سانحہ لاہور۔۔۔ اب بھی سیاست؟

بدھ 18 جون 2014

Syed Shahid Abbas

سید شاہد عباس

پاکستان ایک "سیاسی" ملک ہے۔ جس طرح کچھ عرصہ پہلے تک پاکستان کو زرعی ملک کہہ کہہ کر عوام کو تسلی دی جاتی تھی اور پھر وہ وقت بھی آ پہنچا کہ گندم آسٹریلیا سے منگوانی پڑی بالکل اسی طرح پاکستان ایک " سیاسی " ملک ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اس ملک میں بڑے سے بڑا جرم بھی سیاست کے لبادے میں اوڑھ دیا جائے تو وہ جرم قابل گرفت نہیں رہتا۔

وطن عزیز شاید دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں غلط اور غلیظ ترین کام میں بھی ، جب سیاست آ جائے ، تو اسے مختلف دلائل ، وجوہات، اور بانت بانت کی بولیوں سے درست اور اچھا ثابت کیا جاتا ہے۔ اور حیران کن طور پر اس غلط کام پر عوامی حمایت بھی ملتی ہے۔
" ضرب عضب" شروع ہوا تو ہر پاکستانی پاک فوج کے شانہ بشانہ نظر آیا۔ اور دل بہت خوش ہوا کہ شاید 65ء کے بعد پہلا موقع ہے کہ تمام سیاسی پارٹیوں نے اس کی مخالفت نہیں کی۔

(جاری ہے)

اس آپریشن کا مقصد غیر ملکیوں کو سرزمین پاک سے دور کرنا تھا۔ لیکن یہ گماں میں بھی نہ تھا کہ" مغلوں" کے لاہور میں بھی ایک آپریشن دیکھنے کو ملے گا۔ اس لاہور کی سڑکیں ہماری ماؤں ، ہماری بہنوں کے لہو سے رنگین ہوں گی جس میں " پاکدامن بیبیاں" محو استراحت ہیں۔ ایک صحافی دوست نے سانحہ ء لاہور کی کچھ تازہ تصاویر بھیجیں تو اس کو جواباً میں نے ایک غصے بھرا جواب دیا کہ یہ تصاویر کشمیر کی تو ہو سکتی ہیں لیکن وطن عزیز کی نہیں۔

اس دوست نے اور تو کچھ نہیں کہا صرف اتنا کہا کہ بھائی ٹی وی دیکھ لو یا پھر سوشل میڈیا پر جا کر " پولسیوں" کی کارکردگی دیکھ لو۔
اور اس کی بات سچ تھی۔ لاہور کی سڑکوں پر ، خون میں لت پت، اوندھے منہ کسی کی ماں پڑی تھی۔ وجہ پنجاب پولیس کی کارکردگی تھی۔ ایک اور مستور بے پردہ انصاف کے ایوانوں پر دستک دے رہی تھی۔ آٹھ سے زائد افراد صرف پولیس کی " کارکردگی" کی وجہ سے لقمہء اجل بن گئے اور شاید یہ تعداد زیادہ بھی ہو سکتی ہے کیوں کہ بہت سے زخمی ہسپتالوں میں پڑے ہیں جن میں سے بہت سوں کی حالت تشویش ناک بھی ہے۔


مجھے حیرانگی تو اس بات پر ہوئی کہ میڈیا پر اس معاملے میں بھی سیاست ہو رہی ہے۔ اور ہمارے لیے مرمٹنے کا مقام ہے کہ ہماری ماؤں ، بہنوں ، بیٹیوں کی لاشیں سڑکوں پر پڑی ہیں اور ہم اب بھی اس سانحے کی توجیح پیش کرنے کی جسارت کر رہے ہیں۔ صرف تھوڑی دیر کے لیے خود کو کسی بھی طرح کی سیاسی وابستگی سے بالاتر رکھ کر سوچیں اگر ہم میں سے کسی کی ماں اس طرح "پولیس گردی" کا شکار ہو کر بر سر سڑک خون میں لت پت پڑی ہوتی تو کیا پھر بھی ہم پولیس کے اس قدم کی حمایت کر رہے ہوتے؟
خادم اعلیٰ کا کہنا ہے کہ یہ آپریشن ان کو بتائے بغیر کیا گیا ہے۔

تو میاں صاحب کیا اچھی کارکردگی یہی ہے کہ کوئی بھی آپ کی اجازت کے بغیر ہماری ماؤں، بہنوں ، بیٹیوں کو سر بازار خون میں نہلا دے؟ آپ اس واقعے کی ذمہ داری اپنے اوپر ثابت ہونے پر استعفیٰ دینے کو تیار ہیں۔ لیکن کیا آپ کا استعفیٰ ان جانوں کو واپس لانے میں کوئی کردار ادا کر سکتا ہے جو اب نہیں رہیں؟
مجھ میں تو اتنا حوصلہ نہیں ہوا کہ سڑک پر تڑپتی مستور کی تصویر دوبارہ دیکھ سکوں۔

میرے سر سے پاؤں تک چنگاریاں سی اٹھنا شروع ہو گئیں کہ عورتوں کی تذلیل تو 14 سو سال پہلے ختم کر دی گئی تھی۔ پھر یہ سب کیا ہے؟کہیں ہم پھر سے زمانہ ء جاہلیت کی طرف تو نہیں جا رہے۔ اگر ہم نے عورت کو سر بازار رسوا ہی کرنا ہے تو ہم اس نبی صلی اللہ و علیہ و آلہ وسلم کو روز محشر کیا منہ دکھائیں گے جس نے بیٹیوں کو زندہ درگور کرنے کی قبیح رسم کو ختم کیا تھا۔


میاں صاحب سے اتنی سی گذارش ہے کہ خدارا! آپ بے شک استعفیٰ نہ دیں لیکن اس سانحے کے جو لوگ بھی ذمہ دار ہیں ، وہ آپ کا کتنا ہی قریبی ساتھی کیوں نہ ہو اسے مقام عبرت ضرور بنائیں۔ آج مجھے کچھ کچھ یہ بات سمجھ میں آنا شروع ہوئی ہے کہ آخر ہم اب تک عافیہ کو نہیں آزاد کروا سکے۔ سانحہ لاہور نے اس کی وجہ سبھی سمجھا دی۔ عافیہ کے کیس کو بھی ہمارے تمام سیاسی قائدین پوائنٹ سکورنگ کے لیے استعمال کرتے رہے۔

ہمارے سیاستدان اسے پاکستان کی بیٹی تو قرار دیتے ہیں لیکن تمام سیاستدانوں میں سے کسی نے بھی آج تک اسے اپنی بیٹی نہیں سمجھا۔ جس ملک میں بیٹیوں کو سڑکوں پر گولیوں سے چھلنی کرنے کی روایت قائم ہو جائے وہاں کیسے کسی دوسرے کی قید سے اپنی بیٹی چھڑانے کی ہمت کی جا سکتی ہے۔
جن اداروں کا کام حفاظت کا ذمہ لینا تھا وہی قاتل بن بیٹھے ہیں۔ مجھے اس بات کی سمجھ نہیں آتی کہ جب قادری صاحب کی رہائش کے اطراف رکاوٹوں سے وہاں کے مقامی لوگوں کو کوئی تکلیف نہیں تھی تو ہمارے اداروں کو پھر کیا تکلیف تھی۔

اور قادری صاحب سے تو اب اتنی سے التجا ہے کہ خدارا آپ نے جو کرنا ہے اپنے وطن آ کر کیجیے۔ اب ویڈیو لنک کا پیچھا چھوڑ دیجیے کیوں کہ اگر واقعی آپ اس ملک کے ساتھ مخلص ہیں تو اس وقت آپ کے ان کارکنوں کی آپ کی اشد ضرورت ہے جو اس ملک کی سڑکوں پر خون میں لت پت پڑے ہیں۔ اگر اب بھی آپ پاکستان نہیں آ سکتے اس خون کا حساب نہیں دے سکتے جو آپ کے کارکنوں نے آپ کے لیے بہایا تو پھر کبھی پاکستان نہ ٓئیے گا پھر اپنا مستقل ٹھکانہ کینیڈا ہی رکھیے گا۔

لوگ آپ کے لیے مر رہے ہیں اور آپ ویڈیو لنک سے دیدار کروانے سے آگے نہیں بڑھتے۔
اس ملک کی تقدیر اس وقت تبدیل ہو گی جب اس ملک کا عام شہری اپنے حقوق کا ادراک کرے گا۔ جب ایک عام ن لیگ کا کارکن اپنی قیادت کے غلط فیصلوں پر ان کا گریباں پکڑے گا تو تب اس دیس میں حقیقی تبدیلی آئے گی۔ جب قادری صاحب کا کائی پیرو کار ان سے باز پرس کرنے کی ہمت اپنے اندر پیدا کر لے گا تو پھر سانحہ ء لاہور جیسے واقعات بھی نہیں ہوں گے۔

جب تبدیلی کے نام لیوا خان صاحب کا کوئی ہمسفر اس بات کا تہیہ کر لے گا کہ خان صاحب کی کسی غلط بات کی حمایت نہیں کرے گا تو تب ہم کہہ سکتے ہیں کہ انقلاب آگیا۔اس واقعے کے ذمہ داران جو بھی ہیں وہ یقینا ایک جمہوری حکومت کے چہرے پر سیاہ دھبہ ہیں۔
میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ لاہور کی سڑک پر خون آلود چہرہ لیے ایک ماں کی و ا آنکھیں پوری قوم سے صرف یہ پوچھتی ہیں کہ کیا وہ کوئی غیر ملکی ہے جس کے ساتھ اتنا ذلت آمیز سلوک کیا گیا؟ کیا وہ دہشت گرد ہے جس سے اس پاکستان کو کوئی خطرہ تھا؟یا وہ کسی دشمن ملک کی ایجنٹ ہے جسے اس بے رحمی سے مار دیا گیا؟ بناء کسی سیاسی وابستگی کے پاکستان کے تمام سیاستدانوں کے لیے یہ سوالات ان کے منہ پر طمانچہ ہیں۔

ایک ایسا طمانچہ جس کی گونج تب تب ان کے کانوں میں گونجے گی جب جب وہ اپنی ماؤں کی گود میں شفقت کے لیے سر رکھنا چاہیں گے۔ جب وہ اپنی بیٹیوں کے سر پر محبت بھرا ہاتھ رکھنا چاہیں گے۔ اور میرا یقین بہت پختہ ہے کہ جو مظلوم لوگ اس سانحہء میں زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ان کی آخری سسکیاں کسی بھی میاں، مخدوم، چوہدری ،خان،شاہ کو تب تک سکون سے نہیں بیٹھنے دیں گی جب تک ان کو خون میں نہلانے والوں کو سزا نہیں دی جاتی۔
ایک عام پاکستانی سے بھی التجاء ہے کہ مرنے والا عوامی تحریک، تحریک انصاف، پیپلز پارٹی، ن لیگ یا کسی بھی اور سیاسی جماعت کے کارکن سے پہلے ایک پاکستان ہے۔ آج کوئی اور پاکستان جاں سے گیا کل کو آپ کو باری بھی آ سکتی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :