میدانِ کربلا اورسجدہ ِ امام

اتوار 2 نومبر 2014

Rauf Uppal

رؤ ف اُپل

تاریخ گواہ ہے کہ معرکہِ حق وباطل میں جو مقام اور عروج امام حسین کو حاصل ہے، یزید کو تاریخ اسلام اس کے برعکس اتنا ہی زوال اور پسماندگی حاصل ہے۔ ۔امام حسین جنت میں نوجوانوں کے سردارکو یزید کے لشکر نے سن 61 ہجری میں دریائے فرات کے کنارے کربلا کے مقام پر خاندان کے افراد اور رفقاء کے ساتھ گھیر لیا، آپ کے جانثاروں کی تعداد 72تھی جبکہ دوسری طرف ہزاروں کا لشکر۔

۔ یزیدی لشکر نے آپ  کو صرف دو چوائس دیں۔ ۔ یزید کی بیعت یا موت ۔ ۔آپ نواسہ رسولﷺ باطل کے آگے جھکنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ ۔ لہذا باطل کے سامنے ڈٹ جانے کا فیصلہ اٹل تھا ۔ ۔ابن سعد نے جب دیکھا کہ امام عالی مقام بیعت کے لیے تیا ر نہیں تو اس نے نواسہ رسولﷺ کو قتل کرنے کا فیصلہ کرلیا۔

(جاری ہے)

۔ 9محرم کا دن تھا اور دو دن پہلے ہی دریائے فرات کا پانی آپ اور آپ کے لشکر کے لیے بند کر دیا گیا ،جب امام عالی مقام تک یہ خبر پہنچی تو آپ نے یزیدی لشکر سے ایک رات کی مہلت مانگی ، ایک رات کی اجازت مل گئی تو آپ نے سب سے پہلے اپنے ساتھیوں کو پاس بٹھایا اور کہا یہ لوگ میرے خون کے پیاسے ہیں آپ لوگ میری وجہ سے مشکل میں ناں پڑیں مگر آپ کا کوئی جانثار بھی جانے کے لیے تیار نہ ہوا ،کہا ہم آپ کی خاطر کٹ مریں گے،آپ نے جب یہ جزبہ دیکھا توکہا کہ یہ رات اللہ کی عبادت میں گزار دو، آپ بھی اپنے خیمے میں عبادت اور صبرو استقلال کی دعائیں کرتے رہے ۔

۔فجر کی نماز اداکی یہ 10 محرم کا دن تھاسورج خون کی سرخی لیے نمودار ہوا ۔
اتنے میں ایک شہ سواریزیدی لشکر سے نکلا اور مضطرب ہوکرابن سعد کے پاس جاکر پوچھاکیا تم واقعی رسولﷺ کے خاندان کا خون بہائے گا، ابن سعد نے کہا اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں۔ ۔ چنانچہ اس نے گھوڑے کو دوڑایا اور نواسہ ِ رسولﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور بولا۔ ۔ میرا نام حر ہے ،میرے ایک طرف جنت ہے اور دوسری طرف دوزخ ۔

۔حضور میں آپ کا مجرم ہوں اور میں ہی آپ کے قافلے کو گھیر کر یہاں تک لے کر آیا ہوں،کیااس لمحے میری توبہ قبول ہوسکتی ہے،یہ کہتے ہی حر کی آنکھوں میں آنسو آگئے ۔ ۔ امام عالی مقام نے فرمایا حر تمہیں دنیا اور آخرت میں آزاد کردیا گیا ہے۔ ۔حر یہ خوش خبری سن کر روانہ ہوا اوریزیدی لشکر کے خلاف جوانمردی کے ساتھ لڑتے ہوئے شہید ہوا، حر میدان کربلا کا پہلا شہید تھا۔

۔ اصل میں حر جنتی تھامگر دوزخیوں کے درمیان کھڑا تھا ، اللہ تعالی نے اسے منزلِ مقصود تک پہنچا دیا ۔ ۔ لشکرِ حسینی کے3تین دن کے بھوکے اور پیاسے بہادر لشکرِ یزید سے ٹکرانے کے لیے تیار بیٹھے تھے۔ ۔ اس کے بعد آپ کے دیگر اصحاب اور غلام میدان کربلامیں مقابلے کے لئے نکلے،آپ  کا ایک ایک جانثار مقابلے کے لیے نکلتا اور بہادری کے جوہر دکھا دیتا۔

۔ جدھر جاتا لاشوں کے انبار لگادیتا۔ ۔ آپ کے ساتھی ایک ایک کرکے شہادت کا رتبہ پاتے گئے ۔ ۔ اس کے بعد آپ کے خاندان کی باری تھی آپ کے بڑے بیٹے اکبر جو کہ ہمشکل مصطفے ﷺتھے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اجازت طلب فرمائی آپ نے بیٹے کو پیار کیااور اجازت دی ۔ ۔ شبیہِ مصطفے ہونے کی وجہ سے یزیدی لشکر میں اضطراب پیداہوگیا،علی اکبر کو دیکھ کر یزیدی لشکر کو نبیﷺ کی یا د تازہ ہوگئی۔

۔ ابن سعد نے سوچا حالات خراب ہی نہ ہوجائیں کچھ جوانوں کو اکٹھا حملہ کرنے کا حکم دے دیا، مگر جیسے ہی وہ آگے بڑھتے اکبر لاشوں کے انبار لگا دیتے ، اکبر جہاں گھوڑا دوڑاتے کوفیوں میں بھگدڑ مچ جاتی آپ نے دیکھتے ہی دیکھتے درجنوں کوفی جہنم واصل کردئیے،اور تاریخ میں آتا ہے جب آپ گھوڑے سے گرے تو آپ نے یہ آواز دی۔ ۔ ۔ ۔ یا ابتاہ ادر کنی۔ ۔ ۔

۔ ابا جان آکر مجھے تھام لیجیے۔ ۔ ۔ ۔امام نے جوان بیٹے کی لاش کو اٹھایا اور خیمے کے پاس لا کر لٹا دیا۔ ۔ امام حسین ابھی اکبر کی لاش کے پاس ہی کھڑے سوچ رہے تھے کہ دیکھا سامنے حضرت حسن کے فرزند قاسم کھڑے تھے اور اجازت طلب کررہے تھے ،قاسم وہ نوجوان تھے جن کی نسبت حضرت سکینہ سے طے ہوچکی تھی۔ ۔امام حسین نے فرمایا میں تمہیں اس لیے ساتھ نہیں لایا تھا،مگر شہزادہ بضد تھا اور اجازت طلب کر رہا تھا امامنے ایک نظر سکینہ کی طرف دیکھا اور ا جازت فرمائی۔

۔ وہ چاند کا ٹکڑابہادری اور شجاعت کے پیکر نے یزیدی صفوں میں لرزہ طاری کر دیا، لاشوں کے انبار لگا دیئے، لڑتے لڑتے حضرت قاسم بھی شہید ہوگئے۔ ۔امام نے بھتیجے کی لاش کو اٹھایا،جوانمرد کی لٹکتی ہوئی لاش کو اکبر کی لاش کے ساتھ لٹا دیا۔ ۔امام عالی مقام بیٹے اور بھتیجے کی لاش کے پاس کھڑے سوج ہی رہے تھے کہہ خیموں کے اندر سے خواتین نے علی اصغر کو آپ کے پاش بھیج دیا۔

آپ نے بھوکے اور پیاسے ننھے اصغر کو اٹھایا اور پیار کرنے لگے، ننھا اصغر آپ کی گود میں ہی تھاکہ بنی اسد قبیلے کے ایک بدبخت نے تیر چلایا جو علی اصغر کے حلق میں پیوست ہوگیا، ننھا اصغر اپنے ہی خون میں نہا گیا، امام حسین  نے آسمان کی طرف دیکھا اور کہا ۔ ۔ اے اللہ اصغر کی قربانی کو بھی قبول فرما۔ ۔ زین العابدین کربلا میں زندہ بچ جانے واے واحد اہل بیعت میں سے تھے، جبکہ
عون و محمد شہید ہوچکے تھے ، عباس علمدار حضرت سکینہ کے لیے پانی لینے کے لیے دریائے فرات پر پہنچے زخمی حالت میں پانی کا مشکیزہ بھرا اور واپسی کے لیے روانہ ہوئے، راستے میں آپ کے دونوں بازو کٹ گئے اور آپ زخموں سے چور ہو کر گرپڑے ۔

۔ سکینہ پانی کا انتظار کرتی رہی اور عباس علمدار بھی شہید ہوگئے۔
اب شیرخدا حضرت علی کا شیر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا لخت جگر، نواسہ ِ رسول ﷺ ،نبیﷺ کے کاندھوں پہ سواری کرنے والا، رسول اللہﷺ کی نمازوں کے سجدوں کو طوالت دینے والا، حسین ابن علی صبرواستقامت کا پہاڑ تمام لاشوں کو اکٹھا کرنے والے حسین کی رخصت کا وقت آتا ہے ، زینب رضی اللہ عنہا گھوڑے کی رکاب تھامتی ہیں اور امام عالی مقام میدان کربلامیں یزیدی لشکرکے درمیان پہنچتے ہیں،آپ میدان کربلا میں کھڑے ہیں کسی کو ہمت نہیں کہ آکر آپ کا مقابلہ کرے، پورے لشکر پر خاموشی چھائی ہوئی ہے کوئی آپ کا مقابلہ کرنے کے لیے آگے نہیں بڑھ رہا، دور سے ہی تیر برسائے جا رہے ہیں، تیروں کی بارش سے آپ کا جسمِ اطہر چھلنی ہوجاتاہے، آپ زخموں سے چور ہیں،یزیدی لشکر آپ کو گھیرے میں لے لیتے ہیں، نیزے اور تلواروں کے زخموں سے چھلنی امام عالی مقام گھوڑے سے نیچے تشریف لے آتے ہیں،شمر اور یزید کے بدبخت سپاہی آپ کے قریب آتے ہیں، نماز کا وقت ہے، امام عالی مقام کربلا کی مٹی سے تیمم فرما کر اللہ کے حضور سجدہ ریز ہوگئے، شمر بدبخت آگے بڑھا اور سجدے کی حالت میں آپ کا سر تن سے جداکر دیتا ہے۔

۔۔ ۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔۔۔۔ کربلا کی تپتی ریت پرشمر کی تلوارکے سائے میں نماز ادا کی اور نیزے کی انی پہ سوار ہوگئے مگر باطل کے آگے سر تسلیمِ خم نہیں کیا۔ حضرت امام حسین  اپنا سارا گھرانہ اللہ کی راہ میں قربان کرچکے ہیں اپنی جان کا نذرانہ پیش کرکے توحید الٰہی کی گواہی دے چکے ، حسینیت زندہ ہوگئی ،حسین کامران رہے اور قیامت تک اسلام کی حفاظت کا ستون بن گئے ۔


محدثین بیان کرتے ہیں(بحوالہ ذبح عظیم)امام عالی مقام کی شہادت پر نہ صرف دنیا روئی، بلکہ زمین وآسمان نے بھی آنسو بہائے، نواسہ رسولﷺ کی شہادت کے وقت بیت المقدس میں جو پتھر اٹھایا گیااس کے نیچے سے خون نکلا۔ ۔ شام میں بھی جو پتھر ہٹایا گیااس کے نیچے سے بھی خون کا چشمہ اُبل پڑا۔محدثین کا کہنا ہے شہادت حسین سے پہلے آسمان سرخ ہوگیا۔

۔پھر سیاہ ہو گیا۔۔ستارے ایک دوسرے سے ٹکرانے لگے یوں لگتا تھا جیسے قیامت قائم ہوگئی ہو دنیا پر اندھیرا چھا گیا۔
امام طبرانی نے ابو قبیل سے سند حسن کے ساتھ روایت کیا ہے کہ۔۔
ترجمہ:جب سیدنا امام حسین کو شہید کیا گیاتو سورج کو شدید گہن لگ گیاحتی کہ دوپہر کے وقت تارے نمودارہوگئے یہاں تک کہ انہیں اطمینان ہونے لگا کہ رات ہے۔
امام طبرانی نے معجم الکبیرمیں جمیل بن زیدسے روایت کی ہے انہوں نے کہا۔ ۔
ترجمہ:جب حسین  کو شہید کیا گیا تو آسمان سرُخ ہوگیا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :