اکیسویں صدی فیصلے ہونے کو ہیں؟

ہفتہ 4 جولائی 2015

Badshah Khan

بادشاہ خان

اسرائیل کے وزیر اعظم نے کہا ہے کہ اسرائیل اور مصر دہشت گردی کے خلاف ایک ہی خندق میں کھڑے ہیں اور اسی دوران یہ خبر آئی کہ گزشتہ روز مصر کی سیکورٹی فورسز نے جیزہ کے نواحی شہر '6 اکتوبر' میں ظالمانہ کارروائی کرتے ہوئے 'اخوان المسلمون' کے 13 قائدین کو ان کے فلیٹ میں گھس کر گولی مار دی جس کے نتیجے میں تمام قائدین شہید ہوگئے … واضح رہے کہ یہ تمام قائدین جیلوں میں قید اخوان کے رہنماؤں اور کارکنان، اور ان کے گھر والوں کی ضروریات کا خیال رکھتے تھے ،اخوان المسلمین کے نائب صدر ڈاکٹر علی القرہ داغی کا کہنا ہے کہ مجھے باوثوق ذرائع سے خبر ملی ہے کہ اخوان کی قیادت اس فلیٹ میں جمع نہیں تھی، بلکہ انہیں زبردستی وہاں جمع کیا گیا تھا اور انہیں بغیر کسی مزاحمت کے گولی مار دی گئی، ڈاکٹر صاحب اخوان کے بہت پرانے رفقا میں سے تھے ، پیشے کے اعتبار سے آرتھوپیڈک سرجن تھے اور الرحمہ اسپتال میں اس شعبے کے سربراہ تھے ۔

(جاری ہے)


اسی طرح ایک ہی دن میں تین مختلف ممالک میں حملے اور اس کے بعد تیونس میں چند مساجد میں پابندی کا اعلان سامنے آیا ،دوسری جانب ترک صدر نے کہا کہ شام میں الگ ریاست کردستان نہیں بننے دینگے ،آخر یہ کیا ہے؟ اور کیوں ہورہا ہے ؟ گذشتہ چند برسوں میں اسلامی ممالک میں انتشار کی وجوہات کیا ہیں اور اندرونی عناصر کے علاوہ کونسے ممالک کے مفادات چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں پنہاں ہیں اس پر بات کرینگے مگر پہلے ذکر فرانس کا جس کے شہر لیون کے قریب ایک فیکٹری پر مبینہ اسلامی شدت پسندوں کے ایک حملے میں ایک شخص کا سر قلم کر دیا گیا جبکہ ایک دوسرا شخص زخمی ہوا ہے ،اسی طرح دوسرا حملہ کویت کے دارالحکومت کویت سٹی میں واقع شیعہ مسلمانوں کی ایک مسجد میں ہونے والے خود کش دھماکے میں کم سے کم 27 افراد ہلاک اور 227 افراد زخمی ہو گئے ہیں۔

یہ خود کش دھماکہ شیعہ مسلمانوں کی امام صادق مسجد میں ہوا ۔شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ سے منسلک ایک تنظیم نجد نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے ۔تیسرا حملہ تیونس کے ساحلی تفریحی گاہ پر کیا گیاجس میں یورپین ممالک کے سیاح مارے گئے،حملوں میں اضافہ کس بات کی نشاہدی کرتا ہے حکمرانوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے،اس سے قبل مئی کے آخری عشرے میں دولتِ اسلامیہ نے ہمسایہ ممالک سعودی عرب اور یمن میں بھی اس طرح کے حملے کیے تھے ۔

22مئی کو سعودی عرب کے مشرقی صوبے قطیف میں شیعہ مسلمانوں کی مسجد پر خودکش حملے میں کم از کم 21 افراد ہلاک ہوئے۔سعودی عرب کا مشرقی صوبہ قطیف تیل کی دولت سے مالا مال ہے اور اس کی زیادہ تر آبادی شیعہ مسلک سے تعلق رکھتی ہے ۔اسی طرح 29مئی کو ایک بار پھرسعودی عرب کے دوسرے شہر دمام میں شیعہ مسلک کی ایک مسجد کے باہر خودکش حملہ کیا گیا جس میں چار افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔

سعودی عرب میں ایک ہفتے کے دوران یہ اپنی نوعیت کا دوسرا حملہ تھا۔
اب آتے ہیں اس پراکسی وار کی طرف جس میں سب کے سب کسی نہ کسی طرح ملوث ہیں ،چاہیے وہ ایران ہو بلکہ ایرانی حکام کے تو کھلے عام بیانات اور شواہد سامنے آچکے ، کہ وہ شام ،عراق ،اور یمن کے جنگ میں ملوث ہے ،اور اس جنگ کے لئے افغانستان کے شمالی اتحاد کے لوگوں کو بھی رقم کی لالچ دیکر ان ممالک میں استعمال کررہاہے جس کے بارے میں کئی رپورٹس سامنے آچکی ہیں اور یہ پراکسی وار اب دن بدن زمینی جنگ میں وسیع ہوتی جارہی ہے ترک صدر کا بیان اسی بات کی نشاہدی کرتا ہے کہ یہ آگ اس کے سرحدوں میں داخل ہونے کو ہے ،کیونکہ گریٹر اسرئیل کے قیام کے لئے ضروری ہے کہ اسلامی ممالک کو تقسیم کیا جائے اور کرد قبیلے کے علاقے چونکہ ان تین ممالک شام ،عراق،اور ترکی کے پاس ہیں ،اور تینوں ممالک نے ان کو نظر انداز کئے رکھا اور زبردستی زیر تسلط رکھا،اس لئے اگر شام میں کرد الگ ہوتے ہیں تو اس کے بعد ترکی کے کرد اٹھے گے اور اس کی مدد کے لئے شامی کردوں کے علاوہ خفیہ مددگار بھی موجود ہونگے جبکہ عراقی کرد ابھی باقی ہیں ان تین ممالک میں تقسیم کرد قبیلہ سرحدات پر ایک ساتھ ہے اور یہ لکیر کسی بھی وقت ختم ہوسکتی ہے جس سے آزاد کردستان کاخواب دیکھنے والے کامیاب ہوسکتے ہیں ،یہی صورت حال سعودی عرب سے متصل حوثی باغیوں کی ہے کہ اگر باڈر کے اس پار لوگوں نے جو کہ ان کے ہم مسلک ہیں حوثیوں کی مدد کی تو سرحد ختم ہوجائے گئی ۔


یہ وہ صورت حال اور جنگ ہے کہ جس نے کویت کو بھی اپنے لپیٹ میں لینے کی کوشش شروع کردی ہے اور آنے والے دنوں میں اس کی شدت میں اضافہ نظر آرہا ہے مگر چند ممالک ذاتی مفادات کے لئے اس سے آنکھیں چرارہیں ،اور دوسری جانب مغرب،اور اس کا ناجائز بچہ اسرائیل پیچھے سے ڈوریاں ہلانے میں مصروف ہے دونوں فریقوں کے ساتھ مختلف چینلز سے رابطے میں ہے ،جس سے ایسا لگتا ہے کہ وہ اپنی پلاننگ میں کامیاب ہوجائے گا(اللہ کرے ایسا نہ ہو)اور اگر ایسا ہوجاتا ہے تو صرف چند برسوں میں کئی چھوٹے چھوٹے مسلم ممالک دنیا کے نقشے پر نمودار ہونگے اور دوسری طرف پورے خطے میں اسرائیل کو چیلنج کرنے والا کوئی نہ ہوگا( ابھی بھی نہیں ہے)اور گریٹر اسرائیل کے فری میسن کے نقشے کی وساطت میں خیبر بھی شامل ہے اور خیبر سعودی عرب میں ہے جہاں سے حضرت عمر نے ان یہودیوں کو نکل باہر کیا تھا۔

رمضان المبارک کا ممقدس مہینہ ہے اب بھی وقت ہے اسلامی ممالک کو او آئی سی اور عرب لیگ کے ناموں سے آزاد کیا جائے اور ایک نئے پلیٹ فارم سے مسلم ممالک کے حکمران جمع ہوں اور اپنی عوام کی امنگوں اور خواہشات کو ترجیع دیتے ہوئے کام کریں اور عرب عجم کا تصور مٹ جائے، کیونکہ حجتہ الودع میں آپﷺ نے ایک بات یہ بھی فرمائی کہ عرب کو عجم پر اور عجم کو عرب پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے ،سب برابر ہیں اور فضیلت کا تعلق تقوی سے ہے ،گریٹر فارس ،گریٹر کردستان کے نعروں سے باہر آنا ہوگا اور گریٹر اسرائیل کا خواب دیکھنے والوں کو روکنا ہوگا،ورنہ پھر گریٹر کوئی نہ ہوگا ،کیونکہ بڑا صرف ایک اللہ ہے اللہ اکبر ،اور یہ تحریکیں بڑھتیں جائیں گی اور ان کا راستہ روکنا مشکل ہو جائے گا کیونکہ مسلم ممالک کی عوام حکمرانوں سے تنگ آچکے ہیں ،فیصلے ہونے کو ہیں دیکھنا یہ ہے کہ مسلم ممالک کے حکمران کس پلڑے میں جھکتے ہیں

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :