خوشحال جانور…

اتوار 2 فروری 2014

Wasi Shah

وصی شاہ

کون ذی روح ہو گا جو 6 سالہ ننھی فضا پر استاد کے بہیمانہ تشدد کی تفصیل پڑھ دیکھ اور سن کر دکھی نہ ہو۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بے شمار انسانوں کے اندر حیوان مقیم ہوا کرتے ہیں لہٰذا اس قسم کے واقعات پوری دنیا میں نام نہاد مہذب ممالک میں بھی سامنے آتے رہتے ہیں کہ دنیا کا کوئی بھی ملک کیوں نہ ہو فرشتے تو کہیں بھی نہیں بستے لیکن یہ بات یقینا قابلِ غور ہے کہ اس قسم کے واقعات جس تواتر کے ساتھ پاکستان میں پیش آتے ہیں اور رپورٹ ہوتے ہیں (خیال رہے ابھی کُل تعدادمیں رپورٹ نہیں ہو پاتے) اس کی مثال شاید ہی کہیں اور ملتی ہو۔
بعض اوقات ہم ان واقعات کی کھوج میں اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ شاید ان کا واحد سبب غربت ہے۔ یقینا غربت ان واقعات کا ایک اہم سبب ضرورت ہے مگر صرف غربت ہی نہیں ہمیں مان لینا چاہیے کہ غریب ہو کہ امیر جاہل ہوان پڑھ ہو کہ عالم فاضل پڑھے لکھے ہمارے ہاں ہر سطح پر اخلاقی گراوٹ اپنی بلندیوں کو چھوتی ہوئی نظر آتی ہے۔

(جاری ہے)

اخلاقی گراوٹ سے مراد یقینا آپسی معاملات میں درگزر، ایثار محبت رواداری کے بجائے تشدد، جھوٹ ، مکر، فریب، دھوکہ دہی اور بے ایمانی کا غلبہ ہے چھ سالہ پھول جیسی فضا پر تشدد کر نے والا استاد تو چلیں ایک غریب سکول ماسٹر ہے جو یقینا فضا کو پڑھانے کے دوران بھی بجلی کے بل کی ادائیگی سے لے کر ماہانہ اخراجات کی تنگی جیسے جانے کتنے مسائل کا شکار ہو گا غربت نے پہلے ہی دماغ خراب کر رکھا ہو گا۔ لیکن پچھلے دنوں ڈیفنس جیسے پوش علاقوں میں جو کھاتے پیتے پروفیسر موصوف ملازم بچی پر تشدد میں ملوث پائے گئے ان کے بارے میں کوئی کیا کہے گا؟
اسی طرح کے تشدد کا واقعہ پچھلے دنوں کراچی سے بھی رپورٹ ہوا تھا جس میں ملازم بچے کو پانچویں یا چھٹی منزل سے دھکا دے دیا گیا تھا غالباً وہ صاحب بھی کوئی ڈاکٹریا وکیل تھے۔ جو بھی تھے مگر معاشرے کے نام نہاد کھاتے پیتے پڑھے لکھے طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔
آج کا عمر اکمل کا اور وارڈن کا واقعہ دیکھ لیں یا وزیرداخلہ صاحب کی اپنی گاڑی روکنے پر برہمی کی خبر پر غور کر لیں۔ صرف غرباء ہی نہیں امراء بھی ہر وقت ہر موقع پر تشدد اور لڑنے جھگڑنے پر مائل اور اسی کے قائل نظر آتے ہیں۔
بحیثیت قوم ہمیں اس پر غور کرنا چاہیے کہ ہماری قوم کا پارہ ہر وقت کچھ ڈگری ہائی کیوں رہتا ہے ہمارے معاشرے سے برداشت، تحمل رواداری باہمی احترام جیسی صفات برف کے جیسے گھلتی کیوں چلی جا ری ہیں اور ہمارے اندر کے حیوان رسیاں تڑوا کر ہر لمحے باہر آنے کو بے چین کیوں رہنے لگے ہیں۔ سکول ماسٹر والے واقعے کو چھوڑ کر ہر واقعے میں آپ کو کھاتے پیتے لوگ ملوث نظر آئیں گے جنہوں نے یقینا اپنی اناؤں کو بھی کھلا کھلا کر خوب ہی فربہ کر لیا ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے حکمران جو ہر وقت معاشیات اور اقتصادیات کی بہتری اور بحالی کا نعرہ لگاتے رہتے ہیں کیا اس میں کامیابی کے بعد ایک پُر امن معاشرہ نصیب ہو پائے گا ہمیں ؟ یقینا اس کا جواب نہیں میں ہو گا۔ اسے دیوانے اور احمق کا خواب ہی کہا جا سکتا ہے کہ معاشرے صرف معاشیات اور اقتصادیات میں ترقی کرنے سے پر امن نہیں ہوا کرتے اور بلکہ معاشرے جنت کا نمونہ تب پیش کرتے ہیں جب ہر سطح پر تعلیم تربیت واخلاقیات پر توجہ دی جاتی ہو جب نواز شریف صاحب نے اقتدار سنبھال کر معاشیات کے بیل آؤٹ پیکج کا نعرہ لگایا تھا اس وقت بھی انہی کالموں میں گزارش کی تھی کہ معاشیات کے بیل آؤٹ پیکج کے ساتھ ساتھ اخلاقیات کے بیل آؤٹ پیکج کا بھی کچھ بندوبست کریں کہ اول تو اس کے بغیر معاشی ترقی ممکن ہی نہیں ہوا کرتی۔ اور بے پناہ وسائل کے ملک پاکستان کی نعمتوں وبرکتوں کے باعث ایسا ہو بھی جائے تو کیا ہو گا؟ آج بدحال لوگ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ جانوروں جیسا سلوگ کر رہے ہیں کل خوشحال لوگ ایک دوسرے سے اسی طرح لڑ جھگڑ رہے ہوں گے دھونس دھاندلی تشدد میں مبتلا ہوں گے جیسے آج ہیں علم، تربیت ،اخلاقیات اور روحانی تطہیر پہ توجہ دئیے بغیر خوشحالی اگر نصیب ہو بھی گئی تو بھی ہمیں مہذہب انسانوں کی طرح آپس میں امن سے رہنا نصیب نہیں ہوگا ننھی پھول جیسی فضا پر تشدد سے لے کر عمر اکملوں اور وارڈنوں کے جھگڑوں اور طاقت وروں کی قانون پر برہمی تک جیسے واقعات ہی ہمارا نصیب ہوں گے۔
اخلاقیات کے بجائے صرف معاشیات واقتصادیات پر ہی توجہ دی جاتی رہی تو ہم زیادہ سے زیادہ کیا ہوں گے… خوشحال جانور…
نوٹ:۔ تھرکول بجلی منصوبے کا مشترکہ افتتاح یقینا ایک تاریخی واقعہ ہے جس کے لیے دونوں بڑے مبارک باد کے مستحق ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :