آؤ! ایک نیا فرقہ بناتے ہیں

منگل 15 اپریل 2014

Hafiz Zohaib Tayyab

حافظ ذوہیب طیب

بھائی یہ میرے ایک قریبی دوست کا بھائی ہے جس کی عمر 14سال ہے جو پچھلے ایک ہفتے سے زیر علاج ہے ، ڈاکٹرز حضرات اسے بے ہوشی کے انجکشن لگارہے ہیں جس کی وجہ سے یہ ایک مردے کی طرح دکھائی دیتا ہے، اس کی ماں اس کی یہ حالت دیکھ کے شدید پریشان ہے اور ڈاکٹرز حضرات بھی اس کے بارے میں کچھ نہیں بتا رہے۔ روز انہ 1500سے 2000کی ادوایات باہر سے منگوائی جا رہی ہیں جو محنت مزدوری کر کے اپنے گھر کے اخراجات کو پورا کر نے والوں کے بس میں نہیں، 10000روپے کی رقم ایک شخص سے انہوں نے سود پر حاصل کی ہے جو ختم ہو نے پر ہے۔

براہ کرم ممکن ہو سکے تو ان لوگوں کی داد رسی کریں ۔ یہ کال میرے ہر دلعزیز دوست کی تھی جسے سننے کے فوراََ بعد ہی میں نے اس شخص کی عیادت اور اس کے گھر والوں کو درپیش مسائل کے حل کے لئے ایم۔

(جاری ہے)

ایس سے ملاقات طے کی اور ہسپتال کے لئے روانہ ہو گیا ۔ میں میو ہسپتال کی مرکزی راہداری اور اپنے اندر بیسیوں وسیع و عریض میڈیکل وارڈز کو سمیٹے ” گھڑی وارڈ“ کے سامنے سے گذر رہا تھا تو یہاں آنے جانے والے ہر شخص کے چہرے پردرد و الم کی کیفیات کے ساتھ ساتھ غربت ، فاقہ اور مجبوری کے ملے جلے احساسات بھی نمودار ہوتے دکھائی دے رہے تھے۔

آگے کچھ لوگ دھوپ کی تمازت سے بچنے کی خاطر باہر باغیچے میں درختوں کے سائے تلے سستا رہے تھے جن میں بزرگ ،جوان، اور معصوم بچوں کی کی بھی ایک کثیر تعداد تھی جو اپنے پیاروں کی تیمار داری کے فرائض سر انجام دینے کے لئے یہاں موجودتھے۔روح کوزخمی کر دینے والے ان کر بناک مناظر کو دیکھتے ہوئے طبیعت میں اضطرابی کیفیت نے بوجھل پن کا زہر گھول دیا ہے اور ہزار ہا کو ششوں کے باوجوددماغ کے تما م خلیے اس بات پر سوچنے پرمصروف ہو گئے ہیں کہ ایک طرف تو اس ملک اور اس شہر میں ایسے بھی لوگ پائے جاتے ہیں کہ جو پر جمعہ مسجد نبوی ﷺمیں ادا ء کرتے ہیں۔

جن کے دستر خوان انواع و اقسام کے کھانوں سے سجے ہوتے ہیں ،جو مرسٹڈیز،بی۔ایم۔ڈبلیو اور لینڈ کروزر میں سفر کرتے اور جن کے جانور بھی ائیر کنڈیشنڈکی ٹھنڈک سے بھرے کمروں میں یورپ سے در آمد خوانوں کا لطف اٹھا رہے ہوتے ہیں وہاں جوان بیٹی کو اپنی بیمار ماں کو ہسپتال تک لیجانے کے لئے ایمبولینس کاکرایہ بھی دستیاب نہ ہو ،بخار کے مریض کو پیناڈول جیسی گولی بھی میسر نہ ہو،لوگوں میں تکلیف اور بھوک کی شدت کو کچھ کم کر نے کے لئے 16روپے قیمت والے دودھ کا ڈبہ خریدنے کی بھی سکت موجود نہ ہو۔


قارئین !یہ ان لوگوں کی مرہون منت ہے جو اپنی موج مستی میں گُم دوسروں کے حالات سے بیگانہ اپنے شب و روز گذارنے میں مصروف ہیں کہ ملک عزیز میں امیر و غریب کے درمیان بڑھتے ہوئے فرق سے پیدا ہوتے خلیج سے جس طرح کئی نوجوان لڑکے چوری چکاری اور ڈاکہ زنی کی طرف راغب ہوئے ہیں اسی طرح کئی جوان لڑکیاں بھی پیسے کمانے اور گھر والوں کا پیٹ پالنے کے لئے اپنے جسموں کو جنس بنا کے منڈیوں میں رکھنے پر مجبور ہوئی ہیں۔

اسی طرح جسم ایک جنس بنا اور اور جنس کے ان بھوکے” سیٹھوں “ نے اس کے دام لگائے ۔ قابل تشویش بات تو یہ ہے کہ پاکستان میں بڑھتی ہوئی غربت کی وجہ سے دن بدن اس پیشے سے وابستہ افراد میں اضافہ ہو رہا ہے بلکہ امیر اور غریب کے بڑھتے ہوئے فرق کی وجہ سے پا کستان میں مشقت کا شکار بچوں کی تعداد 70لاکھ سے بھی تجاوز کر گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سوشل پروگریس انڈیکس کی سالانہ فہرست میں 132ممالک میں صحت ،نکاسی آب،پناہ، ذاتی تحفظ،تحمل اور تعلیم سمیت غربت کی بنیاد پر پاکستان کو 8واں بد ترین ملک قرار دیا ہے۔

اس سے بڑھ کے اور بد قسمتی کیا ہو سکتی ہے کہ پاکستان اس حوالے سے بد ترین رہا کہ نائجیریا جیسا ملک بھی ان سہولیات میں اس سے آگے ہے ۔
قارئین محترم !یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ امیر اور غریب میں بڑھتا ہوا فرق معاشروں کو خانہ جنگی کی طرف لے جا تا ہے جہاں غریب کے پاس تو پہلے ہی کچھ موجود نہیں ہوتا لیکن امرا ء کے محلات، جاہ و جلال سب خاک میں مل جاتے ہے ۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ مخیر حضرات اپنے ارد گرد ایسے لوگوں کے درد میں کچھ کمی پیدا کر نے اور عذاب کی سی زندگی گذارتے ان لوگوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کی کو شش کریں۔ اسی مناسبت سے حنیف سمانا کی نظم آپ کی نظر کر رہا ہوں ۔آؤ۔۔آج ایک نیا فرقہ بناتے ہیں،ان ٹھکرائے ہوئے لوگوں کا،ان مر جھائے ہو ئے چہروں کا،وہ جو زمین پر ایڑیا ں رگڑ رگڑ کے جی رہے ہیں،وہ جو نہ جی رہے ہیں نہ مر رہے ہیں،وہ جنہیں روٹی کے حصول کے لئے لاکھوں جتن کر نے پڑتے ہیں ،وہ جو روز جیتے ہیں روز مرتے ہیں،وہ جو کسی کی جھڑکیاں تو کسی کی گالیاں سنتے ہیں، وہ جن کے بدن پر لباس کی جگہ پھٹے پرانے چیھتڑے ہیں،وہ جن کے سر پر چھت نہیں۔

۔سڑک پہ پیدا ہوتے ہیں ۔۔سڑک پہ مر جاتے ہیں،آؤ ۔۔ آؤ۔۔ انہی بھوکے۔ننگے۔بد نصیب لوگوں کا فرقہ بناتے ہیں،اور اس فرقے میں خو د بھی شامل ہو جاتے ہیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :