یوم سیاہ۔۔۔ ایک پیغام!

پیر 27 اکتوبر 2014

Syed Shahid Abbas

سید شاہد عباس

پرویز مشرف کے ایک بیان پر اس وقت پورا بھارت چیخ رہا ہے حالانکہ پوری دنیا جاتی ہے کہ اب مشرف صاحب اقتدار میں نہیں لیکن پھر بھی رونا دھونا ڈالا جا رہا ہے۔ یہ ہندو ذہنیت کا عکاس ردعمل ہے۔ جو ہر موقع پر ہمیں دیکھنے کو ملتا ہے۔ حیران کن طور پر ہندوانہ تھنک ٹینک اور حکومتیں اپنے گریباں میں کبھی نہیں جھانکتیں۔ ممبئی حملے ہوں یا جموں میں حملے۔

پاکستانی فنکار ہوں یا کھلاڑی۔ ہر سطح پر بھارت کا متعصبانہ رویہ نظر آتا ہے ہر محاذ پر پاکستان کو نیچا دکھانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا جاتا ۔لیکن تمام عالمی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر پر غاصبانہ قبضہ نام نہاد دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے علمبرداروں کی نظروں سے اوجھل ہے۔
27 دسمبر 1947 وہ سیاہ دن ہے جب خطے کو پاؤں تلے روندنے کے زعم میں مبتلا بھارتی لاؤ لشکر نے کشمیر پر چڑھائی کر دی ۔

(جاری ہے)

قیام پاکستان کے وقت سے ہی وطن عزیز کے خلاف ریشہ دوانیاں شروع کر دی گئیں۔ ہر سطح پر پاکستان کو ایک ناکام ریاست بنانے کی کوشش کی گئی ۔ اثاثوں کی تقسیم میں نا انصافی کی گئی۔ فوجی سازو سامان کی تقسیم میں بھی ہندوؤں کا ساتھ دیا گیا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ برطانوی راج نے بھی اس وقت تقسیم ہندوستان اور پاکستان کے قیام کو دل سے تسلیم نہیں کیا تھا جس کی بناء پر ہندوستان کو ہر جائز و ناجائز فائدہ دینے کی کوشش کی گئی ۔


کشمیر پرقبضے کی سازش اس وقت سامنے آنا شروع ہوئی جب مسلم اکثریتی علاقے گرداسپور کو انگریزوں اور ہندوؤں کی باہمی ملی بھگت سے بھارت کا حصہ بنا دیا گیا۔ اس سازش کے خدو خال16 اگست1947 میں سامنے آئے۔جس کو ریڈکلف ایوارڈ کا نام دیا گیا۔ گرداسپور کو بھارت کا حصہ بنانے سے ایک طرف تو علاقے کے لوگوں کے ساتھ نا انصافی کی گئی ساتھ ہی بھارت کے کشمیر میں داخلے کی راہ ہموار کی گئی ۔

لیکن گرداسپور کے بر عکس کشمیر کے لوگ اس فیصلے کے خلاف ڈٹ گئے۔ اور مسلح جہدوجہد کا آغاز کر دیا ۔ جس میں نو زائیدہ پاکستان کے قبائلی علاقوں کے عوام نے بھی ان کا بھرپور ساتھ دیا۔ ہندوستان کو جب اس بات کا احساس ہوا کہ وہ کسی بھی صورت کشمیر پر قبضہ نہیں کر سکتا (کیوں کہ کشمیری و قبائلی عوام ان کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن گئے) تو اس نے اقوام متحدہ سے جنگ بندی کے لیے رجوع کر لیا۔

لیکن اس سے پہلے کشمیر کی عوام نے کشمیر کے ایک حصے کا کنٹرول حاصل کر لیا تھا جو آج آزاد کشمیر کے نام سے جانا جاتا ہے۔بھارتی دخل اندازی کے دن یعنی 27دسمبر کو پوری دنیا میں کشمیری یوم سیاہ کے طور پر مناتے ہیں۔
ہندو ذہنیت میں ہمیشہ کوئی نہ کوئی الٹا منصوبہ پنپتا رہتا ہے۔ اقوام متحدہ کا فورم بھی اسی مقصد کے لیے استعمال ہو گیا۔ بھارت نے جنگ بندی کی اپیل کی ۔

اور یکم جنوری 1949 کو جنگ بندی ہو بھی گئی۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بھارت اس وقت منظور کی گئی حق خود ارادیت کی قرادادوں سے پھر گیا۔ اور ان پر عمل در آمد سے انکار کر دیا۔ لیکن افسوس ناک صورت حال یہ رہی کہ عالمی برادری بھی بھارت کو لعن طعن تک نہ کر سکی ۔ عالمی برادری کی اس پہلوتہی سے بھارت آج تک فائدہ اٹھا رہا ہے یا یوں کہا جا سکتا ہے کہ کشمیری عوام کا حق خود ارادیت باقی دنیا کے مقبوضہ علاقوں سے مختلف گردانا جاتا ہے حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔

مشرقی تیمور میں یکسر الگ رویہ اپنایا گیا۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی مکمل نفی کرتے ہوئے1965ء میں بھارتی پارلیمنٹ سے ایک بل پاس کیا گیا جس میں مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا صوبہ قرار دے دیا گیا۔ اس کے نتیجے میں کشمیری عوام نے مسلح جہدو جہد کا راستہ اپنا لیا جو آج تک جاری ہے۔ جسے کچلنے کے تمام حربے آزمانے کے باوجود بھارت یکسر ناکام ہے۔

پاکستان نے ہر سطح پر کشمیریوں کی اخلاقی و سفارتی حمایت کی ہے۔
تمام تر عالمی قوانین ، اخلاقی ضابطہء اخلاق و سماجی روایات کو مقبوضہ وادی میں روندا جا رہا ہے لیکن عالمی برادری اس مسلے پر مجرمانہ خاموشی طاری کیے ہوئے ہے۔ اب نوجوان طبقہ کشمیری بھائیوں کی جہدو جہد کے لیے آواز بلند کر رہا ہے اس کی ایک واضح مثال یوتھ فورم برائے کشمیر (YFK) ہے۔

یہ نوجوانوں پر مشتمل ایک گروپ ہے جس میں مقبوضہ وادی سے بھی نوجوان شامل ہیں۔ یہ گروپ پوری دنیا میں مقبوضہ کشمیر کی آزادی کا پیغام پہنچانے میں اہم کردار ادا کر رہاہے ۔ اس گروپ کے سرپرست سابق صدر محمد میاں سومروہیں۔ جب کہ اس کے ایگزیکٹو ڈائیریکٹر معروف صحافی احمد قریشی ہیں۔ نوجوانوں کا یہ گروپ ایک منظم انداز سے اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے اور اس کا پیغام پوری دنیا میں پھیل رہا ہے۔


مقبوضہ وادی سے ہی چند نوجوان جو اس فورم کا حصہ ہیں کے مطابق حالیہ سیلاب میں بھارتی حکومت نے مسلمانوں کو یکسر نظر انداز کیا اور صرف ہندو آبادی کو ہی امداد دی جو ہندووانہ ذہنیت کا عکاس رویہ ہے۔ کشمیر کا مسلہ تو بھارت سرے سے مسلہ ہی تسلیم نہیں کرتا۔ بلکہ کشمیری طلباء کے ساتھ ناروا سلوک اور لائن آف کنٹرول کی مسلسل خلاف ورزی کا وطیرہ اپنائے ہوئے ہے جس سے بیش قیمت انسانی جانیں ضائع ہو رہی ہیں۔

قیام پاکستان سے لے کے آج تک بھارت من مانی اور ہٹ دھرمی کا عادی ہے۔ لیکن شاید اسے یہ اندازہ نہیں کہ کشمیراور کشمیریوں سے ہماری وابستگی اتنی ہی مضبوط ہے جتنی پاکستان سے ہے۔ آج نہیں تو کل کشمیریوں کو اپنی جہدو جہد کا صلہ ضرور ملے گا۔اور و دن بھی یقینا دور نہیں جب مقبوضہ وادی میں آزادی کا سورج طلوع ہو گا۔ اور اس جنت نظیر خطے کے بیٹوں کی قربانیاں ضرور رنگ لائیں گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :