یہ قوم ہارے گی نہیں۔۔۔ مگر!!

جمعرات 24 ستمبر 2015

Syed Shahid Abbas

سید شاہد عباس

یہ قوم ہرگز بھی دشمن کی کمینگی کے آگے نہ ہی جھکے گی ۔ نہ ہی ہار مانے گی ۔شہید کیپٹن اسفند یار بخاری نے تن تنہا کھڑے رہ کر یہ ثابت کر دیا کہ اگر دنیا پاکستانی قوم پہ حیران ہے تو اس کی حیرانگی بجا ہے۔ واشنگٹن پوسٹ کہتا ہے کہ پاکستان نے 70 فیصد دہشت گردی پہ قابو پا لیا ہے۔ ہمارا دشمن غیر محفوظ ہونے کا واویلا مچائے جا رہا تھا۔ لیکن عجیب ہے یہ قوم جو اپنی ہی دھن میں مگن ہے۔

سننے میں آیا کہ اسفند یار بخاری کو آپریشن کے ابتداء میں ہی گولی لگ گئی تھی۔ لیکن پاکستان بالعموم اور اٹک کے خطے کو بالخصوص اس سپوت پہ ناز ہونا چاہیے جو گولی لگنے کے باوجود اپنے محاذ سے پیچھے نہیں ہٹا۔ ہم لکھاری حضرات غیر مصدقہ اطلاعات پر ہی تحریر کرتے ہیں۔ کیوں کہ تصدیق کا کوئی نظام نہ تو لکھاریوں کے پاس ہے نہ ہی کسی ایسے نظام تک رسائی ہے۔

(جاری ہے)

اسفند یار آپریشن کی ابتدائی قیادت کا فریضہ سر انجام دے رہے تھے۔ زخمی ہوئے ۔ پیچھے نہیں ہٹے۔ اور کمک پہنچنے پہ دہشت گردوں کو واصل جہنم کر دیا گیا۔ تب تک اٹک کی دھرتی کا یہ سپوت جام شہادت نوش کر چکا تھا۔
ایک بہت عزیز دوست محترم شہزاد چوہدری صاحب نے بجا فرمایا کہ اٹک کی دھرتی کرنل (ر) شجاع خانزادہ، ڈی ایس پی شوکت شاہ اور دیگر شہدا اور اب اسفند یار بخاری کی شہادت پہ بلا شبہ فخر کر سکتی ہے۔

ایک محترم عزیز سے دوران گفتگو بحث چل نکلی کہ کیا نرالی قوم ہیں ہم ۔ اپنے ہی وطن کو کرپشن کی جڑوں سے کھوکھلا بھی کرتے رہتے ہیں اور وقت پڑنے پہ اسی دھرتی کی خاطر مر مٹنے کو بھی تیار ہو جاتے ہیں۔ انہوں نے چوک میں کھڑے چند پولیس والوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ، انہیں دیکھ رہے ہو۔ یہ قوم کے محافظ اس وقت خوش گپیوں میں فرائض سے غفلت برت رہے ہیں۔

بے شک درست۔ لیکن اگر ابھی یہاں پہ وطن دشمن عناصر سے ان کا سامنا ہو جائے تو یہ جان دے دیں گے لیکن پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ واقعی پاکستانی قوم کی نفسیات اقوام عالم بھی آج تک نہیں سمجھ پائی ہیں۔ شاید اس قوم کا کسی کی سمجھ میں نہ آنا ہی اس کی بقاء کی ضمانت بنا ہوا ہے۔
اغیار جب دیکھتے ہیں کہ اس قوم کی تو رگوں تک میں کرپشن سرایت کر رہی ہے۔

ایک دوسرے کی ذات کے بخیے ادھیڑنے میں مصروف ہیں۔ تو وہ وار کرتے ہیں۔ لیکن میں خود حیران رہ جاتا ہوں کہ دشمن کے سامنے(جنوری2014) شہید اعتزاز احسن جیسا عام سا طالبعلم آہنی دیوار بن جاتا ہے۔ دشمن حیران رہ جاتا ہے کہ کیسے ایک نہتے بچے نے اپنے ساتھیوں کے لیے قربانی دے دی۔ وہ تو کچھ اور ہی سوچ کہ اپنی کمینگی دکھانے آیا تھا۔لیکن اس کا سامنا کیسے اس مضبوط چٹان سے ہو گیا۔

مارچ 2009میں سری لنکن ٹیم پر ہونے والے حملے کو یاد کریں۔ دشمن نے سوچا ٹیم کو یرغمال بنائیں گے اور مرضی کی شرائط ریاست سے منوائیں گے۔ لیکن اس کے منصوبوں پہ اس وقت پانی پڑ گیا جب اس کا سامنا خلیل جیسے پاکستانی سے ہوا۔ کیا آپ تصور بھی کر سکتے ہیں کہ بس پہ گولیوں کی بوچھاڑ ہو رہی ہو اور انسان اس قدر حاضر دماغی دکھائے کہ وہ بس کو سٹیڈیم کے اندر محفوظ جگہ پر لے جائے؟ کیا ایسا ممکن ہے کہ موت سامنے ہو اور کوئی اس درجہ ہمت دکھا ئے؟ آج کی نسل نے 65 کی جنگ نہیں دیکھی لیکن ایسے واقعات دیکھ کر وہ باتیں سچی معلوم ہوتی ہیں کہ سفید لباس کی فوج نے ہماری مدد کی تھی۔

سابق صدر و آرمی چیف پہ حملہ ہوا تو صرف ایک ڈرائیور کی ہمت کی بدولت نہ صرف ان کی جان بچی بلکہ وہ محفوظ مقام تک بھی پہنچے۔ وہ بھی اس حالت میں کہ گاڑی صرف لوہے کے ریمز پر چل رہی تھی۔ پاکستان کے پاس موجود پی تھری سی اورین (P3C-Orion (جہاز جو سمندری حدود کی حفاظت کے ضامن تھے۔ مئی 2011میں دشمن کی جارحیت کا نشانہ بن گئے۔ لیکن ان کو جزوی نقصان پہنچا۔

کیوں کہ وہاں بھی دشمن کی راہ میں لیفٹیننٹ یاسر عباس شہید حائل ہو گیا۔ دشمن وار کرتے ہوئے پریقین تھا کہ حفاظتی حصار بحفاظت پار کر کے پاکستان کی سمندری حدود کو داؤ پہ لگا دے گا۔ لیکن حیران کن طور پر ایک چھوٹے رینک کے افسر نے ایک گھنٹہ انہیں روکے رکھا۔اس جزوی نقصان کا تخمینہ دیار غیر سے لگوایا گیا تو کم از کم ڈیڑھ کروڑ ڈالر بنا۔ لیکن ملکی انجینئرز نے آدھی لاگت میں کارنامہ سر انجام دے دیا۔

دشمن اب تک حیران ہے کہ آخر اس قوم کے سپوتوں میں ایسا کون سا جذبہ ہے جو انہیں موت کے سامنے کھڑا کر دیتا ہے۔
تخلیقی و تکنیکی لحاظ سے دنیا ہم کمتر سمجھتی ہے۔ اسرائیلی فورسز نے اوائل 2000 میں کارنر آئی کے نام سے ایک ہتھیار بنایا۔ جو دنیا میں اپنی نوعیت کا پہلا ہتھیار تھا جس کی خاصیت یہ تھی کہ بناء سامنے آئے مخصوص زاویے سے فائر کر سکتا ہے۔

2012ء میں پاکستان آرڈیننس فیکریٹریز واہ جانے کا اتفاق ہوا اور یہ دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ پاکستان 2008 سے POF-Eye نامی ہتھیار مکمل ملکی سطح پہ بنا رہا ہے جو کارنر آئی سے کئی گنا زیادہ بہتر ہے۔ پاکستان نے امریکہ سے ڈرون ٹیکنالوجی دینے کا مطالبہ کیا لیکن نہ مانا گیا۔ یہ مطالبہ نہ ماننا پاکستان کے لیے مفید ثابت ہوا۔ براق پاکستان کا پہلا ہتھیار بردار ڈرون بن کر ابھرا۔

جب پہلے ہی آپریشن میں سو فیصد نتائج سامنے آئے تو مغربی دنیا انگشت بدنداں کے مصداق حیران رہ گئی۔ ٹینک ٹیکنالوجی میں جب دنیا نے مدد نہ کی تو الضرار جیسی تخلیق سامنے آئی۔ امریکہ نے F-16 دینے میں حیل و حجت سے کام لیا تو JF-17تھنڈر جیسا شاہکار ابھرا۔ اس سب کے باوجود کیا وجوہات ہیں کہ یہ قوم تباہی کا شکار ہے؟
یہ صرف ایک شعبہ دفاع کے حقائق ہیں۔

ہر شعبہ اٹھا کر دیکھ لیں۔ یہ قوم آپ کو حیران کرتی نظر آئے گی۔ تو کیا وجہ ہے کہ دشمن پھر بھی وار کر جاتا ہے۔ اس کا آسان سا جواب ہے ۔ خلوص نیت ، ایمانداری، پیشہ وارانہ دیانت۔ جی ایچ کیو حملے کے دہشت گرد فوجی وردیوں میں ملبوس، نیول حملے کے مجرمان وردیوں میں ملبوس، آرمی سکول حملے کے مجرمان وردیوں میں ملبوس،اب پشاور ائیر بیس کے حملہ آور ایف سی کی وردیوں میں ملبوس۔

پاکستان میں ایک کلچرپایا جاتا ہے کہ اچھی گاڑی اور اچھا لباس کسی بھی ناکے سے گزر جانے کی ضمانت بنا ہوا ہے۔ اور وردی ہو تو سونے پہ سہاگہ۔ لاہور میں کچھ عرصہ پہلے ایک جج صاحب کو روکا گیا تو انہوں نے روکنے والے کے وہ لتے لیے کہ الاماں۔ یہ گناہگار آنکھیں گواہ ہیں کہ جن ناکوں پہ بوسیدہ و پرانی گاڑیاں روک کر جامع تلاشی لی جاتی ہے۔ وہیں سے نئی نکور گاڑیاں فراٹے بھرتی گزر جاتی ہیں۔

منطق یہ کہ اطلاع پہ روکتے ہیں۔ دہشت گرد تو ہماری ہی کمزوریوں کو استعمال کرتے ہیں۔ جس گاڑی میں دہشت گردی ایف سی کی وردی میں آئے ہوں گے اسے شہر میں گھومتے ہوئے شاید سیلیوٹ بھی کیے گئے ہوں۔ اور شاید ٹریفک میں پھنس جانے پر راستہ بھی بنا کر دیا گیا ہو۔ وجہ کہ انہوں نے وردی پہن رکھی تھی۔
یہ بات اپنی جگہ درست کہ کوئی اس قوم کو ہرا نہیں پائے گا۔

ہر سو یاسر و اعتزاز کھڑے ہیں۔ اسفند کی طرح کے سینے اس دھرتی کی حفاظت کر رہے ہیں۔ مگر۔۔۔ حالات اسی نہج پہ تو نہیں چل سکتے۔یہ راگ الاپنا چھوڑ دیں کہ سب افغانستان سے ہو رہا ہے۔ہو رہا ہے تو تدارک کریں۔ پچھلے پندرہ سال سے ہمارا ملک شورش کا شکار ہے اور ہم دہشت گردی سے جان نہیں چھڑا پا رہے تو پھر افغانستان جیسے ملک سے کیوں امید کر رہے ہیں کہ وہ قابو پائے گا جو نصف صدی سے زائد عرصے سے خانہ جنگی کا شکار ہے۔

جس کی فوج بھی چند سال پرانی ہے۔ اور جہاں ہمارے دشمن ممالک سر جوڑے بھی بیٹھے ہیں۔امید رکھنے کے بجائے خود عمل کریں۔ دنیا کی بہترین عملی فوج ہے ہمارے پاس۔ جن علاقوں میں افغانستان کا کنٹرول بھی نہیں ہے وہاں باہمی اعتماد سے سرجیکل اسٹرائیک کریں۔ یا پھر یہ منطق صرف مغربی ممالک کے لیے ہے؟ درست کہ بارڈر کو مکمل محفوظ بنانا ممکن نہیں لیکن متبادل نظام کریں۔

انسانی مربوط انٹیلیجنس نظام(Human Intelligence) کو اُن علاقوں میں مضبوط بنائیں جہاں نظر رکھنا مشکل ہے۔ براہ راست پورے بارڈر کو محفوظ نہیں کر سکتے تو کم از کم اس علاقے کے لوگوں کو شامل کر کے ایسا مکمل نظام بنائیں جو پل پل کی خبر دے۔پورے ملک میں فورسز کی وردی بیچنے والے عناصر کا قلع قمع کریں۔یہ کچھ مشکل بھی نہیں اگر کرنا چاہیں تو۔اس کے علاوہ ہر چوراہے پہ قائم ناکوں پہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ کوئی عام لباس میں ہے یا وردی میں شناخت لازمی دیکھیں۔

مہنگی گاڑیوں اور کالے شیشوں کو سیلیوٹ کر کے چھوڑ دینے کے بجائے ان کی تلاشی لینے کو ضروری قرار دیں۔ جب چوراہے پہ ایک عام شہری کے ساتھ کسی اعلیٰ عہدے دار کی گاڑی بھی تصدیق کے بناء نہیں گزرے گی تو کچھ نہ کچھ بہتری ضرور آئے گی۔ مزید اگر دشمن نہیں طریقے ڈھونڈے گا تو ہم بھی مزید بہتری لائیں گے۔ اوپر سے کوئی فون کر کے روکنے والے کے بارے میں گلہ کرے یا غصہ تو اسے کھڑاک سے جواب دیں۔ ہم بہت با ہمت قوم ہیں۔ سب کرسکتے ہیں۔ ہمیں کوئی ہرا نہیں سکتا۔۔۔ مگر۔۔۔ اس وقت جب ہم کرنا چاہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :