پنجاب پولیس کے " بادشاہ"۔۔۔حفاظت یا پریشانی؟

اتوار 15 جون 2014

Syed Shahid Abbas

سید شاہد عباس

سیکیورٹی ادارے یقینا ہماری حفاظت و سلامتی کے لیے دن رات کوشاں رہتے ہیں ۔ اور مجھے ان لوگوں سے ہمیشہ اختلاف رہا ہے جو ان پر بے جا تنقید کرتے ہیں۔ لیکن غلطی کی نشاندہی پھر بھی میرا فرض بنتا ہے۔ سیاچن پر اپنی رات کی نیند ہمارے سکون کے لیے قربان کرنے والا بھی ہمارا فخر ہے ۔ اور ہماری پر سکون نیند کے دوران رات کو امن و امان قائم رکھنے والے سپاہی سے بھی ہمیں پیار ہے۔ لیکن یہ پیار اس وقت غصے میں تبدیل ہو جاتا ہے جب یہ سپاہی خود کو " بادشاہ" تصور کر لیتا ہے۔
میں آج بھی ASF کے جوانوں کی ہمت کو داد دیتا ہوں جنہوں نے کراچی ائیر پورٹ پر دہشت گردوں کو تب تک کارگو ٹرمینل تک محدود رکھا جب تک کہ کمک نہ پہنچ گئی۔اور پھر تو ساری دنیا نے دیکھا کہ فوجی جوانوں نے کس جوانمردی سے دہشت پسند عناصر کو نیست و نابود کیا۔

(جاری ہے)

مجھے تو حیرانگی اس بات پر ہوئی کہ کیسے جناب قائم علی شاہ صاحب نے سارا ملبہ بے چارے ASFوالوں پر ڈال دیا۔حالانکہ اس فورس کے جوانوں نے تو اپنی استعداد سے زیادہ مقابلہ کیا۔ حقیقی طور پر دیکھا جائے تو یہ ناکامی پولیس کی ہے نہ کہ فوج یا ASF کی۔ لیکن قائم علی شاہ بھی " جلالی پیر" ہیں جیسے شیر سے یہ نہیں پوچھا جا سکتا کہ وہ انڈہ دیتا ہے یا بچہ کیو ں کہ وہ جنگل کا با دشاہ ہے بالکل اسی طرح شاہ صاحب سے بھی یہ نہیں پوچھا جا سکتا کہ جناب کسی حوالے سے کمزوری ASF کی ہے۔کیوں کہ وہ پورے صوبے کے " بادشاہ" ہیں۔
اب آتے ہیں پولیس کے کردار کی طرف ۔ پاکستان کی پولیس چاہے اس کا تعلق کسی بھی صوبے سے ہو اس کی ایک مخصوص سوچ ہے۔ ان کی تنخواہیں زیادہ کر دی گئیں۔ان کو سہولیات دینے کی بھی ہر ممکن کوشش کی گئی۔ لیکن پھر بھی اس مخصوص سوچ کا خاتمہ نہیں ہو سکا۔ تمام سرکاری محکموں کے خلاف ہونے والی شکایات کا کم و بیش 65فیصد حصہ پولیس کے متعلق ہی ہوتا ہے۔ اس محکمے میں بہت سے فرض شناس افسران و جوان موجود ہیں جو اپنے فرائض تندہی سے سر انجام دیتے ہیں لیکن پھر بھی اس محکمے میں ایک بہت بڑی تعداد ایسے لوگوں کی بھی ہے جو اب بھی صرف اور صرف عوام کی پریشانی کا باعث ہی بنتے ہیں۔
پاکستان پولیس صرف دو کام بہت تندہی سے کرتی ہے ایک وی وی آئی پی ڈیوٹی ، دوسرا ناکے پر کارکردگی۔ وی وی آئی پی ڈیوٹی تو پولیس کے جوان اس لیے تندہی سے سر انجام دیتے ہیں کہ انہیں اس بات کا پتا ہوتا ہے کہ ان کی چھوٹی سی غلطی سے بھی ان کو اپنی ملازمت کے لالے پڑ سکتے ہیں۔ اور اس ملک میں جان تو صرف وی آئی پیز کی قیمتی ہے عام آدمی تو مجرموں کے رحم و کرم پر ہی ہیں۔اس کے بعد پولیس ناکوں پر بہت زیادہ تندہی سے کام کرتی اس کا ایک مطلب تو بہت واضح ہے کہ انہیں کچھ" امید" بندھ جاتی ہے دوسرا ان کو " بادشاہ" بننے کا ایک نادر موقع بن جاتا ہے ۔
پنجاب پولیس کے ایک بادشاہ سے میرا واسطہ آج صبح دفتر آتے ہوئے پڑ گیا۔ جس علاقے(خواجہ کارپوریشن چوک، اڈیالہ روڈ راولپنڈی) میں پولیس کا ناکہ لگا ہے وہاں سے تقریباً پچھلے 20 سال سے میرا گزر ہو رہا ہے۔ کیوں کہ یہی میرا آبائی علاقہ ہے۔پولیس کے اس بادشاہ سے جس سے میرا واسطہ پڑا اس سے پہلے بھی ایک دفعہ اسی ناکے پر ہماری گاڑی کو روکا گیا۔ لیکن اس وقت کوئی پریشانی اس لیے نہیں سمجھی کہ اچھی بات ہے ہماری حفاظت کے لیے ہی تو کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ میڈیا کے طالبعلم کے حوالے سے شناخت اور اس علاقے کے مقامی ہونے کا شناختی کارڈ دکھانا بھی کام آیا ۔ اس کے باوجود ہم نے گاڑی بھی چیک کروا دی( یہ تو آج کل کے بچے بھی جانتے ہیں کہ جو لوگ گاڑیوں کو غلط مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں وہ کبھی بھی ناکوں سے نہیں گزرتے)۔خیال تھا کہ ہمارا تعاون ہی ہماری حفاظت کا ضامن ہے۔ کچھ ہی دن بعد پھر دوبارہ اسی ناکے پر اسی گاڑی کو جو روز وہاں سے گزرتی ہے پولیس کے "بادشاہ" نے دوبارہ روک لیا۔ اور شومئی قسمت کے اس دن دفتر سے بھی کافی دیر ہو چکی تھی۔ لیکن بادل نخواستہ گاڑی سے اترے، بڑے بھائی جو ہائی بلڈ پریشر کے مریض ہیں، کو بڑی مشکل سے روکا کہ جناب! تھوڑا نرمی سے پیش آئیے گا یہ ہماری حفاظت کے لیے ہی کھڑے ہیں۔لیکن " بادشاہ" کا رویہ ایسا تھا کہ نہ چاہتے ہوئے بھی بات توں تکار تک پہنچ گئی۔ پھول کندھے پہ سجائے" بادشاہ" کو اپنی " شناخت" کے لیے بہت سی دستاویزات دکھائیں جن میں ہمارا میڈیا کارڈ، آفس کارڈ اور اصل شناختی کارڈ شامل تھا پھر بھی ان کے لہجے کی رعونت کم نہ ہوئی ۔ اور وہ گاڑی کے کاغذات پر مصر رہے۔ غلطی بھی تسلیم کی کہ جناب جلدی نکلنے کی وجہ سے کاغذات کا"گتھا" گھر رہ گیا اور زیادہ مسلہ ہے تو گھر پاس ہی ہے اصل شناختی کارڈ رکھ لیں اورگاڑی کھڑی کر لیں کاغذات ہم لے آتے ہیں لیکن انہوں نے انتہائی بد تمیزی اور رعونت سے کہا کہ"گھر بھولے ہی کیوں کاغذات"۔ہمارا غلطی تسلیم کرنا بھی" بادشاہ" کو پسند نہ آیا اور نیا حکم ملا کہ " کل ہر حال میں مجھے کاغذات دکھا کر جانے ہیں" اب ان صاحب سے کوئی پوچھے کہ جناب! اگر واقعی کوئی غلط کام کر رہا ہے تو اس کا دماغ خراب ہے کہ وہ کل دوبارہ آپ کے پاس آئے گا؟۔ اس موقع پر مجھے پتا نہیں کیوں وہ دہشت گرد یاد آ گئے جو بلا خوف سڑکوں پر سے گزر کر GHQ پہنچ گئے کسی ناکے پر کسی " بادشاہ" سے ان کا واسطہ نہیں پڑا۔ جو بغیر کسی چیکنگ کے پریڈ لائن مسجد پہنچ گئے۔ جو کچہری چوک میں سے پولیس والوں کی آنکھوں میں مرچیں ڈال کر اپنے ساتھی چھڑا لے گئے۔ جو ان ناکوں کے " بادشاہوں " کو لفٹ کروائے بغیر سبزی منڈی پہنچ گئے۔ ان کے پاس کاغذات تو کیا کسی قسم کی کوئی شناختی دستاویز بھی نہیں ہو گی پھر پتا نہیں وہ کیسے ان ناکوں سے بچ جاتے ہیں۔ اب ان " بادشاہوں" کو کون یہ سمجھائے کہ دہشت پسند عناصر اس طرح ناکوں پر کھڑے ہو کر آپ سے بحث و مباحثہ نہیں کرتے۔غیر قانونی مقاصد کے لیے گاڑی استعمال کرنے والے اس طرح ناکے پر کھڑے ہو کر ہماری طرح آپ کی منتیں نہیں کر رہے ہوتے۔
میں اب جب بھی کہیں پر لکھا ہو ا دیکھتا ہو ں کہ " پولیس کا ہے فرض مدد آپ کی" تو سوچنے لگتا ہوں کہ شاید ایسا کسی اور ملک کی پولیس کے لیے لکھا گیا ہے۔ کیوں کہ وطن عزیز میں تو پولیس اس کے بالکل الٹ کام کرتی ہے۔ ناکوں پر کھڑے پولیس کے " بادشاہوں" کا یہ حق تو مانا جا سکتا ہے کہ وہ گاڑی روکیں ، گاڑی کی تلاشی لیں۔ اور کوئی غیر قانونی چیز دیکھیں تو مزید قانونی کاروائی کریں۔ لیکن ان کو " ٹریفک پولیس" کا " اضافی چارج " معلوم نہیں کس نے تفویض کر دیا ۔ کیوں کہ کاغذات چیک کرنا اور کاغذات نہ ہونے پر چالان کرنا یا گاڑی بند کر دینا تو صرف ٹریفک پولیس یا ٹریفک وارڈنز کا کام ہے نہ کہ پنجاب پولیس کا۔ آخر کون ہمارے محکموں کو ان کا اصل کام سمجھائے گا؟ کون سرکاری محکموں کے " بادشاہوں" کو سمجھائے گا کہ آپ بادشاہ نہیں بلکہ عوام کی خدمت کرنے کی تنخواہ لیتے ہیں۔ ہم ہمیشہ یہ راگ تو الاپتے ہیں کہ عوام سیکیورٹی اداروں سے تعاون کریں۔ لیکن خدارا کبھی سیکیورٹی اداروں کو بھی یہ سبق دے دیں کہ وہ بھی عوام سے تعاون کریں اور ان کی حفاظت کے بجائے ان کے لیے پریشانی کا باعث نہ بنیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :