ہر شاخ پہ " گلو" بیٹھا ہے

اتوار 22 جون 2014

Syed Shahid Abbas

سید شاہد عباس

پاکستانی بطور قوم تو شاید اپنی وہ شناخت نہیں رکھتے جس کا خواب اقبال نے دیکھا اور تعبیر قائد نے دی لیکن پھر بھی ہم انفرادی کرداروں میں بٹی ہوئی ایک حیران کن قوم ضرور ہیں۔ کسی گلی میں "گامے" کا راج ہوتا ہے ۔ جہاں پتابھی حقیقی معنوں میں اس کی مرضی کے بغیر نہیں ہل سکتا۔ اونچا قہقہ لگانا وہ بھی اس کی منشاء کے بغیر؟ ناقابل معافی جرم بن جاتا ہے۔

کسی محلے میں کوئی" فیقا" ہوتا ہے جو پورے محلے کا چاچا کیدو بھی بن جاتا ہے اور خدائی خدمت گار بھی۔ وہ نوجوان نسل کی " شرارتیں" ان کے والدین تک پہنچانے کا فریضہ سر انجام بھی دیتا ہے۔ جس کی وجہ سے یہ نوجوانوں کا پسندیدہ کردار نہیں ہوتا۔ اسی طرح اس کردار کا نام کسی جگہ " ماجا"، "شیدا" یا " تیرو" بھی ہوتا ہے۔

(جاری ہے)

یعنی کردار ایک ہی ہے بس نام مختلف ہوتے ہیں۔

جب کہ وسعت اللہ خان نے اپنے ریڈیو کالم میں اس کو "بخشو" کا نام دیا ہے۔
اس کردار کو کوئی بھی نام دیں اس کا کام ایک ہی ہے کہ ہر حکم بلا چوں چراں ماننا ہے ۔ کسی بات سے انکار نہیں ۔ جو " صاحب " کا فرمان اس پر سرِ تسلیم خم ۔۔۔ بس! اب یہ کردار " گلو " کے نام سے سامنے آیا ہے۔ اور اس کو ایک ظالم و جابر شخص کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔

لیکن کورٹ میں پیشی کے دوران اس کی جو درگت بنی اس سے تو یہ کہیں سے بھی ظالم و جابر نظر نہیں آتا۔ پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ اس ملک میں جب کو ئی " اصل " ظالم و جابر ہتھکڑی میں بھی ہمارے عدالتی نظام کے سامنے آتا ہے تو اس کے ہاتھ وکٹری کا نشان بناتے ہوئے اوپر اٹھے ہوتے ہیں۔ اس کی چہرے پر ایک منافقانہ مسکراہٹ ہوتی ہے جیسے وہ عام آدمی سے کہہ رہا ہو کہ یہ ہتھکڑی تو میرے لیے کسی قسم کی کوئی رکاوٹ نہیں۔

اسی لیے عام آدمی اس ہتھکڑی میں بندھے ظالم و جابر سے ڈرا ڈرا اور سہما سہما رہتا ہے۔ اور جس شخص کی وجہ سے اس کے ہاتھوں میں ہتھکڑی ہوتی ہے وہ تو عدالت میں بھی اس کا سامنا کرنے سے ڈرتا ہے۔ لہذا میرا تو خیال ہے کہ "گلو بٹ" ایک " مظلوم ظالم " ہے۔
ہو سکتا ہے بہت سے لوگ مجھے اس پر بے نقظ کی سنائیں یا میری بات سے اختلاف بھی کریں لیکن حقیقت یہی ہے کہ ہمارے ارد گرد بہت سے "گلو" ہیں۔

بظاہر نظر آنے میں تو یہ اپنی موچھوں کو تاؤ دے رہے ہوتے ہیں لیکن اندر سے ان کی اوقات بھیگی بلی سے زیادہ نہیں ہوتی ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ اپنا " گلو نامہ" دکھانے میں با اختیار نہیں ہوتے۔ اب احاطہ عدالت میں تو گلو پر اس پنجابی محاورے کو عملاً نافذ کیا گیا کہ " لا ہ لو چھتر ، تے پا لو لمیاں" لیکن ان ہاتھوں کو ہم بے نقاب کرنے کی ہمت نہیں رکھتے جن کے پاس " گلو" جیسی کٹھ پتلیوں کی ڈور ہوتی ہے۔

جو اپنے ہر جائز و ناجائز کام کے لیے ان کٹھ پتلیوں کو استعمال کرتے ہیں۔ اور جب یہ کٹھ پتلیاں مطلب کی نہیں رہتیں پھر مختلف رائج الوقت" دیسی طریقوں" سے ان کی ڈور کاٹ دی جاتی ہے۔ اور ایک عام آدمی کو ان کی ڈور کٹنے کی نہ تو فکر ہوتی ہے نہ ہی پریشانی۔
ایک بات اپنی جگہ اہم ہے کہ " گلو" جیسی کٹھ پتلیوں کی تربیت یقینا "تجربہ کار" لوگوں کے ذمے ہوتی ہے۔

اس کے علاوہ ان کرداروں کو ایک حقیقت کا ادراک سختی سے کروایا جاتا ہے کہ ایک تم ہی نہیں تمہارا خاندان بھی ہے۔ اس لیے ان کٹھ پتلیوں کو ان تجربہ کار ہاتھوں میں ویسے ہی ناچنا پڑتا ہے جیسا وہ چاہیں۔ جب فیصلے کہیں اور سے ہو رہے ہوں تو پھر " گلو" جیسی کٹھ پتلیاں خود کو " شیر" سمجھنا شروع کر دیتی ہیں۔ اور جب کوئی ایسی ہستی " شیر ببر " کہہ دے جو اعلیٰ مقام رکھتی ہو تو پھر ایسی کٹھ پتلیوں کی موچھوں میں کچھ زیادہ " اکڑ " آ جاتی ہے۔


آج کل پاکستان میں" گلو کٹھی پتلی" انفرادی سطح پر زیر بحث ہے۔ اور بچہ بچہ " گلو ، گلو" کی گردان کر رہا ہے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وطن عزیز میں اس وقت اور کچھ اہم نہیں۔ حیران کن حقیقت تو یہ ہے کہ اس " گلو نامے" نے 9 لوگوں کا خون بھی پس پشت ڈال دیا ہے۔ " گلوبے چارے" نے گاڑیاں توڑیں۔ لیکن اس کی آڑ میں وہ کھسکنے کی تیاری کر رہے ہیں جنہوں نے تڑ تڑ گولیاں برسائیں۔

گلو نے بے جان گاڑیوں کو تباہ کیا۔ وردی والے بابوؤں نے جیتے جاگتے انسانوں کو بے جاں کر دیا۔ قصور ان بابوؤں کا بھی نہیں۔یہ تو "حکم" کے غلام ہوتے ہیں۔ انہیں بھی انکار کی اجازت نہیں ہوتی۔ یا یوں کہہ لیں کہ یہ بھی ایک طرح سے " گلو" ہوتے ہیں۔ بس تھوڑی با اختیار " کٹھ پتلیاں"۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم "کسی ایک گلو" کو پکڑ لیتے ہیں اور اس کے پیچھے پڑ جاتے ہیں ۔

اور اسی کشمکش میں ہم " گلو" کو نچانے والے تجربہ کار ہاتھ کو بالکل نظر انداز کر دیتے ہیں۔بادی النظر میں تو ہم اجتماعی طور پر " گلو" جیسے ہی ہیں۔ کسی نہ کسی کے اشاروں پر ناچنے والے۔ ہر سیاسی پارٹی کا ورکر اپنے لیڈران کی ہر غلط یا درست بات کی تائید کرتا ہے۔ وہ بالکل ویسے " ری ایکٹ" کرتا ہے جیسے چاہا جاتا ہے۔ تمام سیاستی پارٹیاں ، بنا کسی تفریق، بنا کسی ذاتی عناد سب کی سب " کٹھ پتلیاں نچانے والے ہاتھ" ہیں۔

اور سیاسی پارٹیوں کے ارکان "کٹھ پتلیاں" جو یہ نہیں دیکھتیں کہ "بڑے صاحب" ٹھیک کر رہے ہیں یا غلط وہ صرف " گلو " بن جاتے ہیں۔ وسیع تناظر میں دیکھیں تو ہم سب بطور قوم بھی " گلو " ہیں۔ ہم اپنے فیصلے کرنے میں با اختیار نہیں۔ عالمی دنیا جیسے چاہتی ہے ہمیں استعمال کرتی ہے۔ اور " گلو" کی طرح ہم وہی کردار نبھانا شروع کر دیتے ہیں جو عالمی دنیا چاہتی ہے۔

کیوں کہ "گلو" کی طرح انکار تو ہماری سرشت میں نہیں۔ " گلو" کا ایک حیران کن وصف ہوتا ہے۔یہ وصف "انفرادی گلو" اور " اجتماعی گلو" دونوں میں ہوتا ہے کہ یہ نادیدہ ہاتھوں کا نام نہیں لیتے بلکہ یہ ہر جرم اپنے ذمے لیتے ہیں۔ جیسے " گلو بٹ" نے کہہ دیا کہ اس نے یہ سب غصے میں کیا۔ لہذا آنے والے چند دنوں میں "گلو بٹ" یا تو باعزت بری ہو جائے گا۔

یا "پار " ہو جائے گا۔
ہم اجتماعی سطح پر کوتاہیوں کا شکار ہوتے ہیں۔ ہم "گلو" کو مار پیٹ کر سمجھتے ہیں کہ ہم نے فرض ادا کر دیا۔ لیکن اصل " مجرم " اس نادیدہ ہاتھ کو بالکل بھول جاتے ہیں جو " گلو " کو وقوعہ پر لاتا ہے۔ اس " صاحب " کو یکسر نظر انداز کر دیتے ہیں جو " گلو" جیسے کردار تخلیق کرتے ہیں۔یہ " گلو" جتنی شہرت پا چکا ہے لہذا اس کا مستقبل قریب میں " ایکشن" میں دوبارہ دکھائی دینا ممکن نظر نہیں آتا۔

لیکن " نادیدہ" ہاتھ یقینا کسی نئے " گلو " کی تلاش شروع کر دیں گے۔ اگر تلاش ممکن نہ ہو سکی تو وہ کسی " الو" کو " گلو" بنانے کو ہی ترجیح دیں گے۔ کیوں کہ جیسے ہر شاخ پر الو بیٹھا ہوتا ہے۔ ایسے ہی آج کل ہر گلی محلے میں ایک"گلو" بھی بیٹھا ہوا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :