ان لبوں نے نہ کی مسیحائی …

اتوار 26 جنوری 2014

Wasi Shah

وصی شاہ

زکام اور بخار نے یوں آجکڑا کہ خواہش اور طلباء کی بار بار یادہانیوں کے باوجود بھی لمز یونیورسٹی میں منعقدہ فلم کے حوالے سے بپا کیے گئے سمینار میں نہ جا سکا۔ حالانکہ میری شدید خواہش تھی کہ نوجوان طلباء نے جدید فلمسازی کے حوالے سے جو ریسرچ کی ہے اس کے بارے آگاہی حاصل کی جائے۔
مگر بخار نے ایسا بھینچا ہوا تھا کہ وجود کسی بھی طرح بستر چھوڑنے پہ راضی نہ تھا کروٹیں لیتا سوتا جاگتا رہا کبھی دیوانِ غالب اٹھا کر کچھ غزلوں سے روح کو سیراب کیا کبھی میر درد کے صوفیانہ انسانیت کا درد دیتے اشعار کو بخار میں پھنکتے ہوئے جسم پر اوس کی طرح محسوس کرتا رہا۔


دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاقت کیلئے کچھ کم نہ تھے کروبیاں
جیسے اشعار کے خالق میر درد کو بھی مجھے لگتا ہے اردو شاعری میں اس سے کہیں زیادہ رتبہ اور مقام ملنا چاہیے جس پہ قارئین، وناقدین نے انہیں تادمِ تحریر فائز کر رکھا ہے ۔

(جاری ہے)


یہاں یہ تذکرہ کرتا چلوں کہ میر دردکا جو شعر اوپر درج کیا ہے اسے ایک عالم اقبال# سے منسوب کر دیتا ہے میر درد کے کچھ موتیوں کو نظروں کے تار میں پرو کے رومی سے افکار وحیات کے تناظر میں لکھا ”ایلف شفق“ کا عشق کی سرمستی میں بہتا ہوا ناول ”فارٹی رولز آف لو“ اٹھایا ہی تھا کہ سامنے دیوار پہ لگے ٹی وی پہ لمز یونیورسٹی کے اسی فلم سیمینار میں کی گی پرویز رشید صاحب کی تقریر کے ٹکرز چلنا شروع ہو گئے کہ ”ریاست نے ماضی کی غلطیوں کو تسلیم کرنا شروع کیا ہے“ اور یہ کہ” سیکورٹی سٹیٹ اب سوشل سیکورٹی سٹیٹ بننے جا رہی ہے“ اور پرویز صاحب کے اس جملے نے تو مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا کہ ”بندوق کے بجائے بچوں کے ہاتھوں میں پینٹ برش دیں تو اچھا ہے۔


پرویز صاحب خود بھی آرٹ و موسیقی سے گہری دلچسپی رکھتے ہیں اس لیے ان کی گفتگو یقینا بیوروکریسی کی طرف سے فراہم کردہ کاغذ پہ مبنی نہیں تھی یقینا جو وہ کہہ رہے تھے اس کی افادیت اور اہمیت سے وہ خود بھی بخوبی آگاہ تھے۔
پاکستان آج جس معاشی، معاشرتی، سماجی ، سیاسی و تہذیبی بدحالی کو پہنچا ہے اس کی ایک بڑی وجہ معاشرے کا کتاب اور علم وفن سے دوری بھی ہے۔

جب بچوں کے ہاتھ بھی کتاب، قلم ، گٹار، فلم کا کیمرہ، ڈرامے کا سکرپٹ ، کینوس اور پینٹ برش نہیں تھمایا جا ئے گا تو کچھ نہ کچھ تو نوخیز ،بے چین و ذرخیز ذہنوں کو چاہیے ہوتا ہے جس سے وہ ”اپنے“ ہونے کا اظہار کر سکیں نتیجتاً وہی ہاتھ یا بندوق اٹھاتے ہیں یا اسے ہاتھوں کے آلہ کار بن جاتے ہیں جو بندوق کو قلم پر ترجیح دیتے ہوں۔ تکلیف دہ امر تو یہ ہے کہ جنہوں نے بندوق اٹھائی ہوتی ہے ان میں سے بھی بیشتر شاید بندوق اٹھانے کی خواہش نہ رکھتے ہوں۔

مگر جب معاشرہ وقت پر اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کرتا اور قوم کے کچھ حلقوں یا علاقوں میں زندگی کے وہ خوبصورت رویے اور رخ پہنچا ہی نہیں پاتا جو بندوق سے ہٹا کر ان کی توجہ حاصل کر سکیں تو اٹھانے اور استعمال کر نے کو اپنی ذات کا اظہار کرنے کو صرف اور صرف بندوق ہی رہ جاتی ہے۔ وزیر موصوف کی تقریر کے جملوں سے اندازہ ہو رہا تھا کہ شاید ہر ہاؤسنگ سوسائٹی میں سینما گھر کی تعمیر کا منصوبہ بھی حکومت کے زیر غور ہے۔

مگر حکومت کو اس سے لیے پہلے ایسے حالات بھی پیدا کرنے ہوں گے کہ ان سینما گھروں کو اس معاشرے کے جذبات ومسائل کی عکاسی کرنے والی فلمیں بھی تو دستیاب ہوسکیں۔
میرے نزدیک معاشرے کے کونے کونے میں علم وفن کے فروغ کا معاملہ موجودہ مذاکرات یا آپریشن والے معاملے ہی کی طرح کا انتہائی اہم اور سنجیدہ معاملہ ہے جس کا دائرہ کار صرف لاہور، کراچی جیسے بڑے شہروں تک محدود نہیں ہونا چاہیے۔

ورنہ آج چاہے مذاکرات کریں یا آپریشن اگر علم وفن کی قلم وکتاب کی جگہ جگہ آبیاری نہیں کی جائے گی تو معاشرہ دہائیوں نہیں صدیوں انہی مسائل کا شکار رہے گا جس کا آج ہے۔
انتہا پسندی اور نفرتوں کو ختم کرنے کیلئے صدیوں سے آزمودہ ترین ہتھیار علم ہی رہا ہے چاہے وہ کتاب کے ذریعے پہنچے یا اخبار ، ٹی وی یا فلم کے ذریعے ۔
اگر آنے والی نسلوں کو ہمیں امن دینا ہے اور اسی قسم کی بدامنی گو مگو اور انتشار کی کیفیت سے بچانا ہے جس کا آج ہم شکار ہیں کہ جائیں تو جائیں کہا ں۔

؟ کریں تو کریں کیا؟ تو جس شد و مد سے آج کل مذکرات یا آپریشن کی بحث جاری ہے اس سے کہیں زیادہ قوت سے قوم کو اس پہ بھی زور دینا چاہیے کہ ریاست وحکمران فاٹا سے لے کر گوادر تک ایسے انتظامات کریں کہ محسودوں سے لے کر مکرانیوں تک ہم اپنے بچوں کو بندوق کے بجائے قلم تھما سکیں۔ امن خود بخود ہمارا مقدر بن جائے گا۔ دفاعی و ترقیاتی بجٹ کے ساتھ ساتھ قوم کے ہر حلقے کو علم وثقافت کا بجٹ بھی بڑھانے کے لیے زور شور سے مہم چلانے کی ضرورت ہے ۔

بندوق کی گولی سے بندوق بردار کو مستقبل میں مارنے سے کہیں بہتر ہے کہ آج ہی ایسے حالات پیدا کیے جائیں کہ وہ بندوق کے بجائے قلم کی اہمیت وافادیت سے آگاہ ہو جائے ۔ یقین جانیے اس پر خرچہ بھی کم آتا ہے۔جاتے جاتے ہماری حالتِ زار اور حکمرانوں کی بے پرواہی پر میر درد کا ایک شعر۔
ان لبوں نے نہ کی مسیحائی
ہم نے سو سو طرح سے مر دیکھا

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :