جنونِ لاحاصل۔۔۔!

منگل 19 اگست 2014

Syed Shahid Abbas

سید شاہد عباس

جب آپ کو خدا نے لکھنے کی طاقت عطا کی ہو تولفظوں کی حرمت کا پاس رکھنا ہر حال میں آپ کا اولین فرض بن جاتا ہے۔ہمارے ایک استاد کہا کرتے تھے کہ لفظ تاریخ کا حصہ بن جاتے ہیں ۔آج کا نوجوان ایک ان دیکھے سے ہیجان کا شکار ہے۔جب یہی ہیجان لفظوں میں یا آواز کی صورت میں دل و دماغ سے باہر نکلتا ہے تو ایک مخصوص پہچان و شناخت حاصل کر لیتا ہے۔


پاکستان کا نوجوان ایک ہیجان کا شکار تھا ۔ اسے کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھا کہ اس ہیجان کو کیسے بروئے کار لایا جا سکتا ہے۔ پھر عمران خان نے تبدیلی کا نعرہ لگایا تو یہ ہیجان کا شکار نوجوان طبقہ کپتان کے ساتھ ایک نقطے پر جمع ہو گیا۔ اور عمران خان صاحب بھی اپنے ہر جلسے میں اس نوجوان نسل کو اپنا ٹائیگر کہہ کے پکارتے ہیں۔ میری طرح دیگر بہت سے لوگوں کا ہمیشہ سے یہ نقطہ نظر رہا ہے کہ عمران خان بنیادی طور پر سیاستدان نہیں ہیں۔

(جاری ہے)

کیوں کہ پاکستانی سیاست میں کامیاب رہنے کے لیے آپ کو بعض اوقات منافقت کا سہارا بھی لینا پڑتا ہے۔ ہمارے ہاں سیاست میں گولی کی طرح کے سیدھے الفاظ رکھنے والا شخص کامیاب نہیں ہو سکتا۔
18 سال سے عمران خان پاکستان کی سیاست میں داؤ پیچ آزما رہے ہیں لیکن حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ وہ آج تک سیاست کی پہلی کلاس ہی پاس نہیں کر پائے۔ اب اس کی وجہ ان کا بے وقوفانہ حد تک صاف گو ء ہونا ہے یا کچھ اور، اس کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔

اکثریت کا خیال ہے کہ وہ فیصلے تن تنہا کرنے کے عادی ہیں لیکن اگر وہ کسی تھنک ٹینک سے مشاورت بھی کرتے ہیں تو یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ ان کا تھنک ٹینک ماہر افراد پر مشتمل نہیں ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے پاس اسد عمر جیسا اعدادوشمار کا گرو، جہانگیر ترین جیسا صنعتکار، شیریں مزاری جیسی بیوروکریسی و دفاعی معاملات کو سمجھنے والی تو موجود ہے لیکن یہ اور ان جیسے تمام ماہر افراد فی الحال بہت سے حوالوں سے ناکام نظر آتے ہیں۔

عمران خان صاحب اس وقت تک خوش قسمت تصور کیے جا سکتے ہیں کہ ان کو ووٹ دینے والے، ان کے سپورٹرز بے لوث ہو کر ان کے ساتھ چل رہے ہیں اور سب سے بڑی بات کہ انہیں کوئی گھر سے بلا کر نہیں لاتا بلکہ یہ خود آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خان صاحب کی غلطیوں کے باوجود یہ ان کا ساتھ نہیں چھوڑ رہے۔ لیکن ایسا آخر کب تک چلے گا؟
یہ بات حقیقت سے خالی نہیں کہ پاکستان تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے مراد سعید، علی زیدی، عائشہ گل لالئی جیسے نوجوان ملکی سطح پر سامنے آئے تو ساتھ ہی مسرت گل زیب جیسی باہمت خاتون بھی ہمیں ملکی سیاست میں نظر آتی ہیں۔

اسی طرح کی اور بہت سی مثالیں بکھریں پڑی ہیں جنہیں ملکی سطح پر سیاست میں لانے کا سہرا یقینا اس جماعت کے سر ہے۔ لیکن اگر یہی جماعت اسی نوجوان طبقے کو مایوس کرنے کا سبب بن گئی تو یہ نسل جو آج ایک مثبت طور پر آگے بڑھ رہی ہے مایوسی کے اندھیروں میں گر کر کسی خطرناک راہ پر بھی چل سکتی ہے۔ خان صاحب کے مشیر انہیں مشورہ دیتے وقت شاید یہ بات ذہن سے نکال دیتے ہیں کہ اس جماعت کا 60% سے زائد ووٹر نوجوان طبقہ ہے۔


لاہور میں خان صاحب نے جلسہ کیا تو ان کے ناقدین نے بھی اس بات کا برملا اعتراف کیا کہ بھٹو صاحب کے بعد اتنا بڑا جلسہ یقینا تحریک انصاف نے ہی کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ مایوس نوجوان خان صاحب کو آئیڈئیلائز کرتے ہیں۔ اور انہیں اپنا نجات دہندہ سمجھتے ہیں۔ عام انتخابات میں تحریک انصاف قومی سطح پر تیسری بڑی جماعت بن کر ابھری۔ خیبر پختونخواہ میں سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری۔

اس کے باوجود ملک کا پڑھا لکھا طبقہ اس بات سے متفق ہے کہ تحریک انصاف کے ساتھ دھاندلی کی گئی۔ اور اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ایسے لوگ بھی ووٹ دینے کے لیے نکلے جنہوں نے کبھی ووٹ کاسٹ ہی نہیں کیا تھا۔ میں نے اس وقت بھی لکھا تھا کہ یہی وہ تبدیلی ہے جس کی پاکستان کو ضرورت تھی۔ پاکستان تحریک انصاف کی بدقسمتی تھی کہ ان کے پولنگ ایجنٹ نا تجربہ کار تھے۔

بہت سی جگہوں پر یہ لوگ رزلٹ لیے بغیر فتح کا جشن منانے میں مصروف ہو گئے۔ اب اس میں غلطی کسی اور کی نہیں تھی سراسر تحریک انصاف کی اپنی تھی ۔ ان کو چاہیے تھا کہ الیکشن سے پہلے تجربہ کار لوگوں کی ایک فہرست بناتے جن کو ان کے مقامی حلقوں میں تعینات کیا جاتا اور ان کو ذمہ دار ٹھہرایا جاتا لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ یہ خان صاحب کی بدقسمتی کہیں یا جیتنے والوں کی خوش قسمتی کہ نا تجربہ کار لوگوں کی وجہ سے ہی خان صاحب دھاندلی کے ثبوت اکھٹے نہ کر سکے۔

خان صاحب کے ساتھ موجود تجربہ کار لوگوں کے بارے میں ہر طبقہ اس بات پر متفق ہے کہ انہوں نے پاکستان تحریک انصاف کا الیکشن نہیں لڑا بلکہ صرف اپنے حلقوں میں اپنی ذات کا الیکشن لڑا۔ اور اس ملک کی بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں " ویڈیوثبوت" قابل قبول نہیں ہوتا۔ لہذا دھاندلی کا شور (جو کہ شاید حقیقت بھی ہے) مچایا جا سکتا ہے لیکن خان صاحب ثبوت فراہم نہیں کر پا رہے۔

اسی بات پر شاید وہ کچھ جذباتی بھی ہو رہے ہیں کہ ان کو ووٹ بھی پڑے پھر بھی وہ ہار گئے۔ لیکن اس جذباتی پن میں وہ اپنا ہی نقصان کرنے پہ تلے ہوئے ہیں۔
استعفوں کے مطالبے میں اگر وہ حق بجانب بھی تھے تو انہیں پہلے رائے عامہ کو اپنے حق میں ہموار کرنا تھا جو انہوں نے نہیں کیا۔ نا دیگر اپوزیشن پارٹیوں سے مشاورت کی ۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ انہوں نے اس نوجوان طبقے کی توقعات بغیر کسی پیشگی منصوبہ بندی کے بہت بڑھا دیں جو ان کے ہر حکم پر آج سے پہلے لبیک کہتا رہا ہے۔

اب اگر اس پرجوش طبقے کی توقعات پوری نہیں ہوتیں تو اس کا مکمل نقصان خود خان صاحب کو ہو گا۔ اس کا مظاہرہ شاید خان صاحب 17 اگست کی شام اپنے خطاب کے موقع پر دیکھ چکے ہیں۔خان صاحب سے گذارش بس یہ ہے کہ وہ جب کسی ہاشمی، قریشی اور سیاست کے کسی اور مہا گرو سے مشاورت کرتے ہیں تو اس مشاورت میں " اپنے جنون" کے کچھ نمائندوں کو بھی شامل کر لیا کریں۔

کیوں کہ سیاست کے تمام " مہان" لوگوں نے الیکشن صرف اپنے حلقوں میں محدود ہو کر لڑا ۔ یہ " جنون" ہی تھا جس نے پورے پاکستان میں تحریک انصاف کا الیکشن لڑا۔ اور حالات بتا رہے ہیں کہ اس " جنون" کو تنہا چھوڑا جا رہا ہے۔ نوجوان طبقہ اس وقت بغیر کسی قیادت کے نظر آتا ہے۔ عمران خان 24گھنٹے ان کی راہنمائی کے لیے موجود نہیں ہوتا لیکن اس کے علاوہ بھی کوئی راہنما ء ان کو راہ دکھانے کے لیے موجود نہیں ہوتا۔

ایسی صورت 17اگست کی شام ،اس وقت سامنے آئی جب "جوشیلے جوان" بغیر کسی راہنماء کی موجودگی کے ریڈ زون کی طرف بڑھنے لگے۔
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس وقت خان صاحب نوجوانوں کی توقعات کے برعکس فیصلے کر کے اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی مار رہے ہیں۔ اگر یہی صورت حال برقرار رہی تو جو "جنون" اس وقت حکومت وقت کی اینٹ سے اینٹ بجانے کے درپے ہے اس کا رخ خود تحریک انصاف کی طرف بھی ہو سکتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :