ودہیاں جہالتاں تے علم والا ہریا

اتوار 9 فروری 2014

Wasi Shah

وصی شاہ

حارث کی کامیابی صرف اس کے والد رائے ناصر اور والدہ کی کامیابی نہیں ہے بلکہ اگر سیکھنا چاہیں تو حارث کی کامیابی سے ہم سبھی سیکھ سکتے ہیں کہ سچ یہی ہے کہ نو سالہ حارث ہو یا کوئی 90 سالہ بزرگ انسان سیکھنا چاہے تو سب سے کچھ نہ کچھ سیکھ سکتا ہے بلکہ دلچسپ بات یہ ہے سیکھنے کے لیے کسی کی کامیابی ہی پر غور کرنا ضروری نہیں سیکھنے والے ناکامی سے بھی سیکھا کرتے ہیں مگر جو لوگوں ملکوں یا قوموں کی کامیابی میں کیڑے نکالتے ہوں اور اپنی ناکامی کو اغیار کی سازشوں اور تقدیر کے کندھوں پر ڈالنے کے عادی ہوں ان کی حالتِ زار یقینا ہم پاکستانیوں جیسی ہوا کرتی ہے
O لیول کا امتحان پاس کرنے کی نارمل عمر 17,18 سال ہوا کرتی ہے۔

مگر عمر کے لحاظ سے ننھے مگر ذہنی لحاظ سے قد آور حارث نے او لیول کا امتحان وہ بھی سائنس مضامین کے ساتھ صرف نو برس کی عمر میں پاس کر کے علم دشمن حکمرانوں ومعاشرے کو ایک پیغام ضرور دیا ہے کہ وہ جتنا چاہے علم دشمنی پالیسیاں بناتے رہیں حبس اور گھٹن کا چاہے کیسا ہی ماحول کیوں نہ پیدا کرتے رہیں پاکستانی معاشرے میں حارث منظور جیسے تازہ ہوا کے جھونکے، پاکستانیوں کی امیدوں کے سانس بحال کرتے رہیں گے۔

(جاری ہے)


اپنے آقا کی سنت پر عمل کرتے ہوئے ”اقراء“ کی شمع تھامے ننھے فرشتے حارث منظور کا ورلڈ ریکارڈ یقینا پورے پاکستان کا اعزاز ہے حارث کی کامیابی کی کہانی بھی بڑی دلچسپ اور منفرد کہانی ہے جو ان والدین کے لیے یقینا چشم کشا ہو سکتی ہے جو بچوں کو تربیت اور وقت دینے کے بجائے ہزاروں روپے کی فیس والے پری سکول اور دیگر مہنگے سکولوں کی فیس اکٹھی کرنے کی جدوجہد میں سارا وقت کمانے میں صرف کر دیتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ سکول مالکان کی جیبیں بھرنے کے بعد کامیابی ان کے بچے کو پلیٹ میں رکھ کر پیش کر دی جائے گی ۔


صرف پانچ سال کی عمر میں ناظرہ قرآن مکمل کرنے اور تیسیواں پارہ حفظ کرنے والے حارث منظور نے پری سکول کا منہ تک نہیں دیکھا اور نہ صرف پری سکول بلکہ ابتدائی کلاسز بھی اس کے والدین نے گھر پر ہی پڑھائیں۔ یقینا حارث کی کامیابی میں اس کے گفٹڈ ہو نے کا بہت دخل ہے۔ مگر یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ والدین اگر مہنگے سکولوں پر انحصار کرنے کے بجائے بچے پر ذاتی توجہ دیں تو یقینا بے شمار پاکستانی بچے حارث جیسے کارنامے سرانجام دے سکتے ہیں۔


سکولوں میں بچہ کس طرح معاشرتی میل جول سیکھتا ہے اس کی شخصیت میں برداشت ، تعاون، ہمدردی، ٹیم ورک جیسی عادتیں پختہ ہوتی ہیں اس کی اہمیت سے کون انکاری ہے مگر صرف مہنگے سکولوں سے بچے کی کامیابی وکردار سازی کی ساری امیدیں وابستہ کر لینا یقینا دانشمندی نہیں۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ جب ہم معاشرے کو تکلیف دینے والوں یا معاشروں اور قوانین کی توہین کرنے والوں کو برباد کر دینے کیلئے تہہ و بالا کرنے کیلئے خوب شور مچاتے ہیں اور ٹھیک شور مچاتے ہیں اور ان کی بیخ کنی کے لیے اجتماعی وسائل صرف کرنا جائز سمجھتے ہیں تو کیا حارث جیسے ذہین و فتین بچوں اور طالبعلموں کی بھی اونر شِپ معاشروں کو مشترکہ طور پر قبول نہیں کرنی چاہیے؟ معاشرے کو برباد کرنے والوں کیلئے عوام کے ٹیکس سے اسلحہ خریدنے والی قوم کو کیا معاشرے کو حارث جیسا نازو فخر عطا کرنے والوں کی اعلیٰ تعلیم کی ذمہ داری اٹھانے کا بندوبست بھی نہیں کرنا چاہیے۔

؟
مگر ایسی کوئی توجہ نہ حکمرانوں کی طرف سے دی جاتی ہے نہ دی گئی نہ ہی میڈیا نے حارث کی کامیابی کو وہ اہمیت دی جو سنسنی پھیلانے والی کسی معمولی خبر کو بھی دی جاتی ہے۔ مگر کیا گلہ کریں ۔ عقل ودانش، ہوش مندی وعلم وہنر سے نفرت کرنے والے معاشرے ایسے ہی ہوا کرتے ہیں بقول قاسم شاہ صاحب۔
ودہیاں جہالتاں تے علم والا ہریا
کالم بھیجنے لگا کہ ایک او راطلاع ملی کہ ہنزہ کے 8سالہ محسن نے چھ ہزار 50میٹر بلند چوٹی سر کر لی ہے برف پوش پہاڑوں تک میں خون کی ہولی کا نظارہ کرنے والی قوم کیلئے یقینا یہ بھی ایک خون بڑھا دینے والی خبر ہے۔

اور ایسے میں پاکستان کی ایک اور بیٹی ارفع کریم کی بھی یاد آئی کہ جس کے ذکر سے سیاسی مائلیج تو حکمران حاصل کرتے رہے مگر جو وعدے اس کے والدین سے کیے تھے ان کا اب کوئی ذکر نہیں کرتا۔ ویسے بھی جہاں حکمران فخر سے کہتے ہوں کہ وعدے کوئی قرآن وحدیث نہیں ہوتے۔ یایہ کہ الیکشن میں اس قسم کے وعدے کیے جاتے ہیں لہٰذا الیکشن کے بعد ان وعدوں کا ذکر نہ کریں۔

جہاں حکمرانوں کی ڈھٹیائی ، بے شرمی، بے حسی، اخلاقی انحطاط و کردار کا یہ عالم ہو وہاں حکمرانوں کوکیا کوئی وعدہ یاد دلانا۔۔ اگر حکمرانوں نے اپنے وعدے پورے کیے ہوتے یا عوام نے کیے گئے وعدوں کو گردن پر انگوٹھا رکھ کے پورا کروایا ہوتا۔ تو قاسم شاہ کو ایسی نظمیں نہ لکھنی پڑتیں جس میں ایسے چبھتے ہوئے مصرعے ہوتے ۔ کبھی پوری نظم بھی پیش کروں گا۔ ابھی تو وہی مصرعہ مکرر عرض ہے۔
ودہیاں جہالتاں تے علم والا ہریا

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :