تم وار کرو ہم جھیلیں گے

اتوار 31 مئی 2015

Syed Shahid Abbas

سید شاہد عباس

میرا اس موضوع پر چوتھا کالم ہے۔ میرے ایک عزیز دوست کہتے ہیں کہ تم مسلسل اس پہ لکھ کر قارئین کو یکسانیت کی طرف لے جا رہے ہو۔ میرا جواب تھا کہ اس قوم کی ہمت پہ جتنا بھی لکھا جائے کم ہے۔ ہمیں دنیا دہشت گرد کے روپ میں کیو ں جانے۔ اس پہ کیوں مسلسل نہ لکھا جائے کہ مسلسل وار سہنے کے باوجود بھی یہ قوم ایک نئے حوصلے سے اٹھ کھڑی ہوتی ہے۔

اگر یہ قوم 47ء میں قیام پاکستان، 65ء کی جنگ،71ء کی عیاری،80ء کی مشکل دہائی، 98ء کی دھمکیاں اور پابندیاں، مسلسل ڈرون حملے ، جوانمردی سے سہہ چکی ہے تو کیوں نہ اس قوم کے جذبے اور ہمت پہ بار بار لکھا جائے۔
2009 ء میں سری لنکن ٹیم پر حملہ ہوا تو بیگانے تو بیگانے اپنوں نے بھی راگ الاپنا شروع کر دیا کہ کھیلوں کے میدان اب دوبارہ آباد نہیں ہو پائیں گے۔

(جاری ہے)

نانگا پربت پر خون بہایا گیا تو کہا جانے لگا کے اب کوئی سیاحتی مقامات کا رخ نہیں کرے گا۔ گومل ذام ڈیم اور دیگر ترقیاتی منصوبوں پر مصروف چینی انجینئرز کو نشانہ بنایا گیا تو کہا گیا کہ ہم سے ہمارا واحد دوست بھی الگ ہو جائے گا۔ لیکن ہم نے ثابت کیا کہ ہم بے پناہ مسائل سے بھی ہمت ہارنے والے نہیں۔ قیادت کے شدید ترین فقدان کے باوجود پاکستانی قوم ہرگز بھی گمنامی کے اندھیروں میں گم ہونے والی نہیں ہے۔


سری لنکن ٹیم پر ہونے والے شدید حملے کے بعد سے ہمارے کھلاڑیوں نے نہ صرف عالمی درجہ بندی میں اپنا آپ منوایا بلکہ دنیا کو یہ پیغام بھی دیا کہ ہم ہتھیار کی زبان میں بات کرنے والوں میں سے ہرگز نہیں ہیں۔ نانگا پربت پر ہونے والی دہشت گردی کی کاروائی کے بعد جس طرح پاک فوج نے مقامی قیادت سے مل کر حالات کی بہتری کے لیے کام کیا وہ کسی سے بھی ڈھکا چھپا نہیں۔

2008 میں جب مالم جبہ کے واحد ریزورٹ کو نذر آتش کر دیا گیا تو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ پاکستان کا واحد اسکی پوائنٹ دوبارہ سے عوام کی توجہ کا مرکز بن پائے گا۔ لیکن دنیا نے دیکھا کہ نہ صرف پاک فوج کے اسکیئرز برفانی چوٹیوں پر محو رقصاں نظر آئے بلکہ عام پاکستانیوں نے بھی ان علاقوں کا رخ کیا۔ 2007 میں جب راہ حق کی جہدو جہد شروع ہوئی تو سوات جیسی خوبصورت وادی میں خوف کی سی فضاء تھی۔

سیاح ڈر کے مارے رخ نہیں کر رہے تھے۔ لہلاتی وادی سراسیمگی کا لبادہ اوڑھے بیٹھی تھی۔ پھر خوف کی فضاء 2009 میں آپریشن راہ راست سے ختم ہونا شروع ہوئی۔ سیادہ چادر ہٹنا شروع ہو گئی ۔ رونقیں بحال ہونا شروع ہو گئیں۔سوات میلہ ان دشمنوں کے منہ پر طمانچہ تھا جن کا خیال تھا کہ یہ قوم اپنے سیاحتی مقامات سے محروم ہو جائے گی ۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے جب سوات آپریشن کے بعد پہلی دفعہ سوات میلے کا انعقاد کیا گیا تو ہمیں ایک تربیتی ورکشاپ میں اس موضوع پر لکھنے کا کہا گیا تھا اور ہر کوئی اس پہ لکھنے کو بے تاب تھا۔

کیوں کہ ایک عرصے بعد سوات کو رونقیں لوٹی تھیں۔
" میرے کندھے اور پیٹ میں گولیاں لگیں تو میں بے ہوش ہو گیا۔ اور ایک موقع پر بڑے آپریشن سے گزرتے ہوئے خطرہ پیدا ہوا کہ کہیں میں گردہ نہ کھو بیٹھوں۔ لیکن میں زندگی کی طرف لوٹا اور ساتھ ہی ہمیشہ پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کے لیے دعا گو رہا"۔ یہ الفاظ 2009 میں سری لنکن کرکٹ ٹیم پر ہونے والے حملے سے شدید زخمی ہونے والے پاکستانی ایمپائر احسن رضا کے ہیں۔

احسن رضا کے لفظ عزم و ہمت کی ایک داستان لیے ہوئے ہیں۔ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اس قوم کا حوصلہ کبھی پست نہیں ہو گا۔ ہم پہ دشمن جتنے وار کرئے گا اس سے ہمارے حوصلے مزید مضبوط ہوں گے ۔ زمبابوے کی ٹیم کی پاکستان آمد کے ساتھ ہی کچھ اپنے یہ راگ الاپنا شروع ہو گئے ہیں کہ ہمیں ابھی یہ رسک نہیں لینا چاہیے تھا۔ ان سے صرف اتنی سی گذارش ہے کہ خدارا اپنی سوچ بدلیے۔

اس قوم کے فرد ہیں آپ جس نے لاشوں پہ اس ملک کی بنیادیں قائم کی تھیں۔ باپ جوان بیٹیوں کو اپنے ہاتھوں سے موت کی وادی میں باعزت طریقے سے رخصت کرتے ہوئے یہ کیوں نہیں سوچتے تھے کہ قائد نے یہ نئے وطن کا رسک کیوں لیا؟ ممبئی حملوں کے بعد بھارت نے پوری دنیا سے اپنے سفراء کو واپس بلوایا اور ان کے دلوں میں پاکستان کے خلاف نفرت بھر کے دنیا میں واپس بھیجا گیا۔

نتیجتاً پاکستان آج تک ایک ملزم کی طرح خود کو کٹہرے میں محسوس کر رہا ہے۔ آخر کیوں ہم خود یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ پاکستان بطور ریاست ہی سیکیورٹی رسک ہے۔ زمبابوے کو مکمل سیکیورٹی دے کر ہم دنیا پہ یہ ثابت بھی کر سکتے ہیں کہ ہم مہمانوں کی قدر کرنا جانتے ہیں۔ جب سری لنکن ٹیم پر حملہ ہوا تو بس ڈرائیور کو سری لنکا بلوا کر انعامات سے اسی لیے نوازا گیا کہ اس نے جرات کی مثال قائم کرتے ہوئے کھلاڑیوں کو محفوظ مقام پہ پہنچایا ۔


افسوس صرف اس بات پہ ہوتا ہے کہ تنقید ہمیشہ " ائیر کندیشنڈ" ہوتی ہے۔ جو لوگ تپتی دھوپ میں فرائض سر انجام دے رہے ہوتے ہیں وہ ہر وقت اسی فکر میں سرگرداں رہتے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح سے وطن عزیز کی رونقیں بحال ہو سکیں۔ لیکن ٹھنڈے کمروں میں بیٹھے نام نہاد تجزیہ کار نا جانے کیوں یہ ثابت کرنے پہ تلے رہتے ہیں کہ پاکستان محفوظ ملک نہیں۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان اس وقت مسائل سے دوچار ہے۔ لیکن ان مسائل سے کیسے نمٹا جائے گا؟ کون آئے گا ان مسائل سے نجات دلانے کے لیے؟ ہمیں خود ہی تو ہمت دکھانا ہو گی ۔ دشمن وار کرے تو ہمیں شیر کی طرح غرانا ہو گا۔ اور جھپٹنا ہو گا۔ تا کہ دشمن اس قوم کی طرف میلی آنکھ سے نہ دیکھ سکے۔ میں حیران ہوں زمبابوے کی کرکٹ ٹیم کے حوصلے پہ جنہوں نے اپنی حکومت کی مخالفت کے باوجود پاکستان آنے کی حامی بھری ۔

اور اپنے نقصان کی ذمہ داری بھی اٹھائی۔ ایک ٹی وی چینل پر تبصرہ جاری تھا کہ زمبابوے کو پیسے کی چمک دکھائی گئی۔ تو جناب عرض صرف اتنی ہے کہ آپ بھی پیسے تھامیے اور ذرا، یمن ، عراق، یا افغانستان میں سے کسی ملک کا رخ کر کے دکھائیے۔
پاکستانی قوم کے لیے اس وقت اصل ہیرو وہ نہیں ہیں جو نہایت " تجربہ کاری " کے ساتھ میڈیا پہ آ کے زمبابوے کی کرکٹ ٹیم کے دورے کو اپنے پاؤں پہ کلہاڑی مارنے سے تعبیر کر رہے ہیں۔

بلکہ پاکستانی قوم کے ہیرو زمبابوے کے وہ کھلاڑی ہیں جو اپنی حکومت، FICA(کھلاڑیوں کی عالمی تنظیم) کی شدید ترین مخالفت کے باوجود بھی پاکستان پہنچے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ کسی بھی قسم کی غلطی کی نہ تو گنجائش ہے نہ ہم افورڈ کر سکتے ہیں۔ کیوں کہ ایک چھوٹی سے غلطی بھی پاکستان میں کھیلوں کے میدان ہمیشہ کے لیے ویران کر دینے کا سبب بن سکتی ہے۔

لیکن ساتھ یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ زمبابوے کے دورہء کی کامیابی سے پاکستان بطور ملک ایک ایسے ملک کے طور پہ ابھرے گا جو سانحات سے نمٹنا جانتا ہے۔ وہ تمام جوان پاکستان قوم کے ہیرو ہیں جو دن رات ایک کیے مہمانوں کی حفاظت یقینی بنانے کا فریضہ سر انجام دے رہے ہیں۔ اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ انشاء اللہ ان کی محنت رائیگاں نہیں جائے گی ۔


حال ہی میں پھانسی پانے والے "صولت مرزا" نے اپنی وصیت میں تاریخی الفاظ کہے کہ"نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ کھیلوں اور دیگر تعمیری سرگرمیوں میں حصہ لیں۔ اس سے ان کا دھیان تخریبی سرگرمیوں کی طرف جائے گا ہی نہیں"۔ ان الفاظ میں ایک پچھتاوا ہے ۔ اور اگر کھیلوں کے میدان ویران ہو جائیں تو نوجوان نسل اس راہ پہ چل نکلتی ہے جس کی منزل صرف تباہی ہوتی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :