سیزن شروع ہوگیاہے۔۔۔!

اتوار 12 جون 2016

Syed Shahid Abbas

سید شاہد عباس

سوچا رمضان کا بابرکت مہینا شروع ہو گیا ہے اشیائے ضرورت کی چند چیزیں جمع کر لوں تا کہ رمضان کے دنوں میں رش اور افراتفری سے بچ سکوں( کیو ں کہ ہم لوگ جمع کرنے کو بہتر خیال کرتے ہیں بجائے قناعت کے اوراس یقین کے ساتھ کہ پتھر میں چیونٹی بھی رزق پاتی ہے۔ بس سعی شرط ہے)۔ دوکاندار سے تھوڑی بہت دُعا سلام تھی اور موصوف کچھ کچھ ہم سے واقف تھے یا پھر ہمارے واقفِ حال تھے یہ تو رب ہی بہتر جانتا ہے۔

خیر ازلی مسکراہٹ سے استقبال ہوا ہمارا کہ بکرا معاف کیجیے گا گاہک آ گیا۔ چمڑے کی زبان ہے پھسل جاتی ہے۔
دوکاندار کو وہی چیزیں دوہرائیں جو درکار تھیں ۔ اور جن کی دستیابی کا خیال رمضان جیسے با برکت مہینے میں رش سے بچنے کے لیے آیا تھا۔ دوکانداور نے سکون سے تمام فہرست سنی اور اختتامِ فہرست پہ استہزائیہ انداز میں مُسکرا دیا۔

(جاری ہے)

حیران ہوا کہیں میرے چہرے پہ امان اللہ کی کوئی جگت تو تحریر نہیں ہو گئی۔

یا میری بغل میں کہیں ٹیڈی نے سر نکال لیا ہے جو موصوف مسکراہٹیں بکھیر رہے ہیں دائیں بائیں دیکھنے پہ جب ایسا کچھ نظر نہ آیا تو سوالیہ نشان بن کے بازو سینے پہ باندھ کہ کھڑا ہو گیا کہ نجانے اب کون سا جن نکلتا ہے جو ہنسی کا موجب بنا ہے۔ لیکن جن نکلنے کی نوبت ہی نہیں آئی۔
"سرکار یہ چیزیں ابھی آپ کو نہیں ملیں گے۔کچھ دنوں تک دستیاب ہوں گی۔

مارکیٹ میں آج کل ان کی کافی قلت ہے ۔(یہاں تک کے فقرے اُس نے مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے ببانگ دہل کہے)۔ دراصل سیزن شروع ہوگیا ہے نا اس لیے یہ تمام چیزیں گوداموں میں سٹور ہو گئی ہیں۔(یہ الفاظ مجھے ایک غلیظ انداز سے آنکھ مارتے ہوئے ارشاد فرمائی گئی جس پہ میں تلملا بھی نہ سکا کیوں کہ اُس سے اُدھار جو لیتا تھا)۔ سوہنٹریو! مجھے آپ کی بات کچھ سمجھ نہیں آئی ۔

ابھی تو عید الفطر کا دور دور تک نشاں نہیں۔ اور شادی بیاہ کا سیزن بھی اختتام تک پہنچ چکا ہے ۔ اور کوئی اقلیتی تہوار بھی قریب قریب نہیں ہے۔ پھر کاہے کا سیزن اور کاہے کا منافع۔
بھولے بادشاہو! رمضان کا سیزن شروع ہوگیا ہے نا۔ اُس نے ایک تمسخرانہ انداز سے میری کم علمی کا ماتم کرتے ہوئے قہقہ لگایا تو مجھے اپنے پاؤں کے نیچے سے زمین سرکتی ہوئی محسوس ہوئی۔

اور منمناتی ہوئی آواز میں استفسار کیا کہ محترم شاید آپ غلط بول گئے ہیں عید کی جگہ رمضان بول دیا شاید۔ جب وہ اپنی بات پہ قائم رہا تو پوچھا کہ بھائی صاحب رمضان تو ایثار کا مہینہ ہے اور اس مہینے میں تو غرباء ، اقربا، یتامیٰ، مساکین، کی مدد کا کہا گیا ہے نہ کہ منافع خوری کا تو وہ کھسیانی ہنسی سے بس اتنا کہا ، صاحب جی! جاؤ اگلی دوکان پہ ، سال میں ایک ہی مہینہ تو سیزن کا ہوتا ہے اور آپ کا دل ہے اس میں بھی اب منافع نہ کمائیں۔


ایک لمحہ صرف غور کیجیے کہ جس مہینے میں آسمان سے رحمتیں برس رہی ہوں گی۔ ہم اُس مہینے کی ساعتوں کو جب ناجائز منافع خوری اور سیزن لگانے کے چکر میں صرف کر رہے ہوں گے تو کیسے رحمت ہمارے بگڑے معاملات سنوارے گی۔ جب شیطان کے قید ہونے کے باوجود ہم شیطانی افعال سے جان چھڑانے کے بجائے چند ٹکوں کی کی خاطر اپنی دنیا و عاقت دونوں تباہ کرتے رہیں گے تو پھر کیسے یہ تصور بھی کیا جا سکتا ہے کہ رمضان کی عبادات ہماری اصلاح کر پائیں گے۔

جس مہینے میں عبادات کا اجر کئی گنا بڑھ جاتا ہے ہم اُس با برکت مہینے میں بھی اپنے دامن میں جب خار سمیٹ رہے ہیں تو پھر کیسے ہم توقع رکھ پائیں گے کہ اللہ اپنی رحمت کے جوش سے ہماری بگڑی سنوار دے گا۔ اللہ نے تو ہم کو موقع دیا۔ جب ہم خود ہی اس موقع سے فائدہ اٹھانے کے بجاے اُلٹا اپنا دامن تار تار کرنے پہ تُلے ہوئے ہیں تو خدا کی رحمت کیسے ہم تک آئے گی۔
بخشش ہمیں ڈھونڈتی ہے ۔ اُن لمحوں میں جب ہم مضبوط قدموں سے دھرتی پہ چلتے ہیں۔ جب ہم بخشش کو ٹھکرا رہے ہیں تو بخشش اُن لمحوں میں کیسے ہم پہ سایہ کرئے گی جب ہمارے قدموں میں کھڑے رہنے کی طاقت نہیں رہے گی۔ ایک لمحہ فکریہ ہے۔ سوچیے اگر سوچنے کی طاقت ہو تو۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :