انقلاب۔۔۔ مگر بلٹ پروف؟

جمعرات 26 جون 2014

Syed Shahid Abbas

سید شاہد عباس

وطن عزیز میں " انقلاب" نام کا راگ بہت عرصے سے بہترین اور کارگر سیاست کا لازمی گر سمجھا جاتا ہے۔ دو دفعہ اقتدار کا مزہ چکھنے والے میاں صاحب" معاشی انقلاب" لانے کے دعوے کرتے نظر آتے ہیں تو پہلی دفعہ ایوان اقتدار کی راہداریوں میں پہنچنے والے خان صاحب" انصاف " کے انقلاب کی گردان ہر سو دہراتے نظر آتے ہیں۔ بالکل اسی طرح کوئی جماعت "غریب کے حقوق کا انقلاب" کا نعرہ لگا کر عوام سے ووٹ بٹور رہی ہے تو کوئی " انقلاب بذریعہ شریعت" کی صدا بلند کر کے چند سیٹیں حاصل کر لیتا ہے۔


حقیقی معنوں میں پاکستان اس وقت انقلاب کی اصل روح سے کوسوں دور ہے۔ وطن عزیز میں انقلاب صرف ایک سیاسی نعرہ بن کر رہ گیا ہے۔ اس نعرے کو صرف اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

(جاری ہے)

اقتدار کے ایوانوں میں رسائی کے بعد اس نعرے کو تاک پر رکھ کر بھول جانا پاکستان میں سیاست کا سب اہم اصول ہے۔ اقتدار حاصل کرنے کے بعد انقلاب صرف اس حد تک رہ جاتا ہے کہ ہر خامی کا سہرہ پچھلی حکومت کے سر باندھ دیا جائے اور ہر خوبی کا کریڈٹ خود لیا جائے۔


طاہر القادری صاحب ایک صاحب علم شخص ہیں اس میں دو رائے نہیں ہیں۔ لیکن کیا وہ ایک سیاستدان ہیں؟ وہ بھی ایک انقلابی سیاستدان؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب شاید ابھی قادری صاحب خود بھی دینے سے قاصر ہیں۔ پاکستان کا ہر ذی شعور شخص قادری صاحب کی ایک صاحب علم کی حیثیت سے عزت تو کرتا ہے لیکن سیاسی طور پر قادری صاحب کا جو قد کاٹھ قائم بھی ہوا تھا وہ بھی شاید یہ کھو بیٹھے ہیں۔


D ۔چوک میں جب ہزاروں کی تعداد میں مردو زن ، ہمراہ شیر خوار بچوں کے ، ٹھٹھرتی سردی میں، برستی بارش میں جب ٹس سے مس نہ ہوئے تو لوگوں کو قادری صاحب کی قسمت پر رشک کرنے لگے کہ انہیں ایسے پیروکار نصیب ہوئے۔ اور تنقید برائے تنقید کوایک طرف رکھ کہ دیکھا جائے تو اس بات میں کوئی شک بھی نہیں کہ آج کل جب بناء کسی مفاد کے ایک گھر میں لوگ ایک دوسرے کو سپورٹ نہیں کرتے تو ملکی سطح پر اتنا بڑا اور اتنا منظم اجتماع یقینا ایک عام آدمی کی عقل کے مطابق حیران کن تھا۔


پھر جب قادری صاحب نے حکومت وقت سے مفاہمت کے بعد احتجاج ختم کیا تو ان کے خلاف ایک ایسا حلقہء بھی سامنے آ چکا تھا جو ان کے اس عمل میں ان کا حامی نہیں تھا (ان میں وہ لوگ شامل تھے جو پہلے قادری صاحب کی نہ صرف سپورٹ کرتے تھے بلکہ ان کا دفاع بھی کرتے تھے)۔ قادری صاحب کے حامیوں کے بقول قادری صاحب نے اپنے مطالبات منوانے کے بعد احتجاج ختم کیا تھا۔

لیکن غیر جانبدار تجزیہ کار یہ کہتے دیکھے اور سنے گئے کہ دراصل حکومت وقت قادری صاحب کو " گولی " دینے میں کامیاب ہو گئی ہے۔ اور پھر کاغذات نامزدگی جمع ہونے کے دوران اور بعد میں الیکشن مہم کے دوران واقعی ایسا تاثر ملا کہ حکمرانوں نے قادری صاحب سے اتفاق صرف ان سے پیچھا چھڑانے کے لیے کیا تھا۔ ورنہ آئین کی جن دفعات کا قادری صاحب نے ذکر کیا تھا وہ عملاً کہیں بھی نافذا العمل نظر نہیں آئیں۔

بلکہ یہ تاثر ملا کہ جیسا ان دفعات کا مذاق اڑایا جا رہا ہو۔
کیا صرف حکمرانوں کا قادری صاحب سے متفق ہو جانا ہی انقلاب تھا؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو اس وقت ایک منہ کھولے قادری صاحب کے سامنے بھی کھڑا ہے۔ کیوں کہ کل تک جو لوگ بلا چوں چراں ان کی بات پر "امین " کہتے تھے۔ آج سوالات کرتے نظر آتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جب الیکشن میں وہی پرانے چہرے "نیا لباس" پہن کر پارلیمنٹ میں پہنچے تو قادری صاحب کو احتجاج کرنا چاہیے تھا۔

لیکن قادری صاحب کینیڈا "سدھار " گئے۔ اور یہی ایک ایسا نقطہ ء ہے جس پر پاکستان کے اہل علم لوگ قادری صاحب سے ناراض نظر آتے ہیں۔ اگر انقلاب پاکستان میں لانا مقصود تھا تو پھر کیا پاکستان میں ہی رہنا مناسب نہیں تھا؟اور جب کرپٹ نمائندے ہی دوبارہ منتخب ہوگئے تو قادری صاحب کیوں چپ چاپ کینیڈا سدھار گئے؟ اس سوال کا جواب بھی اب تک قادری صاحب نہیں دے سکے۔


بچپن سے سنا کہ انقلاب خون کی قربانی کے بغیر نہیں آ سکتا ۔ اس معاملے میں بھی قادری صاحب کے "حواری" پیچھے نہیں رہے۔ اور(پنجاب حکومت کی نااہلی کی وجہ سے )14جانوں کا نذرانہ پیش کر دیا۔ ایک کم عمر بچے سے لے کر ، عمر رسیدہ بوڑھے تک نے اس سانحے کو ظلم سے تعبیر کیا۔ دھیمی دھیمی آوازیں ابھرنے لگیں کے یہ قربانی ایک انقلاب کانقطہء آغاز ہے۔

اور جس طرح لوگ قادری صاحب کے استقبال کے لیے اسلام ائیر پورٹ آئے اس سے حکومت وقت مزید بوکھلاہٹ کا شکار ہو گئی ۔ 14 قربانیوں کا بوجھ اٹھائے جب قادری صاحب پاکستان کی طرف عازم سفر ہوئے تو ہر ذی شعور یہ توقع لگائے بیٹھا تھا کہ قادری صاحب کا آنا رائیگاں نہیں جائے گا۔
لیکن حکومت نے بوکھلاہٹ میں جب قادری صاحب کے طیارے کا رخ اسلام آباد کی طرف موڑ دیا تو قادری صاحب نے اس بوکھلاہٹ کا فائدہ اٹھانے کے بجائے کچھ ایسے طرز عمل کا مظاہرہ کیا کہ ایک بہت بڑا طبقہ قادری صاحب سے مایوس ہو گیا۔

اور اپنے " ہوم گراؤنڈ" کا بھی قادری صاحب فائدہ نہ اٹھا سکے۔ آج کل کے ڈیجیٹل دور میں لوگوں پوری دنیا میں اب تک لائے گئے انقلاب اپنی انگلیوں کی پوروں سے دیکھ سکتے ہیں۔ اس صورتحال میں لاہور ائیرپورٹ پر قادری صاحب کی "حرکات" مرحوم " سلطان راہی کی بڑھکیں " ہی رہ گئیں۔قادری صاحب جو ایک وقت میں کور کمانڈر سے کم عہدے کے کسی شخص سے بات کرنے کو تیار نہ تھے ، بر طانیہ پلٹ سرور صاحب کی معیت میں جہاز سے نمودار ہو گئے۔

بلٹ پروف گاڑی کا مطالبہ، ذاتی گارڈز کی رسائی، میڈیا کوریج یہ ایسے مطالبات تھے جس نے ایک بڑی تعداد کو ان سے متنفر کر دیا۔ ان مطالبات کو کرتے ہوئے شاید قادری صاحب یہ بھول گئے کہ امام خمینی، ماؤزے تنک یا کسی اور انقلابی راہنما نے بلٹ پروف گاڑی میں بیٹھ کر انقلاب کی قیادت نہیں کی۔ پاکستان کے حوالے سے دیکھیں تو قائد اعظم، قائد ملت، قائد عوام سب کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں جو حقیقی معنوں میں پاکستان کو انقلاب کی اصل شکل دکھا رہے تھ۔

ایک ائیرپورٹ پر ایمبولینس میں سانسیں کھو بیٹھے۔ ایک سینے پر گولی کھا کر شہید ہوئے۔ اور ایک سولی چڑھ گئے۔ کیا ان میں سے کسی نے بھی انقلاب کے لیے بلٹ پروف گاڑی؟ ذاتی گارڈ؟ یا میڈیا کوریج کا سہارا لیا؟ لہذا قادری صاحب سے بھی صرف اتنی سی گذارش ہے کہ اگر آپ اس ملک میں حقیقی انقلاب لانا چاہتے ہیں تو سب کچھ چھوڑ کراس دھرتی سے عہد کریں۔

آپ کے پیرو کار آپ پر جان نچھاور کرتے ہیں۔ آپ کے کندھوں پر اپنے کارکنوں کے خون کا بوجھ ہے۔ خود کو ایک خول سے باہر نکالیں اور ایک عام آدمی کی طرح سوچیں توپھر شاید آپ کے آج کے مخالفین بھی کل آپ کے ساتھ ہوں۔
لیکن اگر آپ نے اپنا طرز عمل نہ بدلا تو وہ وقت بھی آئے گا کہ آپ کے انقلاب کے نعرے کو آپ کے حامی بھی مسترد کر دیں گے اس ملک کو حقیقی انقلاب کی ضرورت ہے نہ کہ " بلٹ پروف انقلاب" کی۔ کیوں کہ انقلاب جانوں کا نذرانہ تو مانگتا ہے لیکن اس میں آپ کو ہر اول دستے کی قیادت کرنی پڑتی ہے نہ کہ بلٹ پروف گاڑیوں سے صرف گرتی لاشوں کو دیکھا جاتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :