپنے مفادات کے لئے جانوروں کی طرح خون میں نہلا یا جا رہا ہے۔لوگوں پر امن، انصاف، سکون اور رزق کے تمام دروازے بند کئے جارے ہیں۔

پھر ان تما م تر سیاہ کاریوں کے بعد نفسانی خواہشات میں اتنے پھنس چکے ہیں کہ مر نے اور اپنے رب کے حضور پیش ہو نے کا کوئی احساس بھی نہ ہے۔ اور جن لوگوں کے پاس یہ احساس موجود ہے وہ حج، عمرہ اور صدقہ و خیرات کے ذریعے اپنی سرخروئی کا ٹکٹ ہاتھوں میں تھامے احمقوں کی دنیا کے مسافر بنے بیٹھے ہیں۔
یاد رہے !رب کی بارگاہ وہ بارگاہ ہے جہاں رائی کے دانے کے برا بر نیکی کا اجر دیا جاتا ہے اور رائی کے دانے کے برابر بُرائی کی سزا دی جاتی ہے اور پھر جہاں حضرت عمر فاروق جیسے جلیل القدر صحابی، دردِ رل رکھنے والے حکمران اور امیر المومنین سے بکری کی ٹانگ ٹوٹنے پر کتنے عرصے تک جواب دہی ہوتی رہی ،لوگوں کی زندگیوں کو عذاب بنانے والے ہم لوگ کس کھیت کی مولی ہیں؟؟؟۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :