کرپشن یا سفاکانہ قتل …؟

منگل 15 اپریل 2014

Wasi Shah

وصی شاہ

جماعت اسلامی کے نو منتخب امیر سراج الحق صاحب نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ ”کرپشن سے پیسہ چوری کرنا بھی دہشت گردی ہے“۔ سراج الحق صاحب نے منصورہ میں خطاب کے دوران مزید کہا کہ مٹھی بھر اشرافیہ نے پورے نظام کو جکڑرکھا ہے۔ وہ اپنا سٹیٹس کو بحال رکھنے کے لیے ہر قسم کے استحصالی حربے استعمال کر رہے ہیں۔ سراج صاحب نے کہا کہ بااثر لوگ کرپشن میں ملوث ہیں۔

انہوں نے مختلف پارٹیوں میں خود کو چھپا رکھا ہے۔ وہ کبھی ایک دوسرے کا احتساب نہیں کرتے بلکہ ایک دوسرے کی کرپشن اور مفادات کو تحفظ دیتے ہیں۔“
اگر آپ سراج الحق صاحب کے اس بیان پر ذرا غور کریں تو اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستانی نظام کی خرابی کی سراج صاحب نے بالکل ٹھیک ٹھیک لفظوں میں نشاندہی کر دی ہے۔

(جاری ہے)

جمہوریت کے نام پہ جو ڈرامہ کرپشن کا جو بازار پاکستان میں بسا ہوا ہے جمہوریت کے نام پہ جس طرح موروثی سیاست، اقرباء پروری کے خنجروں سے پاکستان اور پاکستانیوں کا وجود لہو لہان ہے چند لفظوں میں سراج صاحب نے جو کہ خود اس نظام کا ایک حصہ ہیں اس نظام کی خرابیوں کی بالکل بجا نشاندہی کی ہے میرا آج سراج صاحب کے بیان کو کالم کا موضوع بنانے کی بنیادی طور پر دو وجوہات ہیں ایک تو یہ کہ میں کئی دنوں سے جماعت اسلامی کے انٹرا پارٹی الیکشن کی شاندار روایت پر کچھ لکھنا چاہ رہا تھا۔

جس طرح پابندی سے جماعت اسلامی میں برسوں سے الیکشن کا سلسلہ جاری ہے۔ اور جس طرح خیبر تا سندھ اور ملک کے دیگر علاقوں میں مقیم جماعت کے کارکن ایک مقصد ایک نظریے کے لیے ایک ہیں، اور ہر ممکنہ حد تک اقرباء پروری اور موروثیت سے پاک ہیں اس کی یقینا تحسین کی جانی چاہیے۔( ان کے نظریے سے کسی کو لاکھ اختلاف ہو مگر ان کے جمہوری رویے سے کیسے کوئی نظر پھیر سکتا ہے )۔

شاید دیگر موروثیت زدہ فیملی لمیٹیڈ پارٹیاں تو اس سے شاید کبھی کچھ نہیں سیکھیں گی کہ ان کا سروائیول ہی جتھ بنے رہنے کی صورت میں ہے بلکہ یقینا وہ جماعت اسلامی کے اس باقاعدگی سے ہونے والے انٹرا پارٹی انتخابات کو جس میں امیر کا انتخاب لڑنے والا خود کو اس منصب کے لیے پیش تک نہیں کرتا نفرت کی نظر سے دیکھتی ہوں گی کہ یقینا ایسا کوئی رویہ تو ان کو اپنی موت نظر آتا ہو گا۔

سوچنے والی بات یہ ہے کہ عوام کیوں جماعت کے اس رویے کو نظر انداز کر دیتے ہیں خصوصاً الیکشن میں کبھی جماعت کے اس جمہوری رویے کا فائدہ جماعت کو کیوں نہیں ملتا۔ عوام بھی سوچیں جماعت بھی سوچے۔
جماعت اسلامی کا یہ رویہ بھی منصب کہ طلب گار کو منصب نہیں دیا جا ئے گا یقینا درخشاں اسلامی روایات کی یاد دلاتا ہے۔ ایک مرتبہ کسی صوبے کی گورنری کیلئے ایک شخص کا نام حضرت عمر کے ذہن میں تھا اس شخص نے ایک دن آکر آپ سے کہا کہ ”مجھے گورنر تعینات کر دیجئے“ حضرت عمر نے فرمایا کہ میں تجھے ہی گورنر بنانے والا تھا۔

لیکن اب نہیں بناؤں گا کیونکہ جو شخص خود کسی عہدہ کاخواہشمند ہو اسے اس عہدے پر فائز نہیں کرنا چاہیے۔
تو ایک تو وجہ جماعت اسلامی کو اس جمہوری عمل کی مبارکباد دینا تھا کہ جماعت کی اس انٹرا پارٹی الیکشن والی روایت کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ خصوصاً اس لیے بھی کہ جماعت انٹرا پارٹی الیکشن کے نام پر چالاکیاں، چکربازیاں، ڈرامہ بازیاں نہیں کرتی بلکہ اس عمل میں اخلاص، دیانت داری اور میرٹ واضح نظر آتا ہے۔

یہاں جماعت کے قائدین کو بھی خصوصاً نو منتخب قائدین کو بھی سر جوڑ کر ضرور اس پر غور کرنا چاہیے کہ اس پائے کی جمہوری پارٹی ہونے کے باوجود بھی جماعت کی عوام میں وہ پذیرائی کیوں نہیں ہو پاتی جو فیملی لمیٹیڈ ٹائپ پارٹیوں کی ہوتی ہے۔؟ جن کا فخر سادگی، دیانتداری اور میرٹ نہیں بلکہ جن پارٹیوں کے وجود پر جھوٹ ، مکر، فریب، کرپشن،لوٹ مار کی سیاست کے داغوں کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔


دوسری وجہ سراج صاحب کا یہ بیان کہ کرپشن سے پیسہ چوری کرنا بھی دہشت گردی ہے۔ سراج صاحب کا یہ بیان بھی سونے میں تولنے کے لائق ہے۔ کیونکہ دہشت گردی یا انتہا پسندی بدامنی، غربت یہ سب کیا ہیں، یہ سب بیماریاں نہیں ہیں، یہ سب بیماریوں کے نتائج ہیں، علامات ہیں۔ علاج کرنا ہی ہو تو بیماری کا خاتمہ مقصود ہوا کرتا ہے۔ جب بیماری کو جڑ سے پکڑا جائے تو علامات خود بخود ختم ہونا شروع ہو جاتی ہے۔

دہشت گردی غربت، بدامنی، انتہا پسندی، لاقانونیت جنم ہی اس وقت لیتی ہیں جب وہ معاشرتی ، سماجی ، ریاستی ڈھانچہ، کرپشن اور اقرباء پروری کے باعث نااہل وخائن لوگوں کے ہاتھ میں چلا گیاہو کرپشن کیلئے موروثیت اقرباء پروری اور نااہلی کا گٹھ جوڑ بنانا پڑتا ہے اور جب نااہل رشتہ دار، یا ناکارہ لوگ مختلف عہدوں پر فائز ہوتے ہیں تو نظام برباد ہو جاتا ہے اس بربادی کی کوکھ سے دہشت گردی، انتہا پسندی ، غربت، لاقانونیت، جہالت و بدامنی جنم لیتے ہیں۔


سراج الحق صاحب کا بیان غور وفکر کی دعوت دیتا ہوا بیان ہے۔ اس وجہ سے ہر سطح پر دباؤ بڑھاناچاہیے کہ قانون سازی کی جائے اور کرپشن کی سزائیں دہشت گردی کی سزاؤں سے بھی سخت کی جائیں۔ میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ موت سے بھی بڑھ کر اگر کوئی سخت سزا ہو سکتی ہے تو وہ کرپٹ لوگوں کو دینی چاہیے اور اس کیلئے قانون سازی کی جانی چاہیے۔کیونکہ ایک کرپٹ انسان کی کرپشن کروڑوں لوگوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال دیتی ہے کرپٹ شخص صرف کرپٹ نہیں ہوتا دراصل درپردہ بے شمار انسانوں کا قاتل ہوتا ہے… کیسے؟… اس پہ تفصیل سے لکھوں گا فی الحال اس سکینر سکینڈل پر ہی اگر غور کر لیں جس میں ایک شخص یا چند اشخاص مل کر اربوں روپے کھا گئے اور ناکارہ سکینروں کے باعث کروڑوں انسانوں کی زندگیاں خطرے میں ہیں۔

کیا یہ صرف کرپشن ہے یا سفاکانہ قتل…؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :