تذکرہ دو خوبصورت ادبی شاموں کا

جمعرات 27 مارچ 2014

Qasim Ali

قاسم علی

عہدحاضر میں صحت مندانہ تفریح اور ہماری حقیقی ثقافت وادب سے مزین سرگرمیاں بہت کم دیکھنے کو ملتی ہیں جس کی وجہ سے ہماری نوجوان نسل انٹرنیٹ سے ملنے والی انٹرٹینمنٹ اورہررات ٹیلی وژن پر ٹاک شوزکے نام پر سجنے والے ''اکھاڑوں ''کو ہی شائد اپنی ثقافت سمجھ بیٹھی ہے لیکن میری خوش قسمتی کہ مجھے ایسے وقت میں اوپر تلے دو ایسی تقاریب میں جانے کا موقع ملا جہاں علم و ادب کی بھرپور چاشنی بھی تھی توتھی ہی ساتھ اس بات کی خوشی بھی ہوئی کہ اس دور میں جب کہ مغربی تہذیب ایک منصوبے کے تحت ہمارے ذہنوں پر مسلط کی جارہی ہے ایسے میں ہماری نوجوان نسل کا ایسی صاف ستھری تقاریب کو سجانا یقیناََ بہت حوصلہ افزا امرہے اس سلسلے کی پہلی تقریب پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف لینگویج آرٹ اینڈ کلچرمیں افلاک ادبی سوسائٹی لاہورکے زیراہتمام منعقد کی گئی یہ تقریب نوجوان افسانہ نگار عزیرالطاف کی افسانوں پر مشتمل کتاب''راج نگر'' کی رونمائی کے سلسلے میں سجائی گئی تھی یہ عزیرالطاف سے میری پہلی باضابطہ ملاقات تھی لیکن اس پہلی اور مختصر ملاقات اور ان کی کتاب دیکھ کر میرے دل سے ایک بار پھر بے ساختہ یہ نکلا کہ ''ذرانم ہوتو یہ مٹی بڑی ذرخیز ہے ساقی''عزیرالطاف نے افسانہ نگاری کا انتخاب کرکے یقیناََ ایک مشکل فیلڈ میں قدم رکھا ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کچھ صلاحیتیں خداداد ہوتی ہیں اور اس میں اگر شوق و محنت کی آمیزش بھی ہوجائے تو کامیابی کاانسان کے قدم چومنا بھی یقینی ہوجاتا ہے اور یہاں بھی یہی کچھ دیکھنے کو ملا ورنہ ایک محض پچیس سالہ الہڑ نوجوان کو کیا پڑی تھی کہ وہ افسانہ نگاری جیسے شعبہ میں قدم رکھتا جبکہ ہمارے ہاں یہ رجحان اب بہت کم رہ گیا ہے۔

(جاری ہے)

تقریب کی نظامت کے فرائض جناب حکیم سلیم اختر صاحب نے اداکئے اور خوب کئے انہوں نے باربار عزیرالطاف کی حوصلہ افزائی کی اور حاضرین کو بھی اس کام میں شامل رکھاجس کی وجہ سے پورا وقت ہال تالیوں سے گونجتا رہا ۔عزیرالطاف جو اتفاق سے سٹیج پر موجود سات کرسیوں میں ٹھیک درمیان والی کرسی پر بیٹھا تھااور اس کے گرد تمام نامور شخصیات موجود تھیں تو حکیم صاحب نے کہا کہ اس وقت سٹیج پر ادب و افسانہ نگاری میں ممتازترین شخصیات کے مابین ایک پچیس سالہ نوجوان کی موجودگی سے بہت مسرت ہورہی ہے ۔

صدارت کی کرسی پر روزنامہ جنگ سے وابستہ معروف کالم نگار جناب روٴوف طاہر صاحب رونق افرو زتھے دیگر مہمانان گرامی میں محترمی صغریٰ صدف صاحبہ،جناب کرامت بخاری صاحب،روزنامہ پاکستان کے ناصر بشیر،جناب اورنگزیب صاحب،تارکین وطن کے ایڈیٹر محترم منظورشاہد،جناب اقبال راہی ،روزنامہ اوصاف کے ایڈیٹر سرفرازسید،جناب شاہد بخاری ،جناب شعیب مرزا ،محترم وسیم عباس اورجناب حافظ مظفر محسن کے ساتھ ساتھ پاکستان فیڈرل یونین آف کالمسٹ کی بھرپور نمائندگی بھی تنظیم کے مرکزی عہدیداروں جناب شہزاد چوہدری،سید بدرسعید،فرخ شہباز وڑائچ،ساجد خان ،حافظ محمدزاہد،ذیشان انصاری ،عبدالماجدملک اور مجھ ناچیز سمیت اپنے ساتھی عزیرالطاف(جوخود بھی پی ایف یوسی کے ممبرہیں)کی عزت افزائی کیلئے موجود تھی ۔

اس کے علاوہ بھی ملک بھر سے کالم نگاروں ،افسانہ نگاروں اور شعرائے کرام کی بڑی تعداد اس شام کو مزید خوبصورتی بخشنے کیلئے موجود تھی تمام مقررین نے عزیرالطاف کو مبارکباددی اوراس کی کتاب راج نگر کو سراہنے کیساتھ ساتھ اپنی محنت کو بڑھانے اور سینئرز سے سیکھنے کی تلقین کی نوائے وقت گروپ سے وابستہ اور پی ایف یوسی کے صدر جناب سید بدر سعید کو جب سٹیج پر بلایا گیا تو انہوں نے مائیک پر آکر فقط یہ کہنے پر ہی اکتفا کیا کہ'' میں اپنے سینئرز اور اساتذہ کی موجودگی میں کنفیوز بھی ہوں اورکچھ اظہار خیال کرنا گستاخی بھی سمجھتا ہوں ''میں ان کے ان الفاظ کو ان کا عاجزانہ پن ہی کہوں گا ورنہ میں جانتا ہوں کہ ''خود کش بمبار کے تعاقب میں''جیسی مشہورکتاب کا مصنف ایک اچھا مقرر بھی ہے اور پی ایف یوسی کے پروگراموں میں کمپیئرنگ بھی بدربھائی ہی کرتے ہیں۔

آخرمیں تقریب کے دولہا عزیرالطاف کو جب اظہارخیال کی دعوت دی گئی تو انہوں نے مختصر وقت میں راج نگر سے چنداقتباسات پیش کئے جن کو حاضرین نے خوب سراہااور پھر آنیوالے تمام مہمانان کا شکریہ اداکرکے اجازت طلب کرلی جس پر حکیم سلیم اختر صاحب نے عزیر کااس بات پر شکریہ اداکرکے محفل کو کشت زعفران بنادیا کہ انہوں نے مختصر بات کی اور مہمانوں اور کھانے کے درمیان زیادہ دیر مزاحم نہیں ہوئے ۔

دوسری خوبصورت شام جس میں شرکت کا موقع ملا وہ اوکاڑہ میں سخن وادی اور روش انٹرنیشنل کے زیراہتمام محترمہ سیدہ شبانہ زیدی صاحبہ جن کو ضلع اوکاڑہ کی پروین شاکرکہاجاسکتا ہے کے دوسرے شعری مجموعے ''اک شہربساپانی پر''کی پزیرائی اور محفل مشاعرہ کی تقریب تھی تقریب کی خاص بات اسکا محبوب عوامی شاعر اور کئی دہائیوں کے بعد بھی عوام کے دلوں میں زندہ رہنے والے عظیم انسان حبیب جالب کے زیرصدارت ہوناتھا۔

تقریب میں اگرچہ محترم ثنااللہ شاہ ،جناب سہیل احمد خان،ایازمحمودایاز،اوصاف شیخ،قمرحجازی،حیدر علی ساحر،غلام مصطفیٰ مغل ،عاکف عثمان عاکف ،اکرم دانش، محبوب عالم طارق ،جناب احتشام جمیل شامی اوردیگر کئی شعراء نے اپنے خوبصورت کلام سے حاضرین سے خوب داد وصول کی ،معروف کمپیئرجناب ریاض خان اور بہت پیاری اور ہنس مکھ خاتون فوزیہ چغتائی کا تبصرہ بھی دلچسپی سے خالی نہیں تھالیکن نوجوان گلوکار عمران کی جانب سے اک شہربساپانی پر کی ایک نظم ''یادکرتا ہے کبھی مجھ کو بھلادیتا ہے''اور پروفیسرامین انجم نے حبیب جالب کی مشہور نظمیں اپنی خوبصورت آواز میں پیش کرکے محفل لوٹ لی۔

سب سے آخر میں محترمہ طاہرہ حبیب جالب صاحبہ نے جہاں ''میں نہیں مانتا''پیش کرکے حاضرین کے لہوکوخوب گرمایا وہیں انہوں نے میاں برادران سے یہ شکوہ بھی کیا کہ وہ اس نظم کوصرف عوامی مقبولیت کیلئے پڑھتے ہیں جبکہ عملی طور پر کوئی اقدامات نہیں کرتے ۔تقریب کی سب سے آخری اور سب سے خاصے کی چیز عالمی شہرت یافتہ اور منفرد خطاط جناب اصغر مغل صاحب کی پینٹنگز تھیں جو انہوں نے اپنے ہاتھوں سے مہمانان خصوصی کو تحفے میں دیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :