عالمی فرقہ واریت؟؟ اور پاکستان

جمعرات 2 اپریل 2015

Syed Shahid Abbas

سید شاہد عباس

پاکستان بہت سے حوالوں سے دنیا کا واحد ملک ہے جس کو فرقہ واریت کی وجہ سے سب سے زیادہ نقصان اب تک ہو چکا ہے۔ فرقہ واریت کا جن ضیاء دور سے بے قابو ہوا ۔ مختلف ادوار میں اس میں تیزی آتی گئی۔ پہلے پہل اس کو صرف شیعہ سنی کشمکش کا نام دیا گیا۔ اور ایک عام قاری بھی یہ بات بخوبی جانتا ہے کہ یہ حقیقت میں شیعہ سنی کشمکش کبھی بھی نہیں تھی۔

بلکہ ایک باقاعدہ سازش کے تحت اسے یہ نام دیا گیا۔ مڈل ایسٹ انسٹیٹیوٹ) MEI) کی ایک رپورٹ جس کا ذکر ایک غیر ملکی نشریاتی ادارے کی ویب سائیٹ پہ ہوا کے مطابق 2007 کے بعد سے اب تک کم و بیش 2300افراد فرقہ واریت کے عفریت کا شکار ہو چکے ہیں۔ انہی اعدادو شمار کا تذکرہ امریکن انسٹیٹیوٹ فار پیس کی رپورٹ میں بھی ملتا ہے جو2014 میں شائع ہوئی۔

(جاری ہے)

ایک اور عالمی جائزے کے مطابق 1989 سے 2015 تک فرقہ وارانہ بنیادوں پر کم وبیش 5000 افراد جانوں سے ہاتھ دھو چکے ہیں جب کہ کم و بیش 9000 افراد زخمی ہوئے ہیں۔

ان میں سے بھی بیشتر ایسے ہیں جو تمام باقی عمر کے لیے اپاہج ہو چکے ہیں لہذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان کی زندگی ان 5000 مر جانے والوں سے زیادہ مشکل ہو گئی ہے۔2000ء کے بعد سے اس لہر میں مزید تیزی آ گئی جب ہزارہ کمیونٹی کو نشانہ بنانے کا سلسلہ شروع ہوا۔ قابل غور بات یہ ہے کہ کوئٹہ میں ہی ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے سرکاری ملازمین تک کو نشانہ بنایا گیا۔

اس کے علاوہ شمالی علاقہ جات میں بھی نسل کشی کا سلسلہ جاری رہا۔
ضیاء دور کے بعد سے جب سے فرقہ واریت میں تیزی آئی تو دونوں مخالف فریقین کو مختلف ملکوں سے امداد ملنا بھی شروع ہو گئی۔ 1979ء کے ایران میں رونما ہونے والے اسلامی انقلاب نے بھی اہم کردار ادا کیا کیوں کہ اس انقلاب کے بعد ایران ایک مضبوط ملک کے طور پہ ابھرا۔ دوسرے فریق کو سعودی عرب اور دوسرے خلیجی ممالک کی حمایت حاصل رہی ۔

اس تمام صورت حال میں افسوس ناک امر یہ رہا کہ پاکستان نے سرکاری سطح پر اس ناسور کو روکنے کے لیے ضروری اقدامات نہیں کیے۔ بلکہ مخصوص جھکاؤ کی وجہ سے پاکستان اپنے ہی ملک میں ایک برائی کے خلاف ایک فریق کی صورت میں ابھرا۔ جس کیوجہ سے نہ صرف مسلم مذہبی فرقوں میں اعتماد کا فقدان آیا بلکہ دیگر اقلیتیں بھی غیر محفوظ ہو گئیں۔ جس میں احمدی ، ہندو، اور عیسائی بھی شامل ہیں۔

ہم نقصان اٹھاتے رہے اور مستقبل کے اقدامات کے بجائے صرف زبانی جمع خرچ سے کام چلاتے رہے۔ پھر سانحہء پشاور نے قوم کو یکجا کر دیا اور فوجی قیادت کا دباؤ کہیں یا کچھ اور لیکن سیاسی راہنما ء ایک فورم پہ اکھٹے ہوئے۔
اس وقت ضرب عضب ، خیبر ون اور شاید اندرون ملک بھی ایک غیر اعلانیہ آپریشن جاری ہے۔ جس کا مقصد نہ صرف فرقہ واریت کے ناسور کو ہمیشہ کے لیے اکھاڑ پھینکنا ہے بلکہ دہشت گردی کے دیگر عوامل کا بھی قلع قمع کرنا ہے۔

یہ کہنابے جا نہ ہو گا کہ پاکستان اس وقت اندرونی محاذ پر حالت جنگ میں ہے۔ صحافت کا طالبعلم ہونے کی وجہ سے میں خود ایسے مناظر دیکھ چکا ہوں کہ جب شیعہ سنی اخوت کے عملی مظاہرے دیکھنے میں آتے تھے۔ لہذا یقینا موجودہ ناسور سنی یا شیعہ کا پھیلایا ہوا نہیں ہے۔ بلکہ اس برائی کے پیچھے ایسے عناصر تھے جو مفادات کو سب کچھ سمجھتے تھے۔ معاشرتی برائیوں کے پھیلنے میں سب سے بڑی وجہ غلط پالیسیوں کا بننا بھی اہم کردار ادا کرتا رہا ہے۔

اس کا اندازہ اس بات سے لگا لیجیے کہ حالیہ سعودی عرب و یمن تنازعے میں پاکستان نے بناء پارلیمنٹ کی منظوری کے خود کو ایک فریق بنا لیا ہے۔ مقدس سرزمین کا دفاع کرنا ہر مسلمان کا ایمان ہے۔ لیکن مقامات مقدسہ اور ریاست میں فرق نہیں رکھا جا رہا۔ اس وقت یمن کے بحران سے سعودی بادشاہت کو تو خطرہ ہو سکتا ہے لیکن مقامات مقدسہ کو نہیں۔اس کے باوجود اس حالیہ کشمکش کو مقامات مقدسہ کی حفاظت کی جہدوجہد بنا دیا گیا ہے جب کہ ایسی کسی صورت حال کا شاید سامنا نہیں ہے۔

لیکن ذاتی تعلقات کی وجہ سے مملکت کا مفاد پیچھے کر دیا گیا ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جغرافیائی حدوں کی خلاف ورزی نہ ہونے سے پہلے ہی ہمارے وزیر دفاع ایسے بیانات دے چکے ہیں جیسے وہ پاکستان کے نہیں بلکہ سعودی عرب کے وزیر دفاع ہیں۔حیران کن بات یہ ہے کہ ڈیفنس ٹریڈ رپورٹ 2014 کے مطابق سعودی عرب نے اسلحہ خریداری میں انڈیا اور چین کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔

اتنی بڑی مسلح قوت بننے کے بعد بھی آخر وہ کون سے عوامل ہیں کہ پاکستان کو اپنی جنگ میں جھونکا جا رہا ہے۔ اور پاکستان کے حکمران اس وقت شاید ذاتی تعلقات اور مفت تیل کی وجہ سے عملی طور پر پھنس چکے ہیں۔حوثی قبائل جنہیں باغی کہا جا رہا ہے کیا واقعی وہ باغی ہیں یا کسی مقبول تحریک کا حصہ ہیں۔ ان کی کوششوں کا آغاز 2004 میں ہوا جس کا بنیادی مقصد نا انصافی کے خلاف کام کرنا تھا۔

یہ بغاوت سعودی عرب کے خلاف نہیں تھی بلکہ اس کا مقصد ملک میں غیر مقبول حکومت کو ہٹانا تھا۔ لیکن اس وقت یہ تنازعہ فرقہ وارانہ روپ اختیار کر گیا ہے ایک طرف ایران اور ایک طرف سعودی عرب ہے۔ پاکستان کو اس عالمی فرقہ واریت کا حصہ بنتے ہوئے یہ سوچنا ضرور چاہیے تھا کہ دور کادوست اتنا فائدہ نہیں دے سکتا جتنا نقصان نزدیک کا دشمن دے سکتا ہے ۔

ایران نہ صرف ہمارا ہمسایہ ملک ہے بلکہ مستقبل میں اگر ایران پہ سے پابندیا ں ہٹ جاتی ہیں تو ہماری توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کا اہم ذریعہ بھی ایران ہی بن سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ہم شاید اس حقیقت کو بھی فراموش کر چکے ہیں کہ پاکستان کو تسلیم کرنے والا پہلا ملک کون سا تھا۔ دوسروں کی جغرافیائی حدود کے دفاع سے پہلے اپنے گریباں میں جھانکنا ضروری ہے ہماری جغرافیائی حدود کا کا عالم یہ ہے کہ مشرق میں بھی دشمن ہے ۔

مغرب میں بھی دوست حکومت نہیں۔ شمالی علاقہ جات میں شورش جاری ہے تو قبائلی علاقے پہلے سے ہی غیر مستحکم ہے۔ کراچی جیسا صنعتی شہرڈگمگا رہا ہے۔ کاش ہم پہلے اپنی حدود کو تو سنبھالنے کے قابل ہو سکتے پھر ہم کسی دوسرے کی جنگ کا حصہ بنتے ۔ دوسروں کی جنگ لڑنے کا خمیازہ ہم پہلے ہی بھگت رہے ہیں اور ایک نئی جنگ کا حصہ بننے جا رہے ہیں۔ لیکن پاکستان کا نصیب آج تک ایسے حکمران بہت کم ہوئے ہیں جو اس ملک کا مفاد سوچ سکیں۔

یمن کی صورت حال کا اندازہ الیکٹرانک میڈیا پہ وہاں پھنسی ہوئی ایک پاکستانی خاتونی کی بات چیت سے ہوتا ہے کہ جس سے جب سوال کیا گیا کہ یمن کے باغیوں اور فوج کا کردار کیا ہے۔ تو ان کا جواب تھا کہ وہ ایسی جگہ رہتی ہیں جہاں ملٹری بیس بھی موجود ہے اور ان لوگوں کا یہی خیال ہے کہ حوثی قبائل یمن کا اندرونی معاملہ ہے اور وہ کسی بھی ملک کو در اندازی کی اجازت نہیں دے سکتے ۔

ذرا سوچیے آج یمن کی فوج کمزور ہے تو کل کو شائد مضبوط بھی ہو جائے۔ اس وقت ہم کہاں کھڑے ہوں گے ؟ کیوں کہ آج ہم ان کے مخالف فریق کی مدد کر رہے ہیں۔
ہم پہلے ہی فرقہ واریت کی وجہ سے بہت نقصان اٹھا چکے ہیں۔ عالمی فرقہ واریت کا حصہ بن جانے سے ہم نہ صرف ملکی سطح پر خود کو مزید کمزور کر لیں گے ۔ بلکہ ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کو بھی داؤ پر لگا دیں گے۔

بھارت کے ساتھ تعلقات میں روائتی سرد مہری ہے۔ افغانستان کے ساتھ معاملات مکمل ٹھیک نہیں۔ گیس منصوبے میں تاخیر سے پہلے ہی ایران کے ساتھ حالات بہتر نہیں ۔ یمن کا بحران کہیں ایک اور دوست کو دشمن نہ بنا دے۔ مزید برآں یہ تاثر ہرگز نہ دیں کہ مقامات مقدسہ کسی مخصوص فرقے یا گروہ کے لیے ہی زیادہ معتبر ہیں بلکہ یہ مقدس مقامات ہر کلمہ گو کے لیے اتنے محترم ہیں کہ ان پہ جان نچھاور کی جا سکتی ہے۔

لیکن ذہن نشین رکھیے کہ ان مقامات کی حرمت کو کسی بھی طرح بادشاہت یا ریاست سے منسلک نہ کریں۔ ہم فرقہ واریت کو اندرونی سطح پر ہی سنبھال نہیں پا رہے تو عالمی سطح پر اس کا حصہ بن گئے تو کیا حالات ہوں گے۔ ایران کو اعتماد میں لیں۔ اور سعودی عرب سے بھی بات کریں۔ جنگ کا حصہ بننے سے کئی بہتر ہے کہ مصالحت کار کا کردار ادا کریں۔ جس سے نہ صرف تینوں برادر اسلامی ممالک کے ساتھ تعلقات میں مزید بہتری آئے بلکہ فرقہ واریت کے ناسور سے بھی ملک کو نجات ملے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :