روزہ صرف بھوک کا نام نہیں

اتوار 6 جولائی 2014

Syed Shahid Abbas

سید شاہد عباس

ایک کسان نے خربوزوں کا باغ لگایا۔ جب پھل پک کر تیار ہوا تو " گیدڑ" نے کہاں پیچھے رہنا تھا وہ روز کہیں نہ کہیں سے راستہ تلاش کر کے کھیت میں گھس جاتا اور جو بھر کر خربوزے بھی کھاتا اور خراب بھی کرتا۔ کسان اس تمام صورت حال سے سخت تنگ تھا۔ اس نے کھیت کے چاروں طرف باڑ بھی لگائی لیکن پھر بھی کچھ فائدہ نہ ہوا۔ اسے زیادہ غصہ اس بات کا تھا کہ گیدڑ کھانے کے بعد بہت سے خربوزے توڑ کر خراب کر دیتا تھا۔

تمام تدابیر ایک ایک کر کے ناکام ہو رہی تھیں۔ باڑ کا بھی کچھ فائدہ نہ ہوا۔ ایک دن اسے ایک ترکیب سوجھی اور اس نے کھیت میں ایک پھندہ لگا دیا۔ شومئی قسمت کہ گیدڑ بھی اس چال میں آ گیا اور پھندے میں پھنس گیا لیکن جب تک کسان اس تک پہنچتا وہ کسی نہ کسی طرح بچ نکلنے میں کامیاب ہو گیا۔

(جاری ہے)

لیکن اس پھندے کا ایک حصہ اس کے گلے میں ہی رہ گیا۔ کسان کچھ مطمئن ہوا کہ شاید " میاں گیدڑ "اب کچھ ڈر کے مارے دوبارہ واپس نہ آئے لیکن گیدڑ کیوں کہ "شاطر دماغ " ہوتا ہے۔

اس لیے اس نے اس موقع کو الگ انداز سے " کیش" کروانے کا منصوبہ بنایا۔ جب وہ اپنے دیگر ساتھیوں کے درمیان پہنچا تو اس کے ساتھیوں نے اس سے اشتیاق کے ساتھ اس کی گردن میں ٹوٹے شکنجے کے بارے میں دریافت کیا ۔ گیدڑ نے اپنی خفت چھپانے کے لیے بتایا کہ یہ " نمبرداری" کا اعزاز اسے ملا ہے۔ اس کے تمام ساتھی بڑے خوش ہوئے اور " نمبرداری" کے فواہد کا پوچھا تو اس نے بتایا کہ اس نمبرداری کے ہوتے ہوئے تم سب میرے ساتھ مفت میں خربوزے کھا سکتے ہو۔

گیدڑ کو کھیت کے چور راستوں کا تو پہلے ہی علم تھا لہذاوہ اپنے ساتھیوں کو بھی روز خربوزوں کی "دعوت" کے لیے لے جاتا۔ کسان اس نئی صورت حال سے سخت پریشان ہوا ۔ اسی پریشانی میں اس نے اپنے ایک دوست سے مشورہ کیا تو اس نے مشورہ دیا کہ اپنے ساتھ کھیت میں " رکھوالی " کے لیے کچھ پالتو کتے بھی لے جاؤ۔ کسان نے اسی مشورے کو بہتر جانا اور اگلی رات اسی بندوبست کے ساتھ کھیت کی " رکھوالی" کے لیے پہنچ گیا۔

گیدڑ دیگر ساتھیوں سمیت " مستانہ چال" سے کھیت میں پہنچا اور خربوزوں کو " نشانہ" بنانے کا ارادہ ہی کیا تو کتے سر پر پہنچ گئے۔ گیدڑ اور اس کے ساتھیوں نے بھاگنے میں ہی عافیت جانی۔ باقی سب گیدڑ تو باڑ پھلانگ گئے۔ لیکن " نمبردار" کی گردن میں " نمبرداری" باڑ میں پھنس گئی۔باقی ساتھیوں نے جب حیرانگی کے ساتھ اس سے پوچھا کہ تم بھاگ کیوں نہیں رہے تو گیدڑ نے جواب دیا کہ میں تو بھاگنا چاہتا ہوں لیکن یہ "نمبرداری" مجھے بھاگنے نہیں دے رہی۔


اس ملک کی مثال بھی کسان کے اس کھیت جیسی ہے۔ اور اس میں موجود بے پناہ وسائل کھیت کے خربوزوں کی طرح ہیں جنہیں ہر کوئی للچائی نظروں سے دیکھتا ہے۔ اس ملک کو اللہ نے اتنے وسائل سے نوازا ہے کہ اگر یہ للچائی نظروں سے دیکھنے والے گیدڑ ساری زندگی بھی اس کو کھاتے رہیں تو وسائل ختم نہیں ہوں گے۔ لیکن گیدڑ اس بات پر ہی اکتفا نہیں کرتے بلکہ وہ اپنے دیگر ساتھیوں کو بھی اس دھرتی کو نوچنے میں شامل کر لیتے ہیں۔

اور غصہ تو تبھی آتا ہے کہ خود تو کھا ہی رہے ہیں اپنے باپ کی جاگیر سمجھ کر اس کے وسائل کو برباد کرنا بھی یہ اپنا حق تصور کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ لوگ خود کو اس ملک کے وسائل کا نمبردار سمجھ بیٹھتے ہیں بالکل گیدڑ کی طرح جو خود کو کسان کے خربوزوں پر نمبردار بنا بیٹھتا ہے۔ انہیں کبھی کبھارعارضی جھٹکا لگتا ہے لیکن وہ اس جھٹکے سے سنبھلنے کے بجائے اس جھٹکے کو نمبرداری کے اختیارات میں اضافے سے تعبیر کر لیتے ہیں۔

اور شاید ان اختیار کا انہیں کسی نہ کسی طرف سے احساس بھی دلایا جاتا ہے شاید اسی لیے وہ اس نمبرداری کے بل بوتے پر عام آدمی کو "بونے" سمجھنا شروع کر دیتے ہیں۔
TCC کو ریکوڈک سے سونے و تانبے کے ذخائر کے حوالے سے کام کرنے کا ٹاسک ملا تو اس کو کام کرنے سے روک دیا گیا۔ اس وقت اس فیصلے کی شاید کسی نے بھی مخالفت نہیں کی لیکن اب اس فیصلے پر کھل کر تنقید بھی کی جا رہی ہے اور اس وقت کیے گئے فیصلے پر بھی انگلیاں اٹھ رہی ہیں لیکن اس معاملے پر رائے قانونی ماہرین ہی دے سکتے ہیں۔

Barrick Gold کا نام بھی اس منصوبے میں لیا جاتا رہا۔پھر اس منصوبے میں دیگر اشتراکی کمپنیوں کے نام بھی سامنے آئے ۔ ریکوڈک کو بعض ذرائع دنیا کی دوسرے بڑی اور کچھ جگہ اسے سونے اور تانبے کے ذخائر کے حوالے دنیا کی چھٹی بڑی کان سمجھا جاتا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ریکوڈک میں 20.9 ملین اونس سونے اور12.3 ملین ٹن تانبے کے ذخائر ہیں۔ان کی مالیت کا اندازہ لگائیں تو شاید 70 سے 80ارب ڈالر کے درمیان ہی بنتا ہے۔

اور ان وسائل سے فائدہ اٹھانے کے لیے 1 سے 2ارب ڈالر کی سرمایہ کاری درکار ہے۔ اور 1 ارب ڈالر سے زائد تو شاید پاکستان اپنے قرضوں پر سود ادا کر دیتا ہے۔
مجھے حیرانگی اس بات پر ہوتی ہے کہ دنیا ایسی کمپنیوں اور شخصیات سے بھری پڑی ہے جو اچھی شہرت رکھتے ہیں ۔ لیکن ہم نے پہلے اس اہم منصوبے کا ٹھیکہ ایک متنازعہ کمپنی کو دے دیا پھر ایک ایسے شخص کے ہاتھوں میں اس منصوبے کی بھاگ دوڑ دے دی جو اس عہدے کا اہل ہی نہیں تھا۔

اور جس کی اپنی ذات ہی متنازعہ ہے۔ وطن عزیز میں ایسے "گیدڑ" وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں جو اس ملک کے وسائل خود تو کھاتے ہیں ساتھ اپنے ساتھیوں کے " منہ میٹھا" بھی کرواتے ہیں۔مغرب بلوچستان پر قراردیں اپنے ہاں پیش کر رہا ہے اور ہم کبوتر کی طرح آنکھیں بند کیے بیٹھے ہیں کہ یہ معاملہ صرف قرارداد رتک رہے گا۔ یہ قراردادیں بظاہر تو انسانی حقوق کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہیں لیکن حقیقت میں ان کا تعلق ریکوڈک سے ہی ہے۔

کچھ بعید نہیں کہ ان وسائل پر ہاتھ صاف کرنے لیے مستقبل قریب میں بلوچستان کو ایک متنازعہ علاقہ قرار دے دیا جائے۔
ہم ایک عجیب قوم ہیں ۔ ہم میں اپنے کھیت کی رکھوالی کرنے کی طاقت ہے نہیں اور ہم " کعبے سے بت گرانے" کا ذمہ لے لیتے ہیں۔ اپنے "خربوزے "ہم سنبھال نہیں پا رہے اور دنیا میں اپنے لیے مقام ڈھونڈنے نکل پڑے ہیں۔ پوری دنیا کے نزدیک ہماری مثال اس " نشئی" سے زیادہ کی نہیں جو ایک پڑیا نشے کے لیے اپنے خاندان تک کا سودا کر دیتا ہے۔ ریکوڈک تو صرف ایک مثال ہے ورنہ اجتماعی طور پر حالات ایسے ہیں کہ ہم جس روش پر چل رہے ہیں ہماری آنے والی نسلیں ہمیں " بازارمصر" کے خریداروں سے زیادہ مقام کسی صورت نہیں دے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :