مودی کی ناکام ریلی…!

منگل 16 دسمبر 2014

Sareer Khalid

صریر خالد

اِن حالات میں کہ جب ایک طرف وادیٴ کشمیر میں علیٰحدگی پسند سیاستدانوں کی بائیکاٹ کال کو رد کرتے ہوئے لوگوں نے بھاری ووٹنگ کی اور دوسری جانب علیٰحدگی پسند جنگجووٴں نے شمالی کشمیر کے ایک فوجی کیمپ پر شب خون مار کر اِتنا بڑا حملہ کر دیا کہ امریکہ تک کو ماتم کرنا پڑا،وزیرِ اعظم نریندر مودی سرینگر میں اپنا پہلا ”عوامی جلسہ“کر کے گئے ہیں۔

گو وزیرِ اعظم مودی ،بظاہر،ووٹ مانگنے کی غرض سے سرینگر میں تھے لیکن کشمیر کی سیاسی ابجد سے معمولی واقفیت رکھنے والا کو ئی عام شخص بھی سمجھ سکتا ہے کہ یہ محض ایک انتخابی ریلی نہیں تھی بلکہ سرینگر میں آدھے گھنٹے تک کی اِس تقریر کے ذریعہ مودی کشمیر سے کنیا کماری تک کے ”فاتح“کے بطور خود کو پیش کرنا چاہتے تھے۔

(جاری ہے)

اِس حد تک نریندر مودی کو بہر حال کامیابی ملی ہے کہ وہ سرینگر میں کم از کم ا،تنی بھیڑ جمع کرواپائے ہیں کہ جسے کسی بھی صورت ”نہ ہونے کے برابر“نہیں کہا جا سکتا ہے تاہم ”بڑی محنتوں“سے اِتنا سب کچھManageکرنے کے باوجود بھی وہ کشمیر میں اپنی پہلی ریلی کو تاریخی اہمیت کا حامل نہیں ٹھہرا پائے ہیں۔


لوک سبھا انتخابات کے حیرت انگیز نتائج کے بعد نریندر مودی وزیرِ اعظم بنے تو کُرسی سنبھالنے کے پہلے ہی مہینے میں وہ کشمیر آگئے جسے ہندوستان کے پی ایم او کی روایات میں اپنی نوعیتکی پہلی تبدیلی مانا گیا اور پھر ابھی تک،جیسا کہ اُنہوں نے خود بھی کہا،وہ کئی بار ریاست کا دورہٴ کر چکے ہیں۔ابھی چند ماہ قبل وادیٴ کشمیر میں صدی کے بدترین سیلاب کی وجہ سے تباہی مچی تو وزیرِ اعظم نے ہوائی دورہ کرکے حالات کا جائزہ لیا ۔

زیرِ تبصرہ اُنکی سرینگر ریلی تاہم ہر زاویہ سے اہم بھی تھی اور مختلف بھی۔جموں و کشمیر اسمبلی کے جاری انتخابات کا شیڈول آنے پر بی جے پی کی جانب سے پہلے ہی کہا گیا تھا کہ وزیرِ اعظم ریاست کے مختلف علاقوں میں کئی انتخابی ریلیوں سے خطاب کر سکتے ہیں تاہم اِس حوالے سے اُنکی وادی آمد کا،ذرائع کے مطابق،کئی بار پروگرام بنا اور پھر ملتوی ہو گیا۔

چناچہ بی جے پی کے وزیرِ اعظم ایک ایسے علاقے میں ریلی کرنا چاہتے تھے کہ جہاں کی سرِ زمین عام حالات میں نہ صرف یہ کہ بی جے پی کے کنول کے لئے بنجر سمجھی جاتی رہی ہے بلکہ یہاں کے لوگوں کے بارے میں یہ سوچنا بھی مذاق سمجھا جاتا تھا کہ وہ کبھی بی جے پی کے بارے میں کوئی بحث بھی کریں سِوائے اِسکے کہ گجرات فسادات کے حوالے سے اہلیانِ وادی مودی جی اور اُنکی بی جے پی کا خوب تعارف رکھتے ہیں۔

ذرائع کا ماننا ہے کہ بی جے پی در اصل سرینگر میں کم از کم اِتنی بھیڑ جمع کرنا چاہتی تھی کہ جس کے سامنے وزیرِ اعظم بولیں تو جگ ہنسائی نہ ہو جائے۔جیسے تیسے کرکے وزیرِ اعظم کی سرینگر آمد 9/دسمبر کو طے ہوئی اور پہلے جموں کے وجے پورہ میں ایک بھاری عوامی جلسے سے خطاب کرنے کے بعد وہ سرینگر آ پہنچے جہاں وہ پہلے براہِ راست بادامی باغ فوجی چھاونی گئے اور چند روز قبل جنگجوئیانہ حملے میں ہلاک ہوئے فوجی افسروں اور جوانوں کو خراجِ عقیدت پیش کر آئے۔


یہ بات الگ کہ مودی کی آمد پر علیٰحدگی پسندوں کی کال کشمیر بند کرا چکی تھی اور انتہائی کڑے سکیورٹی حصار کی وجہ سے وادیٴ کشمیر میں با العموم اور شہرِ سرینگر میں با الخصوص خوف و دہشت کا ماحول قائم تھا تاہم مودی جی جب فوجی چھاونی کے بغل میں واقع ایس کے کرکٹ اسٹیڈیم پہنچے تو اُنہوں نے لوگوں کی ایک اچھی تعداد کو اپنا منتظر پایا۔اِ نتہائی طمطراق سے منعقد کی جانے والی ”پبلک ریلی“میں وزیرِ اعظم کو سُننے کے لئے لاکھوں کا مجمع جمع ہو نا چاہیئے تھا لیکن نریندر مودی کے لئے بہر حال بی جے پی کے لئے جتنے لوگوں کو جمع کرنا ممکن ہو پایا تھا وہ بھی،کشمیر میں اس کے لئے، کسی اعتبار سے کم نہیں تھا اگرچہ بی جے پی ایک لاکھ لوگوں کو جمع کرنے کی اپنی دعویداری پر دس فیصد بھی صحیح نہیں ٹھہر پائی ہے۔

بی جے پی کے لئے کشمیر کی سرِ زمین پر، چند ایک ہزار ہی سہی،اِتنے لوگوں کا انتظام کہاں سے اور کیونکر ممکن ہو پایا ہے ،جتنے منھ اُتنی باتیں…!اگر وزیرِ اعلیٰ عمر عبداللہ کی باتوں پر بھروسہ کیا جائے تو مودی کے سُننے والوں کی اکثریت غیر کشمیری تھی لیکن حقیقت یہ بھی ہے کہ مجمعہ جتنا بھی تھا اِس پر بہر حال کشمیریوں کا غلبہ تھا۔ کئی لوگ اُن مودی جی کو سُننے کے لئے اُمڈ آئے تھے کہ جن کے بارے میں ٹیلی ویژن چینل سال بھر سے اِس طرح مدح سرائی کرتی آرہی ہیں کہ مودی کے مخالفین کے ازہان و قلوب میں بھی،غیر اِرادتاََہی سہی،نامو کی تصویر یوں چھائی ہوئی ہے کہ وہ بعض اوقات یونہی اپنے آپ کے ساتھ”اب کی بار مودی سرکار“کے نعرے لگارہے ہوتیہیں اور اُنہیں معلوم بھی نہیں ہوتا ہے۔

پھر وہ” بہت ہی عام“ لوگ بھی مودی کے میدان میں سروں کی تعداد بڑھائے ہوئے تھے کہ جن کے آشیانے حالیہ سیلاب میں بہہ کر نا بود ہو گئے ہیں اور جنہیں ابھی تک سرکار کی جانب سے کچھکمبلوں،چند سیر چاولوں،پرلے درجے کی کمپنیوں کی تیار کردہ سر درد کی ٹِکیوں اور ڈھیر ساری طفل تسلیوں کے سِوا کچھ بھی نہیں ملا ہے۔ایسے میں پیسہ پھینک کے تماشا کیا جائے تو یقیناََ وہ بہت مزے دار نہ سہی لیکن دیکھنے کے لائق ضرور ہوگا اور ایسا ہی ہوا بھی ہے۔

خود بی جے پی کے سرینگر دفتر میں گہما گہمی کے دوران ایک ”لیڈر“نے کہا ”مودی جی کی ریلی کے لئے ہمیں دن رات ایک کرنا پڑے ہیں،ہم نے ہزاروں گاڑیاں کرایہ پر لی ہیں تاکہ لوگوں کو سرینگر پہنچنے میں دقعت نہ ہو“۔کشمیری عوام ویسے بھی صاحبانِ اقتدار کے ہم نوا رہنے کے لئے خاصے مشہور،بلکہ بدنام،ہیں لہٰذا ظاہر ہے کہ ایسے سماج میں حکمرانوں سے چاند تاروں کی اُمید کرنے والوں کا وزیرِ اعظم جیسے اہم آدمی کی طرف لپکنا نا قابلِ توقع نہیں ہو سکتا ہے ۔

پھر بی جے پی کو نریندر مودی کو اپنا بڑا بھائی کہنے والے مقتول علیٰحدگی پسند لیڈر عبد الغنی لون کے فرزند سجاد لون کے جیسے اتحادی دستیاب ہوں تو معاملہ آسان ہو جاتا ہے۔بتایا جاتا ہے کہ ،مودی کے بھروسے ،وزیرِ اعلیٰ بننے کے خواب دیکھ رہے سجاد لون نے شمالی کشمیر کے ہندوارہ علاقہ سے کم از کم 80/گاڑیوں میں لوگوں کو مودی جی کی جلسہ گاہ میں بھیجا ہوا تھا حالانکہ سجاد نے اِس بات کی تردید کی ہے۔


اگرچہ نریندر مودی کی زیرِ تبصرہ ریلی اپنے آپ میں بڑی بات ہے لیکن بی جے پی کا اِس بات پر اِترانا بھی بے محل ہے کہکشمیر کی صورتحال اور یہاں کے مین اسٹریم سیاسی خیمے کی ”سرگرمیوں اور اِن میں عوام کی شمولیت“کے حقائق سے خبردار لوگ جانتے ہیں کہ صاحبانِ اقتدار کے لئے چیزوں کوManageکرناکس طرح آسان ہوجاتا ہے۔خود ایس کے اسٹیڈیم کی تاریخ میں یہ واقعات درج ہیں، کہ 1983ئاور پھر1985ء میں یہاں ٹیم انڈیا کے لئے کھیلنا تب مشکل ہوا تھا کہ جب یہاں کے نوجوانوں نے پِچ کھودی اور بین الاقوامی سطح پر ہندوستان کے لئے انتہائی ہزیمت کے اسباب پیدا کر دئے تھے۔

اِسی میدان کو،لوگوں کی صفر شراکت کے باوجود 1996ئمیں کرائے گئے ”انتخابات“کے بعد،محض اسلئے سیاسی اکھاڑے میں بدلا گیا ہے کہ فوجی چھاونی کے بغل میں ہونے اوروزیرِ اعلیٰ و کابینہ ممبران اور سکیورٹی ایجنسیوں کے باسز کی رہائش گاہوں کے آنگن کی طرح ہونے کی وجہ سے یہ میدان ہر وقت انتہائی سکیورٹی حصار میں رہتا ہے اور یہاں عام لوگوں کی نقل و حرکت نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔

نیشنل کانفرنس کے صدر ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے اپنے فرزند اور موجودہ وزیرِ اعلیٰ عمر عبداللہ کی سن 2000ئمیں تاج پوشی کرائی تو اِس ”عوامی تقریب“کے لئے بھی عمر کے دادا شیخ عبداللہ کے نام پر بنے اِسی اسٹیڈیم کی محفوظ جنت کا استعمال کیا گیا جبکہ بی جے پی کے سب سے مقبول وزیرِ اعظم اٹل بہاری واجپائی نے ”اِنسانیت کے دائرے میں…“والی وہ تقریر بھی سن 2003ئمیں اِسی میدان میں کی تھی۔

پھر مودی کی تقریب اِن حالات میں منعقد ہو رہی تھی کہ جب اُنکی آمد کے خلاف علیٰحدگی پسندوں کی کال پر لوگ کشمیر بند منا رہے تھے جبکہ سرینگر کے بعض علاقوں میں کرفیو جیسی صورتحال تھی اور انٹرنیٹ کے جیسی سہولیات کو بند کر دیا گیا تھا۔ظاہر ہے کہ اگر اربابِ اقتدار کو مودی جی کے لئے کشمیری عوام کی باچھیں کھلی ہوئی نظر آتیں اُنہیں انٹرنیٹ کو بند کر دینے کی مجبوری آن پڑی ہوتی اور نہ ہی لوگوں کی نقل و حرکت کو مسدود کر دینے کے لئے کرفیو جیسی صورتحال کے قیام کی حاجت۔

لہٰذا یہ کہنا ،کہ وزیرِ اعظم نے کسی عوامی جگہ پر ریلی کی اور کشمیری عوام نے اُن کے یا بی جے پی کے لئے باہیں کھولی ہیں، حقیقت کی ترجمانی نہیں کرے گا۔لیکن ان حقائق کے باوجود یہ اب ایک تاریخ ہے کہ وزیرِ اعظم نریندر مودی نے سرینگر میں ایک انتخابی ریلی سے خطاب کیا ہے۔حالانکہ وہ 2015ء میں پھر آنے اور بار بار آتے رہنے کا وعدہ کر کے گئے ہیں البتہ اپنے آپ میں بہت اہم زیرِ تبصرہ ریلی کو وہ خاص اور سیاسی طور تاریخی بنانے میں کتنے کامیاب رہے ہیں یہ ایک بڑا سوال ہے؟۔


گو وزیرِ اعظم نے اپنی مختصر سی تقریر میں ”واجپائی کے ادھورے خواب“کو پورا کرنے کی تمنا ظاہر تو کی لیکن اُنکی اصل تقریر سے ہر گز ایسا نہیں لگ رہا تھا کہ یہ کشمیر جیسے حساس علاقے میں ڈیڑھ دہائی سے زیادہ عرصہ کے بعد وزیرِ اعظم ہند کی پہلی تقریر ہے۔وزیرِ اعظم کی اصل تقریر انتخابی ماحول میں حریفوں پر الزام تراشی کرنے اور اقتدار میں آنے کی صورت میں ووٹروں کے لئے آسمان سے چاند تارے توڑ کر لانے کے جیسی روایات کے مطابق تھی۔

ریلی سے خطاب کرتے وقت نریندر مودی سفید مائل رنگ کے روایتی کشمیری فرن،ایک اونی چوغہ جو کشمیری سردیوں سے بچنے کے لئے زیبِ تن کرتے ہیں،پہنے ہوئے تھے۔ تقریر شروع کرتے ہوئے اُنہوں نے دعویٰ کیا کہ کشمیریوں نے اُنکے تئیں بہت پیار کا اظہار کیا ہے اور وہ اِس پیار کا بھر پور جواب دینے کو اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں۔قریب تین دہائیوں سے چلتے آرہے کشمیر کے حالات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے وزیرِ اعظم نے کہا کہ اس دوران فوج اور پولس کے بہت سے جوان مارے گئے ہیں لیکن ساتھ ہی بے گناہوں کے بچے بھی مارے گئے ہیں اور یہ ایک ایسا نقصان ہے کہ جسکی کسی بھی طرح بھرپائی ممکن نہیں ہو سکتی ہے البتہ،اُنہوں نے کہا،بانٹنے سے دکھ درد کم ہو جاتا ہے۔

اُنکا کہنا تھا”میں آپ کے ساتھ آپ کا دُکھ درد بانٹنے آیا ہوں“۔وزیرِ اعظم کی پوری تقریر کا بیشتر حصہ ترقی سے متعلق باتوں کے اِرد گِرد گھومتا رہا اور اُنہوں نے کہا کہ کشمیر میں سیاحتی صنعت کو وسعت دیکر اِسے مقامی لوگوں کی ترقی کا ذرئعہ بنانے کے بہت مواقع دستیاب ہیں۔تاہم اُنہوں نے ساتھ ہی ریاست کی مختلف سرکاروں کو آڑھے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ اُنہوں نے ریاست کے سیاحتی نقشے کو وسعت دینے کے لئے کچھ بھی نہیں کیا ہے۔

اُنہوں نے کہا”کشمیر میں سیاحت کے بے شمار مواقع ہیں اور قدرتی نطاروں سے مالا مال اِس علاقے میں ایسی نئی جگہوں کو سیاحتی نقشے پر لایا جا سکتا ہے کہ جنہیں دویکھنے کے لئے اور لوگ خود کو روک نہ پائیں“۔اُنہوں نے کہا کہ ریاست میں بی جے پی کی سرکار بننے کی صورت میں سیاحتی شعبے سے متعلق نیا ڈھانچہ کھڑا کیا جائے گا اور دنیا بھر سے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو کشمیر آنے پر آمادہ کیا جائے گا تاکہ یہاں کے لوگوں کی بے روزگاری اور غربت دور کی جا سکے۔

کشمیر کی خوبصورتی کی تعریفیں کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا”کشمیر کے سِوا دنیا کو دکھانے کے لئے ہندوستان کے پاس کیا ہے میرے بھائیو؟“۔ایک کہاوت کا تذکرہ کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ ابھی تک ایسا مانا جاتا رہا ہے کہ پہاڑ کے پانی اور جوانی کا خود پہاڑ کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا ہے تاہم اُنہوں نے کہا کہ وہ کشمیر کے حوالے سے اِس کہاوت کے معنیٰ بدلنے نکلے ہیں۔

اُنہوں نے کہا کہ کشمیر کے پانی سے اِتنی بجلی پیدا کی جا سکتی ہے کہ جس سے سارے ہندوستان کو روشن کیا جاسکتا ہے اور وہ اِس سمت میں بہت کام کرنے کا اِرادہ رکھتے ہیں۔ہندوپاک تعلقات یا کشمیر کی علیٰحدگی پسند سیاست کا تذکرہ کئے بغیراُنہوں نے کہا کہ وہ جب گجرات کے وزیرِ اعلیٰ بنے تھے وہاں کے مُسلم اکثریتی کچھ ضلع کا زلزلہ تباہی مچا چکا تھا ۔

اُنہوں نے کہا”میں متاثرین سے ملنے گیا تو اُنہوں نے شکایت کی کہ ابھی تک یہاں آنے والے سبھی سیاست دان پاکستان کی باتیں کرتے رہے جبکہ ہماری کوئی بات ہی نہیں کرتا ہے،میں نے سبق لیا اور سرحدوں کی باتیں کئے بغیر فقط ترقی کی بات کی اور آج میں فخر سے کہہ سکتا ہوں کہ وہی کچھ ضلع پوری دنیا میں تیز ترقی کرنے والا ضلع بن گیا ہے“۔اُنہوں نے کہا کہ حال ہی ہوئی سارک کانفرنس،جس میں پاکستانی وزیرِ اعظم نواز شریف بھی شریک ہوئے تھے،میں بھی اُنہوں نے سبھی پڑوسیوں کو کہا ہے کہ اگر لڑنا ہی ہے تو ایک ہوکر غربت اور بے روزگاری کے خلاف کھڑا ہو جائیں۔

حالانکہ اوڑی میں گذشتہ دنوں ہوئے زبردست حملے کے بعد بعض ٹیلی ویژن چینل ہیجانی ماحول بنا چکے تھے اور یہ کہنے لگے تھے کہ مودی سرینگر میں دہاڑیں گے اور پاکستان کو کرارا جواب دینگے تاہم اُنہوں نے معنیٰ خیز احتیاط سے کام لیا۔اُنہوں نے ریاست میں ابھی تک کے دو مراحل میں ہوئی زبردست ووٹنگ کا بھی تذکرہ نہیں کیا حالانکہ سرینگر پہنچنے سے قبل جموں کے وجے پور میں ایسی ہی ایک ریلی سے خطاب کے دوران اُنہوں نے کہا کہ ”اے کے47/کے ٹریگر سے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا بٹن زیادہ طاقت ور ہوتا ہے“۔

ریاست کی اب تک کی سبھی سرکاروں کو آڑھے ہاتھوں لیتے ہوئے وزیرِ اعظم نے کہا کہ یہ سبھی سرکاریں لوگوں کے لئے کچھ بھی کرنے میں ناکام رہی ہیں۔اُنہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر کا سب سے بڑا مسئلہ رشوت ستانی ہے جسے ختم کئے بغیر ریاست کی ترقی ممکن نہیں ہو سکتی ہے۔سرینگر کے مضافات میں حال ہی فوج کے ہاتھوں دو معصوم نوجوانوں کو قتل کئے جانے اور پھر خاطی فوجیوں کو سزا دئے جانے کا تذکرہ کرتے ہوئے وزیرِ اعظم نے کہا”یہ مودی سرکار کا ہی کمال ہے کہ تیس سال میں پہلی بار فوج نے اپنی غلطی مانتے ہوئے خاطیوں کو سزا دی ہے“۔

اُنہوں نے کہا کہ وہ کشمیریوں کو انصاف دلانے آئے ہیں۔یاد رہے کہ وزیرِ اعظم نے جس واقعہ کا تذکرہ کرکے اس میں کئے گئے ”انصاف“کو اپنا کمال بتایا ہے وہ گذشتہ ماہ ہی سرینگر کے مضافات میں پیش آیا تھا۔یہ واقعتاََ اپنی نوعیت کا پہلاموقع ہے کہجبفوج نے ”اپنی غلطی“کا اعتراف کیا ہے۔عالمی سہارا کی فائل گواہ ہے کہ ہم نے تب ہی اندازہ لگایا تھا کہ یہ سب بی جے پی کی انتخابی سیاست سے وابستگی رکھتا ہے اور آج وزیرِ اعظم نے فوج کے اعترافِ جُرم کو ”اپنا کمال“بتاتے ہوئے اِن اندازوں کو دُرست ثابت کر دیا ہے۔

چناچہ وزیرِ اعظم کا یہ کہنا کہ ”ایسا تیس سال میں پہلی بار ہوا ہے“ایک طرح سے اُنکا اعتراف ہے کہ تیس سال کے دوران فوج نے نہ صرف کئی بے گناہوں کو موت کے گھاٹ اُتار دیا ہے بلکہ اِن معاملوں میں اعترافِ گناہ کر کے خاطیوں کو کیفرِ کردار تک نہ پہنچائے جانے کی انسانی حقوق کے علمبردار اِداروں کی شکایات غلط نہیں ہیں۔وزیرِ اعظم اِن سبھی واقعات کی تحقیقات کرکے خاطیوں کو سزا دلانے کا اعلان کرتے تو شائد اُنکے ”کمال“کو بی جے پی کے مشن44/کی سیاست سے الگ رکھ کے دیکھنے کی وجہ بنتی۔

لوگوں سے بی جے پی کے لئے ووٹ مانگتے ہوئے وزیرِ اعظم نے کہا”آپ لوگ تینوں(نیشنل کانفرنس،کانگریس اور پی ڈی پی)سے مُکتی لے لو،میں وعدہ کرتا ہوں کہ آپ کے سپنے میرے ہونگے“۔
حالانکہ سابق وزیرِ اعظم اٹل بہاری واجپائی،جنکی کشمیر پالیسی کو بعض حلقے کافی قابلِ تعریف قرار دیتے آئے ہیں،کے ”ادھورے خواب“کی تکمیل کا نعرہ دیتے ہوئے مودی نے خود واجپائی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا”اٹل جی آپ نے انسانیت،کشمیریت اور جمہوریت کی جو بات کی تھی ،اُس سے 21/ویں صدی کی آن بان اور شان بنے گا کشمیر“۔

تاہم اِس سمت میں اُنہوں نے کوئی وضاحت کی اور نہ ہی اُنکی تقریر سے ایسا موہوم سا اِشارہ بھی مل پایا کہ وہ واقعتاََ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے کوئی مصروفیت چاہتے ہیں۔ٹھیک ہے کہ وہ کشمیر میں گجرات کے کچھ ضلع کایہ تجربہ آزمانا چاہتے ہیں،جیسا کہ اُنہوں نے کہا،کہ ترقی پر دھیان دو اور باقی سب مغلوب ہو جائے گا لیکن وہ خود بھی سمجھتے ہونگے کہ کشمیر اور گجرات میں سینکڑوں میل کا فاصلہ ہے۔

کشمیر میں اِس سے پہلے بھی انتخابات ہوئے ہیں اور لوگوں نے ترقی کی تمنائیں ظاہر کی ہیں لیکن بعدِ الیکشن علیٰحدگی پسندوں کے غیر متعلق ہونے کے مفروضے ٹوٹتے رہے ہیں اور اُنکی متعلقیت و اہمیت پھر سے واضح ہوتی رہی ہے۔
لوک سبھا انتخابات میں مولوی عمر فاروق جیسے علیٰحدگی پسند لیڈر ایک طرح سے یہ کہتے ہوئے کھل کر مودی کی حمایت میں سامنے آئے تھے کہ واجپائی نے کشمیر کے حوالے سے پہل کی تھی لہذا وہ یو پی اے کے مقابلے میں این ڈی اے کو بہتر سمجھتے ہیں۔

تاہم نریندر مودی وقتاََ فوقتاََ واجپائی جی کے اُس ’ ’ کشمیر گیان“،جو ابھی تک بیشتر لوگوں کے لئے نا قابلِ فہم ہونے کے با وجود تعریفیں بٹور رہا ہے،کاجاپ کرنے کے با وجود بھی علیٰحدگی پسندوں کو ایک طرح سے نظر انداز کرنے کی پالیسی اپنائے ہوئے ہیں جو کہ واجپائی کے انداز کے بر عکس ہے۔
جاری انتخابات میں مختلف وجوہات کے لئے بھلے ہی کشمیری عوام نے علیٰحدگی پسندوں کی بائیکاٹ کال کو نظر انداز کر دیا ہو لیکن کشمیر میں علیٰحدگی پسندی کی سوچ کی متعلقیت پر سوال اُٹھانا بہر حال بچگانہ ہوگا۔

پھر جہاں علیٰحدگی پسند سیاست دانوں کی بائیکاٹ کال کی ناکامی نے اُنہیں کسی حد تک کمزور ثابت کیاہے وہیں علیٰحدگی پسند جنگجووٴں نے ایک بڑے فوجی کیمپ پر کشمیر یوں کی عسکریت کی تازہ تاریخ کا سب سے بڑا حملہ کر کے اپنی موجودگی اور مسئلہ کشمیر کے باقی ہونے کا زبردست انداز سے احساس کرایا ہے۔اِن حالات میں مودی جی نے کشمیر کی ترقی کے ساتھ ساتھ یہاں کی ترقی کے آڑے آتے رہے ’ ’ اصل مسئلے “کے حل کے لئے علیٰحدگی پسندوں کی جانب شاخِ زیتون آگے کی ہوتی تو وہ واجپائی ہو جاتے یا شائد اُن سے بھی بڑے مگر وہ ناکام رہے…!!!(بشکریہ عالمی سہارا،دلی)

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :