مسلم لیگ ن اور سندھ

منگل 3 نومبر 2015

Shahid Sidhu

شاہد سدھو

سندھ کے آٹھ اضلاع میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں مسلم لیگ ن کو حاصل ہونے والی شکستِ فاش ان انتخابی شکستوں کا تسلسل ہے جو اسے گذشتہ کئی برسوں سے سندھ میں ہونے والے مختلف سطحوں کے انتخابات میں حاصل ہو رہی ہیں۔ بحیثیت ایک قومی جماعت مسلم لیگ ن کی سندھ میں انتخابی کارکردگی انتہائی ناقص ہے۔ ۲۰۰۸ کے بعد سے پنجاب میں اپنی کارکردگی کی بنیاد پر مسلم لیگ ن خیبر پختونخواہ ،بلوچستان ، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں اپنی انتخابی موجودگی ثابت کرنے میں کامیاب رہی ہے، مگر سندھ اس کے لئے اب تک لوہے کا چنا ثابت ہوا ہے۔

۲۰۱۳ کے عام انتخابات میں اسے کراچی سے قومی اسمبلی کی صرف ایک اور سندھ صوبائی اسمبلی کی چند نشستیں حاصل ہوئیں۔ ۲۰۰۸ کے بعد سے مسلم لیگ ن نے پارٹی کو سندھ میں نچلی سطح تک منظم کرنے اور پارٹی میں دھڑے بندیاں ختم کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔

(جاری ہے)

اس کے بجائے اسکی پالیسی سندھ کے پیپلز پارٹی مخالف وڈیروں کو اپنی پارٹی میں شامل کرنے کی رہی ہے۔

صاف ظاہر ہے کہ یہ پالیسی بری طرح ناکام ثابت ہوئی ہے۔ ۲۰۱۳ کے الیکشن سے پہلے ممتاز بھٹو کی سندھ نیشنل فرنٹ کا مسلم لیگ ن میں باقاعدہ اور مرتضیٰ جتوئی کی نیشنل پیپلز پارٹی کا رسمی ادغام بھی مسلم لیگ ن کو کوئی فائدہ نہ پہنچا سکا۔ دوسری طرف غوث علی شاہ اور لیاقت جتوئی جیسے بے شمار رہنما مسلم لیگ ن سے ”ناراض“ بھی ہیں۔ اپنے آبائی علاقوں تک سے بار بار شکست کھانے والے یہ ” ناراض“ رہنما جنکی رہنمائی پارٹی کو دو ٹکے کا فائدہ بھی نہیں پہنچا سکی ، وفاقی حکومت سے وزارتوں ، مشاورتوں کی امیدیں لگائے بیٹھے تھے ۔

اٹھارہویں ترمیم کے بعد وفاقی حکومت کے ہاتھ کافی حد تک بندھ چکے ہیں، اور اس کے لئے کسی بھی صوبے میں ماضی کی طرح کی مداخلت اور اپنے چہیتوں کو نوازنے کا راستہ بھی نہیں ہے۔ اس کے باوجود ممنون حسین کو صدر مملکت منتخب کرواکر اور مشاہداللہ خان، سلیم ضیاء، نہال ہاشمی اور راحیلہ مگسی کو سینیٹر منتخب کروا کر ماضی میں ثابت قدم رہنے والے رہنماوٴں کو نوازا گیا۔

مگر یہ لوگ بھی سندھ میں پارٹی کے سکڑتے ہوئے ووٹ بنک میں اضافہ نہیں کر سکے۔ کراچی میں بھی دھڑے بندیوں اور واضح پالیسی نہ ہونے کی وجہ سے مسلم لیگ ن بحیثیت ایک جماعت کے منظم نہ ہوسکی۔دوسری طرف مختلف مسلم لیگوں کے اتحاد اور انضمام کے ٹوپی ڈرامے بھی کئی دہائیوں سے جاری ہیں۔ مسلم لیگ کے نام پر اگر سندھ میں کچھ نظر آتا ہے تو وہ پیر صاحب پگارا کی فنکشنل مسلم لیگ ہے۔

فنکشنل لیگ کا وجود بھی پیری مریدی کی وجہ سے ہی ہے۔ سانگھڑ، میرپور خاص، تھرپارکر، مٹیاری اور خیرپور کے اضلاع میں فنکشنل لیگ کا وجود اور ووٹ بنک نظر آتا ہے۔کراچی سمیت سندھ بھر میں مسلم لیگ ن کی تنطیمِ نو ناگزیر ہے۔ بہترین راستہ یہ ہے کہ سندھ میں بحیثیت پارٹی مسلم لیگ ن کو ختم کر دیا جائے اور فنکشنل مسلم لیگ کو ہی مسلم لیگ ن کا صوبائی ونگ تسلیم کر لیا جائے۔

فنکشنل لیگ پہلے ہی وفاقی کابینہ کا حِصہ ہے۔ ن لیگ کے تمام صوبائی دھڑے پیر صاحب پگارا کی زیرِ نگرانی آنے سے فنکشنل مسلم لیگ کے ایک مضبوط جماعت کی حیثیت اختیار کرنے کے امکانات زیادہ ہیں۔ اس صورت میں موجودہ طرز کی انفرادی الیکشن مہم کے بجائے مسلم لیگ ایک جماعت کے طور پر الیکشن لڑے گی۔
دیگر تمام صوبوں میں متبادل سیاسی جماعتیں مضبوط ہیں اور عوام کے پاس آپشن موجود ہیں، مگر سندھ میں، کراچی میں ایم کیو ایم اور اندرون سندھ پیپلز پارٹی کا کوئی قابلِ ذکر متبادل موجود نہیں۔

تحریکِ انصاف کراچی میں ایک متبادل سیاسی قوت بن کر ابھر رہی تھی مگر جناب عمران خان کی وزارتِ عظمیٰ کے حصول کے لئے جلد بازیوں اور پارٹی میں ہر قسم کا کچرہ بھر لینے کے بعد اب اس بات کا امکان کافی حد تک معدوم ہوچکا ہے۔مسلم لیگ کے منظم ہونے کی صورت میں کم از کم عوام کے پاس ایک آپشن تو موجود ہوگا اور پی پی پی اور ایم کیو ایم مخالف ووٹ کے بھی یکجا ہونے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :