ایک نسخہ کیمیا

ہفتہ 19 اپریل 2014

Ghulam Nabi Madni

غلام نبی مدنی۔ مکتوبِ مدینہ منورہ

انسانی تقاضے کچھ فطری ہیں اور کچھ غیر فطری ان دونوں کے درمیان اکثر لوگ امتیاز نہیں کرپاتے۔اللہ عزوجل نے انسان کے فطری تقاضوں کی تکمیل کے لیے فطری راستے بنائے ہیں،یہی اللہ کا ضابطہ ہے ۔اب اگر انسان فطری تقاضوں سے ہٹ کر غیر فطری تقاضوں کی طرف جانے کی کوشش کرے تو سراسر نقصان اٹھاتا ہے۔اکیسویں صدی کے اس سبک رفتار دور میں اللہ کے بنائے ہوئے اس ضابطے کی کھلم کھلی خلاف ورزیاں کی جارہی ہیں۔

غیر مسلم بالخصوص یہود تو شروع سے ہی حیلے اور بہانے کرکے جان بوجھ کر اللہ کے بنائے ہوئے ضابطوں کو پاوٴں تلے روندتے تھے لیکن آج مسلمانوں نے بھی دوسروں کی دیکھا دیکھی اندھی تقلید کے سبب اللہ کے بنائے ہوئے ضابطوں کو توڑنے کی روش اپنا لی ہے،چنانچہ آج ان ضابطوں کو توڑ کر جس قدر مخالفت باری تعالیٰ کی کی جا رہی ہے اتنی شایدہی کسی اور کی کی جاتی ہو۔

(جاری ہے)

سچی بات یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں آج جس قدر مسائل بڑھ رہے ہیں ان میں اللہ کے بنائے ہوئے ان فطری تقاضوں کے توڑنے کا بہت بڑا دخل ہے۔ انہی فطری تقاضوں کے توڑنے کی وجہ سے ہمارے ملک میں مہنگائی،بیروزگاری،دہشت گردی ،قتل وغارت گری،بے حیائی ،بددیانتی اور رشوت جیسے المناک مسائل کا اضافہ ہورہاہے۔اسی طرح معاشرتی اورنفسیاتی مسائل خواہ ان کا تعلق گھریلو تنازعات اور پریشانیوں سے ہو یا پھر ذہنی دباؤ ،الجھن اور بے سکونی وغیر ہ سے ہو وہ بھی محض غیر فطری تقاضوں پر عمل پیرا ہونے کی وجہ سے ہے۔


فطری اور غیر فطری تقاضوں اور اللہ کے بنائے ہوئے ضابطوں کے اس اجمال کی وضاحت یہ ہے کہ اللہ نے انسان کو پیدا کیا تو زندگی گزارنے کے لیے مناسب اور بہتر طریقے فطری تقاضے اور راستے بھی بتادیئے۔مثلاً زندہ رہنے کے لیے کس طرح اور کن کن ذرائع سے خوراک کوحاصل کرنا ہے ،خوشی غمی ، تکالیف اور پریشانیوں سے نمٹنے کے لیے کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا۔

یعنی حلال چیزوں کی تفصیل اور ان کے حصول کا طریقہ، اسی طرح خوشی کے مواقع پر شکر اور تکالیف اور پریشانیوں پر صبر کرنے کی تلقین جیسے فطری راستے بتادیئے ۔اب اگر انسان اللہ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق زندہ رہنے کے لیے حلال چیزوں کو استعمال کو کرتا ہے اور حرام چیزوں سے اجتناب کرتا ہے یا اسی طرح خوشی اور غمی کے مواقع پربجائے اودھم مچانے اور بین وماتم کرنے کے انعامات پر شکر اور پریشانیوں پر صبر کرتا ہے تو اس کا مطلب ہے وہ فطری تقاضوں پر عمل پیرا ہے۔

جس طرح انسان کی ذاتی زندگی میں فطری تقاضوں پر عمل پیرا ہونے سے راحت اور سکون حاصل ہوتا اسی طرح اجتماعی زندگیوں میں بھی فطری تقاضوں پر عمل کرنے سے خوشگوار ماحول اور پرامن معاشرہ پروان چڑھتا ہے۔ یعنی اگر معاشرے میں تمام تاجر بددیانتی، جھوٹ،ملاوٹ اور بداخلاقی سے دور رہ کر سچائی اور اچھے اخلاق کے ساتھ تجارت کریں گے تو معاشرے میں مہنگائی کا رونا نہیں رویاجائے گا۔

اگرمعاشرے میں بسنے والے لوگ حسد،بغض،نفرت،عداوت اور لالچ سے دور رہ کر محبت الفت،بھائی چارگی اور خدمت کے جذبے کے ساتھ زندگی گزاریں گے تو لڑائی جھگڑے ،قتل وغارت گری اور دہشت گردی جیسے مسائل پیدا نہیں ہوں گے۔اگر ریاست کے منتظمین اورحکمران میرٹ ،انصاف اور دیانت داری کے ساتھ لوگوں کوبرابر اور مساوی حقوق فراہم کریں تومعاشرے میں بڑھتی ہوئی بیروزگاری،دہشت گردی،رشوت اور کرپشن جیسے مسائل فوراً کافور ہوجائیں۔


یہ عقل انسانی کا تقاضا ہے کہ جب تک ایک چیز کو اس کے صحیح مقام اور درست جگہ میں استعمال نہ کیاجائے تو و ہ چیز بے کار ہوجاتی ہے اور بجائے فائدہ پہنچانے کے نقصان دیتی ہے۔چنانچہ اگرجانوروں کوموٹا تا زہ کرنے کے لیے گھاس اور کھل کھلانے کی بجائے گوشت کھلایاجائے تو آپ خود فیصلہ کریں جانوروں کا کیا بنے گا؟یااسی طرح اگرگاڑی کو بجائے سڑک پر چلانے کے پانی میں چلایا جائے تو خود ہی فیصلہ کیجیے گاڑی کا کیا حشر ہوگا؟بالکل اسی طرح اگر قاتل کو قتل نہ کیا جائے،ظالم سے ظلم کا بدلہ نہ لیا جائے،بددیانت، کرپٹ اور رشوت خوروں کابلاتخصیص محاسبہ نہ کیا جائے،مردوں کی بجائے عورتوں کو بازاروں،فیکڑیوں میں لاکھڑا کیا جائے تو قتل وغارت گری،مہنگائی، بیروزگاری اوربے حیائی نہیں بڑھی گی تو اور کیا ہوگا؟اس لیے تمام مسائل سے چھٹکار ا حاصل کرنے، بہترین زندگی گزارنے اورملک کو ترقی یافتہ بنانے کا یہی ایک نسخہ کیمیا ہے کہ اللہ کے بنائے ہوئے فطری تقاضوں اورضابطوں پر عمل کیا جائے اور تمام غیر فطری اور خلاف ِعقل راستوں کو چھوڑ کر اس کے بتائے ہوئے راستوں پر چلا جائے۔

اس نسخے پر عمل پیرا ہوکر نہ صرف معاشرے میں بسنے والے تمام لوگ تمام تر معاشرتی مسائل سے چھٹکار ا حاصل کرکے خوشحالی کے ساتھ زندگی گزرا سکتے ہیں، بلکہ اس پر عمل پیرا ہو کر ہماراملک بھی صحیح معنوں میں مضبوط اسلامی جمہوری فلاحی ریاست بن سکتا ہے ضرورت بس عمل کرنے کی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :