RIC ۔۔۔شاندار آغاز

منگل 4 فروری 2014

Syed Shahid Abbas

سید شاہد عباس

میری ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ اداروں اور سرکاری شعبوں پر لکھنے کے بجائے عوامی مسائل پر لکھوں۔ لیکن بعض ادارے اور شعبے جیسے عدلیہ، پولیس، ریونیو، طب، تعلیم، اور دیگر بہت سے ادارے عوامی فلاح و بہبود کے لیے کلیدی اہمیت رکھتے ہیں۔عوام ان شعبوں کی اچھی یا بری کارکردگی سے براہ راست متاثر ہوتے ہیں۔
صحت کے محکمے سے عوام کا براہ راست تعلق رہتا ہے۔

پوری دنیا میں ترقی یافتہ اور کافی حد تک ترقی پذیر ممالک میں بھی صحت کی سہولیات کی فراہمی حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ عوام اپنی محنت کی کمائی پر ٹیکس ادا کرتے ہیں تو پھر یہ حکومت وقت کی ذمہ داری بن جاتی ہے کہ وہ عوام کا پیسہ عوام کی ہی فلاح و بہبود پر خرچ کرے۔ لیکن دیگر ترقی پذیر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی آج تک صحت کے شعبے کو سرکاری طور پر نظر انداز کیا گیا۔

(جاری ہے)

اس کا نقصان یہ ہوا کہ پرائیویٹ طبی ادارے وجود میں آنا شروع ہوئے۔ ان پرائیویٹ طبی اداروں(ہسپتال ، ڈسپنسریاں، میڈیکل کی تعلیم کے ادارے وغیرہ) میں صاحب حیثیت لوگوں کے لیے جانا تو کوئی مشکل نہیں لیکن اس طبقے کے لیے جو دو وقت کی روٹی مشکل سے کماتا ہے کے لیے ان پرائیویٹ اداروں میں جانے کا سوچنا بھی محال ہے۔
قلم کی حرمت ہم سے یہ تقاضا کرتی ہے کہ اچھا کام کوئی بھی کرے اس کو سراہا جائے۔

پچھلے دنوں ایک عزیز کی بیماری کے سلسلے میں ایک سرکاری ہسپتال جانا ہوا۔ ہسپتال میں داخل ہونے سے لے کر مریض کی صحت یابی کے بعد واپسی تک ایک لمحے کے لیے بھی یہ احساس نہیں ہوا کہ یہ سرکاری ہسپتال ہے۔ یہ حیرت اس لیے بھی ہوئی کہ پاکستان کے سرکاری ہسپتالوں کی حالت زار کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ اب تو صورت حال اس نہج تک پہنچ چکی ہے کہ لوگ اپنے عزیزوں کو سرکاری ہسپتالوں کے بجائے اپنی زندگی بھر کی جمع پونجی خرچ کر کے بھی پرائیویٹ ہسپتالوں میں لے جانے کو ترجیح دینے لگے ہیں۔


راولپنڈی میں قائم امراض قلب کا ادارہ ، جسے عام طور پر راولپنڈی انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی کہا جا تا ہے۔ بلاشبہ پاکستان جیسے ملک میں صحت کے حوالے سے ایک انقلابی ادارہ ہے۔ یہ ادارہ پاکستان مسلم لیگ نواز کے سابق ایم این اے محترم حنیف عباسی کی کوششوں سے قائم ہوا۔ اس منصوبے کے مخالفین یہ دلیل بھی دیتے ہیں کہ میاں صاحب نے یہ منصوبہ عباسی صاحب کو جتوانے کے لیے شروع کیا تھا۔

اس میں کتنی صداقت ہے اور کتنی نہیں یہ بات موضوع بحث ہی نہیں۔ سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ کیا اس منصوبے سے صرف عباسی صاحب یا ان کے حواری ہی مستفید ہو رہے ہیں؟ ایسا ہرگز نہیں ہے بلکہ اس ہسپتال سے راولپنڈی کے علاوہ گلگت بلتستان ، آزاد کشمیر، اٹک ، جہلم ، چکوال کے علاوہ ارد گرد کے دیگر علاقوں کے لوگ بھی مستفید ہورہے ہیں۔ بے شک اس کے قیام میں عباسی صاحب کی کاوشیں شامل ہیں۔

لیکن اس سے فائدہ تو عام آدمی کا ہو رہا ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ دل کے امراض کی مہنگی ترین ادویات بھی اس ادارے سے مفت فراہم کی جاتی ہیں(ہسپتال کی سہولیات کے بارے میں تفصیلات ایک الگ کالم میں تحریر کروں گا)۔ اب یہ سلسلہ کب تک جاری رہتا ہے اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ لیکن اس وقت تک یہ ادارہ جڑواں شہروں کے تمام اداروں سے بہتر کام کر رہا ہے۔

اس ادارے کی افادیت اس بات سے ظاہر ہوتی ہے کہ راولپنڈی سے ہی میرے ایک دوست کچھ سال پہلے دل کے عارضے کے لیے پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی لاہور تشریف لے گئے۔ اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ فوج کے ادارہ امراض قلب اور دیگر بڑے ہسپتالوں سے علاج ان کی استطاعت سے باہر تھا کیوں کہ تمام ہسپتالوں میں علاج سے پہلے پیسوں کا تقاضا کیا جاتا ہے۔ اور وہ کیوں کہ صوبائی حکومت کے ملازم تھے لہذا ان کے لیے امید کی شمع صرف لاہور میں صوبائی حکومت کے زیر انتظام کام کرنے والا یہ ہسپتال ہی تھا۔

ذرا تصور کیجیے کہ اب راولپنڈی میں قائم اس ادارے سے کتنے ہی لوگ مستفید ہو سکتے ہیں۔
اس ادارے کے ایگزیکٹو ڈائیریکٹر میجر جنرل (ریٹائرڈ) اظہر محمود کیانی ہیں۔ اپنے سابقہ عہدے اور موجودہ عہدے کے برعکس ایک انتہائی حلیم شخصیت کے مالک ہیں۔ اس ہسپتال کے ایک خاکروب سے جب یہ پوچھا کہ بھائی آدھی رات گزر جانے کے بعد بھی تم صفائی میں مشغول ہو تھوڑا آرام کیو ں نہیں کر لیتے ؟ تو اس کا جواب تھا کہ جب اس ہسپتال کا آغاز ہوا تھا تو جنرل صاحب نے تمام عملے سے کہا تھا کہ یہ ہسپتال آپ سب کی محنت سے چلے گا۔

تمام لوگوں کو اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا ہو گا۔ اپنے عزیز کی صحت یابی کے بعد وہاں سے رخصتی کے وقت جب ایک وارڈ بوائے کو کچھ رقم دینا چاہی تو اس کے جواب نے حیران کر دیا۔ اس کا کہنا تھا کہ آپ کی مدد کرنا تو ہمارا فرض ہے اور اس فرض کی ادائیگی کے لیے ہمیں تنخواہ ملتی ہے۔ خدا ہر ہسپتال کے عملے کو یہ جذبہ عطا فرمائے۔ کیانی صاحب سے چند لمحوں کی ملاقات بھی ہوئی اس ملاقات سے اس بات کا احساس تک نہ ہوا کہ یہ شخص اس ادارے کا سربراہ ہے۔

کاش وطن عزیز کے تمام ڈاکٹرز کم از کم کیانی صاحب کا لہجہ و انداز مستعار لے لیں۔ کیوں کہ مریض کی آدھی بیماری تو ڈاکٹر اور عملے کے اچھے رویے سے ہی ختم ہو جاتی ہے۔
خدا محترم کیانی صاحب کو اس ادارے کی مزید خدمت کرنے کی توفیق دے۔ لیکن ساتھ بہت سے وسوسے بھی ہیں جودل سے نہیں نکلتے۔ PIMS جاپان کی حکومت سے اس سے بھی بہتر انداز میں قائم ہوا تھا۔

لیکن آج وہاں حال یہ ہے کہ نہ کوئی دروازہ سلامت ہے نہ کھڑکی، وارڈز کباڑ خانے کا منظر پیش کرتی ہیں۔ اس وقت لگائے گئے خودکار دروازوں کو آج آہنی زنجیروں سے مقفل کیا جاتا ہے۔ میری کیانی صاحب سے دست بدستہ التجا ہے کہ خدارا RIS کو اس حال میں کبھی نہ پہنچنے دیجیے گا۔ کیوں کہ یہ ایک ادارہ نہیں بلکہ غریب عوام کی امیدیں وابستہ ہیں اس ادارے سے۔


آخر میں محترم حنیف عباسی صاحب سے اتنی سی التجا ہے کہ اس ادارے کے قیام کے کریڈٹ ہم بلاشبہ آپ کو دیتے ہیں۔ لیکن اپنے قائدین کی کچھ توجہ T.Bہسپتال کی طرف بھی متوجہ کروائیں۔ جس کے لیے منگوائی گئی مشینری بھی زنگ آلود ہو چکی ہو گی ۔یہ بات ذہن سے نکال دیں کہ یہ منصوبہ کس نے شروع کیا تھا۔ صرف عوام کی فلاح و بہبود کو ذہن میں رکھیں۔ جس طرح عوام آپ کو RICکے قیام پر دل سے دعائیں دیتے ہیں۔ اس طرح اس منصوبے کی تکمیل پر بھی آپ کو دعائیں ہی ملیں گی۔ اور اس بات میں تو کسی کو کوئی شک نہیں کہ دعا ایک ایسا خزانہ ہے جو دنیا و آخرت میں نجات کا ضامن بن جا تا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :