اندھیرے اورسیلابی ریلے

جمعرات 30 جولائی 2015

Muhammad Akram Awan

محمد اکرم اعوان

ہردورمیں مقتدرسیاسی جماعت کی جانب سے کہاجاتاہے کہ پاکستان کودرپیش کوئی ایک بھی چیلنج ہماری قیادت کی آنکھوں سے اوجھل نہیں۔ماضی میں اقتداراوراختیار کاغلط استعمال کیا گیا جس کی وجہ سے بے پناہ مسائل پیدا ہوئے۔سابقہ حکمرانوں سے ورثہ میں ملے مسائل اوربحرانوں پرقابوپاناکوئی آسان کام نہیں۔ہماری حکومت سابقہ حکمرانوں کاپھیلایا گیا گندصاف کرنے میں مصروف ہے۔

ملک کو پٹری پر لانے کے لئے وقت درکار ہے۔حکومت ملک کے تمام مسائل کوجنگی بنیادوں پرحل کرنے کے لئے پرعزم ہے۔عوام ہماری نیک نیت قیادت کا ساتھ دیں۔عوام کوجدیدترین سہولیات، تحفظ اور روزگار فراہم کرنا ہماری قیادت کی اولین ترجیح ہے۔ہماری قیادت پاکستان کے روشن مستقبل پرکوئی آنچ نہیں آنے دے گی۔

(جاری ہے)

پاکستان کے عوام نے ہماری اصولی تعمیری سیاست کودیکھتے ہوئے ہمیں مینڈیٹ دیا ہے۔

مگر ہماری قیادت کی نیک نیتی پر شبہ کیا جارہا ہے اورہمارے مینڈیٹ کا اس طرح احترام نہیں کیا جارہاجس طرح حق بنتا ہے۔
مگرکیا کوئی حکومت قیام پاکستان سے اب تک عوام سے کئے گئے وعدوں پرعمل پیرارہی ؟کیا کبھی ریاست کی ترجیحات عوام کی ضروریات رہیں؟کیاقومی اداروں کی کارکردگی میں بہتری آئی ؟ کیاتعلیمی اداروں اور سرکاری ہسپتالوں کو سہولیات سے آراستہ کردیا گیا؟کیابیروزگاری ختم کرنے کے لئے عوام کو روزگار کے وسائل مہیاکئے گئے ؟کیا قتل،ڈکیتی،اغواء برائے تاوان اور ٹارگٹ کلنگ جیسی مکروہ وارداتوں میں واضح کمی ہوئی؟کیا عام آدمی کو ریلیف ، انصاف اورمسائل کا حل ملا؟عام آدمی کوخوشحال کرناتودور کی بات، کیاشہریوں کوپینے کے صاف پانی کی فراہمی اورنکاسی آب کابندوبست ہوا؟
ہماری بدقسمتی دیکھئے کہ ملک کے ایک حصہ تھر میں خشک سالی کاآسیب یہاں کے غریب عوام کواپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے۔

جہاں ہزاروں کی تعداد میں انسانی جانیں لقمہ اجل بن چکی۔ پیاس کی شدت اورغذائی کمی کے سبب ماؤں کی چھاتیاں تک خشک ہوگئی ہیں۔بیماروں کے علاج معالجہ کامناسب بندوبست نہ ہونے کے سبب بچے،عورتیں اوربوڑھے ایڑیاں رگڑرگڑجان دے رہے ہیں۔ہزاروں کی تعداد میں جانورہلاک ہوچکے ۔جبکہ دوسری طرف ملک کا باقی ماندہ حصہ سیلاب کی زدمیں ہونے سے ایک قیامت برپاہے۔

اخباری اطلاع کے مطابق ملک بھر میں64افرادہلاک ،ہزاروں زخمی،2لاکھ سے زائدافرادبے گھرہوچکے ،2لاکھ 33ہزارایکڑسے زائدرقبہ سے فصلیں اورہزاروں کی تعداد میں جانورسیلابی ریلوں میں بہہ گئے ۔
ہرسال جولائی کا مہینہ شروع ہوتے ہی بارشوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے،جس کے باعث دریاؤں میں طغیانی اورسیلاب کا آنا قدرتی امر ہے۔ قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع کے ساتھ غریب کسانوں کے جانور بہہ جاتے ہیں اورزرعی زمین زیرآب آنے سے فصلیں تباہ ہوجاتی ہیں۔

سیلاب کے اثرات کئی ماہ بعدبھی وبائی امراض کی صورت میں رہتے ہیں۔بے شک خشک سالی، زلزلہ ،سیلاب جیسی قدرتی آفات کے نقصانات سے مکمل طورپرمحفوظ رہنا انسان کی قدرت اورطاقت سے باہر ہے۔لیکن منصوبہ بندی، حتی المقدور کوشش وسعی اورمناسب اقدامات کے ذریعہ جانی و مالی نقصان میں کسی حدتک کمی ممکن واقع ہوسکتی ہے۔
ہرسال ممکنہ سیلاب کی تباہی سے بچنے کے لئے فلڈپلان ترتیب دیئے جاتے ہیں،فلڈریلیف مراکزقائم کئے جاتے ہیں۔

مختلف ٹی وی چینلزپرماہرین کے مذاکرات اورتقاریرنشر کی جاتی ہیں۔ بریفنگ کے لئے میٹنگزاوراعلی سطحی اجلاس منعقدکئے جاتے ہیں۔ایمرجنسی ریسپانس ٹیمیں ترتیب دی جاتی ہیں۔ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے لئے تحصیل اور ضلعی سطح کے افسران کو ہدایات کے ذریعہ ہائی الرٹ کیا جاتا ہے۔ عوام سے اپیل کی جاتی ہے کہ وہ محفوظ مقامات پرمنتقل ہوجائیں۔محکمہ فلڈکے اہلکاروں میں ٹوپیاں،شولڈربینڈزتقسیم کئے جاتے ہیں اورسرکاری امدادی مراکزپرمقتدرسیاسی جماعت کے جھنڈے اورحکمرانوں کی تصاویر سے مزین خوبصورت بینرز آویزاں کئے جاتے ہیں۔

اعلی شخصیت کے سیلاب زدہ علاقوں کے فضائی معائنہ کے بعد ہنگامی طور پرقائم کئے گئے مصنوعی ایمرجنسی ہسپتالوں میں دیہاڑی کی بنیادپر لوگ جمع کئے جاتے ہیں،جہاں درد بھری تقریر میں سیلاب کے دوران ہلاکتوں پرافسوس اورمتاثرہ افراد کی ہرممکن مددکی مکمل یقین دہانی کے بعدامدادی چیک تقسیم کئے جاتے ہیں۔سب سے آخرمیں جہاں کہیں پانی ذرا کم نظرآئے وہاں گھٹنوں تک بوٹ پہن کرمیڈیا کوریج اورفوٹو سیشن کااہتمام کیا جاتا ہے تاکہ سندرہے اوربوقت ضرورت ثابت کیا جاسکے کہ عوام کودرپیش کوئی ایک بھی چیلنج حکمرانوں کی آنکھوں سے اوجھل نہیں اور دُکھ و مصیبت کی ہر گھڑی میں ہم عوام کے ساتھ ہیں۔


پاکستان دُنیاکااس لحاظ سے خوش نصیب ترین خطہ ہے کہ یہاں کے پہاڑ،سمندر،دریااورریگستان اللہ عزوجل نے خزانوں سے بھردیئے۔پاکستان دُنیامیں سونے کے ذخائر کے اعتبارسے پانچواں بڑاملک ہے۔ اللہ پاک نے اس ملک کوچارموسم عطاء فرمائے اورسونا اُگلتی زمین مرحمت فرمائی۔ہمارے پاس پانچ دریا ہیں،جن کے سبب ہمارے پاس دُنیا کا سب سے بڑا مصنوعی نظام آبپاشی ہے۔

ہمارے پاس تقریباََ آٹھ سوکلومیٹرطویل سمندری ساحل ہے۔اللہ رب العزت نے ہمیں پیٹرول ،تیل ،گیس کے بے پناہ خزانے عطاء کئے ۔پاکستان ایٹمی ملک کے ساتھ ساتھ دُنیا کی بہترین فوج کا حامل ملک ہے۔ ہم اللہ کی عطاء کی گئی نعمتوں کی قدرکرتے،یہاں موجودقدرتی وسائل سے مستفیدہونے کی مربوط حکمت عملی اورقابل عمل منصوبہ بندی کی جاتی توآج پاکستان کاشمار دُنیاکے چندخوشحال ترین ممالک میں ہوتا اوریہاں کے عوام سکھ چین کی زندگی بسر کررہے ہوتے۔


ان تمام نعمتوں کے باوجودصرف اورصرف قیادت کی نااہلی ،بے بصیرتی اورخودغرضی کے سبب قومی ادارے تباہ و برباد ہوگئے ؟ عوام آج بھی روزگار،خوراک، پینے کے صاف پانی اور صحت وتعلیم جیسے بنیادی حقوق سے محروم ہیں؟ عام آدمی کے مسائل حل ہوئے نہ ہی انہیں انصاف ملا؟ ہم تاحال غریب اور پسماندہ ہیں۔غربت وافلاس سے تنگ لوگ خودکشیاں کرنے پرمجبورہیں جبکہ حکمران اپنے کاروبارکوترقی دینے اور تجوریاں بھرنے میں مصروف ہیں۔

عوامی حقوق کی پاسداری کا گیت الاپنے والوں کے اثاثے بیرون ملک ہیں اورپاکستان کاہربچہ مقروض ہے۔اگرمقتدرطبقہ نے قومی ایشوز اوربحرانوں کے بارے میں غیرسنجیدہ رویہ، ہوس ولالچ میں صرف اپنا پیٹ بھرنے کی بجائے دانشمندی سے کام لیا ہوتا ، اس ملک کے لئے کچھ کیا ہوتا توہرسال سیلابی ریلے قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع کاسبب نہ بنتے ۔
قدرت ہمیں ہرسال بارشوں کے نتیجے میں کروڑوں کیوسک پانی عطاء کرتی ہے۔

لیکن ہماری جزوی اوروقتی پالیسیوں کی وجہ سے یہ نعمت ہرسال سیلاب کی صورت میں ہمارے لئے زحمت اورعذاب بن جاتی ہے۔ہم نے اتنے سال کالا باغ ڈیم کی تعمیر کی بجائے نفاق ،تفریق اورسیاست کی نظرکردیئے۔اتنے اہم قومی ایشوپرلڑتے جھگڑتے رہے اورقومی اتفاق رائے پیداکرنے میں ناکام رہے۔ہماری اندرونی سیاسی کشمکش اورمعاملات کافائدہ اُٹھاتے ہوئے انڈیا سندھ طاس معاہدہ کے باوجودپاکستان آنے والے دریاؤں پرناجائزطورپرڈیم بنا کرسینکڑوں میگاواٹ بجلی پیداکررہا ہے جبکہ پاکستان جس کا اِن دریاؤں پراستحقاق ہے مکمل طورپراندھیروں میں ڈوب چکاہے۔


ہم نے نمائشی منصوبوں،فروعات اورسیاسی مناظرہ بازی میں وقت برباد کردیا،اگرہم نے بھی ذاتی مفاد سے بڑھ کرسوچاہوتا،ہرسال کروڑوں کیوسک پانی ضائع کرنے کے بجائے ،اسے ذخیرہ کرنے پرتوجہ دی ہوتی اورڈیموں کی تعمیرکے تنازعات کاقومی مشاورت سے کوئی حل نکالا ہوتا ،مختلف مقامات پر ڈیم بنائے ہوتے ،پانی کے ذریعہ بجلی کی پیداوارکا سب سے سستا طریقہ کاراختیارکیاہوتاتوہمیں شدیدانرجی بحران سے واسطہ ہی نہ پڑتا،نہ ملک خشک سالی کے آسیب کاشکارہوتا،نہ سیلابی ریلے اس قدرجانی اورمالی نقصان کا باعث بنتے اورنہ ہی اندھیرے دُنیائے اِسلام کی واحد ایٹمی طاقت پاکستان کا مقدر ہوتے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :