پاکستان برائے فروخت؟ "چہ ارزاں فروختند"

جمعہ 7 فروری 2014

Syed Shahid Abbas

سید شاہد عباس

پرویز مشرف کو ہر حال میں سزا بھگتنی ہو گی۔ ہم انصاف کے تقاضے پورے کریں گے۔ہم ملک سے دہشت گردی کی لعنت دور کر کے رہیں گے۔ ہم ملک دشمن عناصر کا قلع قمع کریں گے۔ ہم مذاکرات کا راستہ اپنائیں گے۔ اس ملک میں میٹرو بس کا جال بچھا دیں گے۔نوجوانوں میں مفت لیپ ٹاپ بانٹیں گے۔ یوتھ فیسٹیول ایک انقلابی قدم ہے۔ یہ وہ بیانات ہیں جو حکومت کے نمائندے اکثر پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا میں دہراتے نظر آتے ہیں۔


اب جائزہ لیں موجودہ صورت حال میں حکومتی بیانات کا۔ ہم نے طالبان سے مذاکرات کے لیے کمیٹی قائم کر دی ہے۔ کمیٹی کو مکمل اختیار ہے۔ طالبان کی کمیٹی نامکمل ہے۔ طالبان کا کوئی راہنما کمیٹی میں شامل نہیں وغیرہ وغیرہ۔ اس کے علاوہ آپ کوپرنٹ و الیکٹرانک میڈیا میں کچھ نظر نہیں آئے گا۔

(جاری ہے)

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں امن کا قیام سب سے اہم مسلہ ہے جسے دیگر تمام مسائل سے پہلے حل کرنا چاہیے۔

لیکن پاکستان میں اہم ملکی مسائل کو عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اگر آپ سبزی منڈی کا رخ کریں تو بانت بانت کی آوازیں آپ کے کانوں میں پڑیں گے۔ ان میں سے کچھ لوگ ایسے ہوں گے جن کی سبزی تو تازہ اور اچھی ہو گی لیکن وہ بولی لگانے کا فن نہیں جانتے۔ اور کچھ ایسے آڑھتی ہوں گے جن کی سبزی ہو سکتا ہے باسی ہو اور زیادہ اچھی بھی نہ ہو لیکن وہ بولی لگانے کے فن سے بخوبی واقف ہوتے ہیں۔

لہذا وہ اپنا مال جلدی بیچ دیتے ہیں اور جس بیچارے کے پاس اچھا مال ہوتا ہے وہ انتظار میں ہی رہتا ہے۔
پاکستان میں بھی اس وقت ایسی ہی صورت حال ہے چالاک آڑھتی /بیوپاری مال خراب ہونے کے باوجود بولی لگانے کے فن سے بخوبی واقف ہیں۔ طالبان سے مذاکرات اور پرویز مشرف کیس کی آڑ میں وہ اپنے مقاصد بخوبی پورے کر رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے بہت سے لوگ میری بات سے اتفاق نہ کریں اور ان کا اختلاف بھی سر آنکھوں پر لیکن مذاکرات ، سابق صدر کیس، میٹرو بس ، اور دیگر ہوایوں کی آڑ میں پاکستان کو بیچا جا رہا ہے۔

اور حیرت کی بات یہ ہے کہ کسی کی توجہ اس کی جانب نہیں۔ اس وقت پاکستان کے 60 سے زائد اداروں کی نجکاری کی جا رہی ہے۔ اور فوری طور پر PIA کی نجکاری کی منظوری دے دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان سٹیل ملز کی نجکاری بھی مستبقل قریب میں کرنے کا فیصلہ کیا جا چکا ہے۔ اس کام کے لیے وزیر اعظم نے تھائی لینڈ کے دورے کے دوران ایک شخصیت کو چنا۔PIAکے 26فیصد حصص کی منظوری کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

یہ نجکاری IMFکی ہدایات کی روشنی میں کی جا رہی ہے۔ نجکاری کے عمل میں ایک حیران کن حقیقت یہ ہے کہ بعض اہم غیر ملکی ادارے جیسے انٹرنیشنل فنانس کارپوریشن(IMF کا ایک ذیلی ادارہ) ، US Mutual Fund ، اور اس طرح کے بہت سے ادارے ملکی کمپنیوں کو خریدنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ کیا ان کے پاس کوئی جادو کی چھڑی ہے کہ وہ ان کمپنیوں کو کامیابی سے چلا سکتے ہیں اور ہم نہیں؟ جن اداروں کی نجکاری دسمبر میں کرنے کا ارادہ ہے ان میں نیشنل بینک(NBP)، الائیڈ بینک(ABL)، گیس کی فراہمی کے ادارے، اور توانائی کے کم و بیش 20ادارے، شامل ہیں۔

نجکاری کی فہرست میں PIA اور پاکستان سٹیل ملز جیسے ادارے بھی شامل ہیں۔
مجھے آج تک ایک منطق سمجھ نہیں آئی کہ کیا ملکی معیشت اپنے اثاثے بیچ کر ہی ٹھیک کی جا سکتی ہے؟ضرورت تو رویوں میں تبدیلی کی ہے۔ آپ آج PIA میں اس کے اپنے افسران سے بھی سفر کے پیسے وصول کرنا شروع کر دیں فرق آپ کو پتا چل جائے گا۔نجی ایئر لائن کے مالک آپ کے وزیر ہوں تو کیا ان کا مفاد ملکی ادارے کے لیے ہو گا یا اپنے ادارے کے لیے؟ آج اگرواپڈا کے ملازمین کو یونٹوں میں دی گئی چھوٹ ختم کر دیں تو فرق ظاہر ہو جائے گا۔

اور کچھ نہ کریں صرف بجلی کی چوری ہی روک دیں تو خسارہ کے بجائے منافع ہونا شروع ہو جائے گا۔ یہ الگ بات ہے کہ بجلی چوری میں غریب ایک بلب جلانے والا ملوث ہی نہیں ہوتا۔ اس میں وہی ملوث ہوتا ہے جو ائیر کنڈیشنر کی استطاعت رکھتا ہو۔ اور وہ غریب تو ہو نہیں سکتا۔توانائی کے ادارے بیچ کر فی یونٹ کیا قیمت ہو جائے گی ؟ کبھی یہ بھی عوام کو بتایے گا۔

صرف افسران ہیں نہیں ان اداروں کے ملازمین بھی ان کی تباہی میں شامل ہیں ۔ کیا ان کا محاسبہ ممکن نہیں؟ جتنے اداروں کی نجکاری کی جا رہی ہے ان میں سے بہت سے اداروں کے ملازمین ہی ان کو ڈبو رہے ہیں۔ PTCL ایک اہم اثاثہ تھا جس کے حصص فروخت کیے گئے۔ اس سے ایک دلچسپ تجربہ بھی ہوا۔ ایک صاحب سے دریافت کیا کہ آپ آج کل بڑی جلدی جا تے ہیں تو ان کا جواب تھا کہ یار آفس میں نجکاری کے بعد بائیو میٹرک سسٹم نصب کر دیا گیا ہے اب وقت پر آفس جانا مجبوری بن گیا ہے۔

کیا یہ کام آپ خود نہیں کر سکتے ؟ یہ کوئی اتنا مشکل کام ہے کہ اس کے لیے اداروں کو بیچنا ضروری ہے ؟نجکاری کے ملکی معیشت پر جو " مثبت" اثرات مرتب ہوتے ہیں اس کا اندازہ ان دو خطوط سے لگا لیجیے جو مجھے قارئین نے بھیجے۔پہلا خط متاثرین UBLکی کمیٹی کی طرف سے آیامتن یہ ہے " میاں محمد نواز شریف کے گزشتہ دور حکومت میں UBL کے 5146 ملازمین کو گولڈن شیک ہینڈ کے تحت جبری ریٹائرڈ کر دیا گیا۔

یہ ملازمین سولہ سالوں سے انصاف کے منتظر ہیں۔ ان میں سے کم و بیش 250ملازمین ابدی نیند سو چکے۔ IMF اور عالمی بینک کی شرائط کے مطابق اس سکیم کے تحت برطرف کیے گئے ملازمین کو 100فیصد مراعات دی جاتی ہیں لیکن UBLکے ملازمین کو 50فیصد مراعات پر ٹرخا دیا گیا۔IMFاور دیگر مالیاتی اداروں نے ان ملازمین کو مراعات کے لیے فنڈز بھی دیے تھے۔ لیکن فنڈز پاکستان میں کبھی بھی جائز طریقے سے استعمال نہیں ہوتے ۔

یہ مظلوم ملازمین میاں صاحب کی جلاوطنی کے دوران خانہ کعبہ میں ان سے ملے اور میاں صاحب نے ان کی داد رسی کا وعدہ بھی کیا لیکن شاید اقتدار کا ہما سب کچھ بھلا دیتا ہے۔ اور میاں صاحب بھی وعدہ بھول گئے۔دیگر بہت سے وعدوں کی طرح۔ میاں صاحب کی مسکراہٹ ہی اب تو یہ کہتی نظر آتی ہے کہ "وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو جائے" 250مر گئے۔ باقی بھی ملک عدم سدھار جائیں گے۔

آپ کے لیے اقتدار کا نیرو چین کی بانسری بجاتا رہے تھے۔ لیکن روز حساب تو ہے۔ اسی سے ملتا جلتا ایک خظ PTCL کے ریٹائرڈ ملازمین کی طرف سے آیا 97-98 میں ریٹائرڈ ہونے والے ملازمین اب تک 100فیصد مراعات کے منتظر ہیں۔ شیخوں کی آمد کے بعد تو ان بے چاروں کی پنشن تک میں سالانہ اضافہ اعلان کردہ شرح سے نہیں کیا جاتا۔ مراعات کیا خاک ملیں گے۔اب شیخوں نے ملازمین کم کرنے کا ایک نیا نسخہ نکالا کہ ان کا تبادلہ دوردراز علاقوں میں کیا جاتا ہے بے چارے ملازمین خود ہی ریٹائرمنٹ لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔


کیا ہمارے حکمران روز حساب کے قائل نہیں؟ بطور مسلمان کیا ان کا ایمان نہیں کہ دنیا میں کچھ بھی کر لیں حساب تو ضرور دینا ہو گا۔ کسی کی روزی میں مشکلات پیدا کر کے ۔ کسی سے اس کا روزگار زبردستی چھین کے۔ کیا آپ حکمرانی کا حق ادا کر رہے ہیں؟ملک میں سڑکوں کا جال بچھا دیں۔ ہر نوجوان کو لیپ ٹاپ دے دیں لیکن اگر ملک برائے فروخت کا بورڈ لگا دیں گے تو یہ نوجوان کدھر جائیں گے؟ یہ ترقی کس کام کی اگر آپ اثاثوں میں بہتری کے بجائے ان کو فروخت کرنے پہ کمرکس لیں گے۔ کیا ان اقدامات سے واقعی آپ پاکستان کی خدمت کر رہے ہیں؟ مذاکرات سے فرصت ملی تو سوچیے گا ضرور۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :