لوگ جاتی عمرہ نہیں جائیں گے

ہفتہ 21 مارچ 2015

Syed Shahid Abbas

سید شاہد عباس

بہت عرصہ پہلے میں نے کسی جگہ لکھا تھا کہ " پاکستان جل رہا ہے" تو اس پہ ایک مشہور اخبار نے یہ کہہ کر میرا کالم شائع کرنے سے انکار کر دیا تھا کہ آپ کے کالم کے عنوان میں منفی تاثر پایا جاتا ہے۔ اور صحافت کا طالبعلم ہونے کے ناطے میں آج تک اس بات پہ حیران ہوں کہ اس عنوان میں ایسی کیا غلط بات تھی جس پہ یہ کہا گیا؟ اور اس عنوان میں ایسا کیا جھوٹ تھا کہ اس کو رد کیا گیا؟ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر کے سب اچھا کی رپورٹ دینے کے عادی ہیں۔

ہمارے بڑے صاحب اپنے سیکریٹری کی طرف آنکھ اٹھاتے ہیں تو سیکریٹری صاحب کسی اعلیٰ سرکاری افسر کو فون لگاتے ہیں۔ یہ فون آہستہ آہستہ متعلقہ افسر تک پہنچتا ہے اور یہ متعلقہ افسر اپنے ماتحتوں پر گرجنے برسنے کے بعد دوبارہ سے اپنے افسر کو فون کھڑکاتا ہے کہ " سر ! سب اچھا ہے"۔

(جاری ہے)

اور کرتے کرتے یہی فون بڑے صاحب تک پہنچتا ہے جنہیں ان کا سیکریٹری مسکراتے ہوئے بتاتا ہے کہ " سر ! سب اچھا ہے"۔

اور بڑے صاحب کے چہرے پہ مسکراہٹ نمودار ہو جاتی ہے۔ بے شک اس فون کے سفر میں لاشے گرتے رہے ہوں۔ بے شک آگ بھڑکتی رہی ہو۔ بے شک املاک تہس نہس ہو رہی ہوں۔ لیکن سب اچھا کی رپورٹ نیچے سے اوپر تک پہنچا دی جاتی ہے۔
سانحہ ء پشاور ہو یا سانحہ یوحنا آباد، سانحہ کوٹ رادھا کشن ہو یا سانحہ سیالکوت ہر سانحے کا بغور جائزہ لیں تو "جتھوں کے جتھے " نظر آتے ہیں۔

کسی بھی سانحے کے بعد صرف چند دن کے لیے ایک احساس ہوتا ہے کہ شاید قوم جاگ اٹھی ہے اور پوری قوم یکجا ہو گئی ہے۔ لیکن پھر کچھ دن گزرنے کے بعد حالات پرانی نہج پہ لوٹ جاتے ہیں اور جتھے نمودار ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ ان جتھوں کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ جب کسی مخالف جتھے کا نقصان ہوتا ہے تو یہ عارضی طور پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں لیکن آہستہ آہستہ یہ نقصان اٹھانے والے جتھے کے نقصان پر طنزو غصے کے نشتر برسانا شروع کر دیتے ہیں۔

جتھوں کی اصطلاح نوجوان نسل نے ان بزرگوں سے سنی تھی جنہوں نے پاکستان بنتے دیکھا تھا۔ لیکن اب ہمارے ارد گرد بھی اتنے جتھے جمع ہو گئے ہیں کہ پہچان مشکل ہو گئی ہے کہ کس کا افسوس کریں۔
پشاور میں چرچ پہ حملہ ہو یا ہزارہ برادری کی نسل کشی ہر سانحے کو مذہبی رنگ دے کر پس منظر میں دھکیل دیا گیا۔ کراچی میں میلاد النبی صلی اللہ و علیہ وآلہ وسلم کی محفل کو نشانہ بنایا گیا تو اس کا ملبہ اس کی انتظامیہ پر ہی ڈال دیا گیا۔

نانگا پربت پر سیاحوں کو نشانہ بنایا گیا تو خبریں آئیں کہ ایک مخصوص فرقے کے لوگوں کو تلاش کر کے نشانہ بنایا گیا۔ دیگر اقلیتوں کی عبادت گاہوں کو نشانہ بنایا جاتا رہا جس پہ ہم صرف اس حملے کو کسی مخصوص گروہ ، مخصوص نسل، مخصوص فرقے، یا مخصوص جماعت کے خلاف حملہ تصور کرتے رہے۔ افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ کچھ عرصہ پہلے سانحہ ء پشاور کے بارے میں یہ تاثر پھیلنا شروع ہوا کہ صرف فوج کے ادارے کو نشانہ بنایا گیا۔


لاہور میں چرچ پر حملے میں کم و بیش 17 افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔ لیکن افسوس کہ اس سانحے کو بھی ایک مخصوص اقلیت پر حملہ تصور کر لیا گیا۔ ذرا غور کیجیے۔۔۔ دہشت پسند عناصر کا مقصد ہرگز صرف لاشیں گرانے نہیں تھا۔ بلکہ اس کاروائی کے لیے چرچ کا انتخاب سوچ سمجھ کے کیا گیا ہو گا۔ ایک دشمن وہ تھا جس نے چرچ کو نشانہ بنایا۔ اور ایک دشمن وہ ہے جس نے چرچ حملے کو پاکستان کی سالمیت پر حملے کے بجائے صرف عیسائی برادری پر حملے کے طور پہ ابھارا ۔

اور یہ دوسرا دشمن پہلے سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ کیوں کہ اس دشمن نے حقیقی معنوں میں پاکستان کی سالمیت اور یکجہتی پہ کاری وار کیا ہے۔ پولیس والوں کو لہو لہان کرتے وقت مشتعل ہجوم شاید یہ بات نظر انداز کر گیا کہ سب سے پہلے اپنی جان کا نذرانہ ایک پولیس والے نے پیش کیا ورنہ نقصان کئی گنا زیادہ ہوتا۔ یہ شاید ہجوم ہی تھا جو ان دیکھے ہاتھوں میں کھیل گیا۔

ورنہ 10 مسیحی بھائیوں کے ساتھ 07 مسلمان بھی لقمہء اجل بنے۔ جذبات اپنی جگہ لیکن اگر اس حملے کو صرف عیسائیت پر حملے کے بجائے پوری قوم پر حملے کے مترادف سمجھا جاتا تو پوری قوم پر امن طورپہ سڑکوں پہ ہوتی۔دہشت گردی کی کاروائیوں کا مقصد کسی بھی صورت صرف لاشیں گرانا نہیں ہوتا بلکہ ان کا اصل مقصد حوصلے توڑنا ، یکجہتی توڑنا ہوتا ہے۔ وطن عزیز کی ایجنسیاں، مقتدر حلقے شاید " ستو" پی کر سو گئے ہیں جو یہ سوچنا گوارا نہیں کر رہے کہ اس قوم کو ایسے جتھوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے جو ایک دوسرے کے نقصان پر اصل دشمن تک پہنچنے کے بجائے ایک دوسرے کا گریباں پکڑ لیتے ہیں۔

دو بے گناہ لوگوں کو زندہ جلا دیا صرف اس لیے کہ مشکوک سمجھا گیا( اب تک کی اطلاعات کے مطابق وہ بے گناہ ہی ہیں)۔ اور حیران کن طور پر اعلیٰ کارکردگی کی دعوے دار پولیس نے ان کو پکڑا لیکن ہجوم نے ان افراد کو چھین لیا اور حشر بپا کر دیا۔ ایک حشر چرچ کے اندر بپا ہوا ایک سڑک پر۔ بہت عرصہ پہلے لکھا تھا کہ پولیس کو کچھ عرصے کے لیے فوج کے حوالے کر دیا جائے۔

اس وقت دیوانے کی بڑھک سمجھا گیا۔ لیکن آج جب رینجرز (نیم فوجی) دستے آنے پر ہجوم چھٹ جانے پہ پھر یہ بڑھک یاد آ گئی۔شاید لوگوں کو رینجرز اور پولیس کے درمیان فرق پتا تھا۔
محترم جاوید چوہدری صاحب جو ہم جیسے طالبعلموں کے لیے ایک ادارے کا درجہ رکھتے ہیں کہتے ہیں کہ احتجاج کی یہی صورت رہی تو یہ لوگ جاتی عمرہ جائیں گے۔ لیکن بصد احترام ان سے عرض ہے کہ محترم یہ لوگ جاتی عمرہ یا رائے ونڈ نہیں جائیں گے۔

اگر ان لوگوں نے جاتی عمرہ جانا ہوتا تو اس وقت ہی چلے جاتے جب دو زندہ لوگوں کو اینٹوں کے بھٹے میں بھون دیا گیا تھا۔ ان جتھوں نے اگر جاتی عمرہ کا رخ کرنا ہوتا تو اس وقت ہی کر لیتے جب سیالکوٹ میں دو بے گناہوں کو شعلوں کی نذر کر دیا گیا تھا۔ اس بکھری قوم کے جتھوں کو اگر جاتی عمرہ جانا ہوتا تو اس وقت ہی چلے جاتے جب ہزارہ برادری کی نسل کشی کی جار ہی تھی۔

یہ لوگ جاتی عمرہ نہیں جائیں گے اگر جانا ہوتا تو اس وقت چلے جاتے جب ماڈل ٹاؤن میں لاشیں گر رہی تھیں۔ اس قوم کے غصے کا شکار اگر جاتی عمرہ، بنی گالہ، بلاول ہاؤس وغیرہ بنتے تو ہرگز پشاور کے نونہال خون میں نہ نہلائے جاتے ۔ مجھ سمیت یہ پوری قوم زندہ لوگوں کو تو جلا سکتی ہے لیکن امراء کے محلات نہیں جلا سکتی کیوں کہ اگر ایسا کر سکتی تو نہ کوئی مسجد بارود کا نشانہ بنتی۔

نہ کوئی امام بارگاہ لوگوں کا قبرستان بنتی۔ نہ ہی کسی مندر کی دیواریں گرتی اور نہ ہی کوئی چرچ مٹی کا ڈھیر بنا دیا جاتا۔ہم قوم نہیں بلکہ ایک ہجوم بن چکے ہیں۔ جس میں مختلف گروہ ہیں۔ مختلف فرقے ہیں۔ نہیں ہیں تو صرف پاکستانی نہیں ہیں۔ واویلا جاری ہے کہ عیسائی مار دیے گئے۔ کیا کوئی ایسا نہیں جو کہہ سکے کہ پاکستانی مارے گئے؟ یہ ہجوم اپنے ہی ٹیکسوں سے بنائی گئی املاک کو تو توڑ سکتا ہے لیکن امراء کے محلات کی طرف رخ نہیں کر سکتا۔

کیوں کہ ایسا کرنے کے لیے اپنے مفادات پس پشت ڈالنا ہوتے ہیں جو یہ ہجوم نہیں کر سکتا۔ جب تک قوم نہ بن جائے۔ ہم بے حسی کی چادر اوڑھے ، انفرادیت میں ڈھلے لوگ ہیں۔ ہم اجتماعیت کو یکسر بھلا بیٹھے ہیں۔
دشمن نے صرف لاشے نہیں گرائے بلکہ اس قوم کو توڑ دیا ہے۔ جو اصل مقصد تھا دشمن کا۔سنی الگ صف میں ہے تو شعیہ الگ رخ موڑے ہوئے ہے۔ دیوبندی ، بریلوی، اہلحدیث وغیرہ گروہ بندی کا شکار ہیں تو ہندو ، سکھ ، عیسائی اپنا رونا رو رہے ہیں۔

ہر کوئی اپنے گروہ کو رو رہا ہے۔ پاکستانیت کو کوئی نہیں رو رہا۔ کاش ہم دیکھتے کہ زمین پہ زندگی کو جلا کر موبائل سے تصویریں بنانے کے بجائے لاکھوں لوگ احتجاج میں اکھٹے ہوتے ۔اور توڑ پھوڑ کے بجائے دشمن کو یہ پیغام دیا جاتا کہ چرچ پہ حملہ نہیں ہوا بلکہ پاکستان پر حملہ ہوا ہے۔ اور تمام پاکستانی یکجہتی سے دنیا کو پیغام دیتے کہ عیسائی یا مسلمان نہیں مرا۔ بلکہ پاکستانی اپنے پاکستان پہ قربان ہو گئے ہیں۔ اور بے گناہوں کو زندہ جلانے کے بجائے امراء و رؤسا کا گریباں پکڑا جاتا جو ہمارے پیسوں پہ محلات میں بسیرا کیے ہوئے ہیں۔ لیکن ہم ایسا کیوں کریں گے۔ ایسا تو قومیں کیا کرتی ہیں۔ ہم تو قوم ہیں ہی نہیں ۔ ہم تو گروہ ہیں، جتھے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :