قائد اعظم کی حکمرانوں کیلئے مشعلِ راہ چند روشن مثالیں

جمعرات 10 ستمبر 2015

Qasim Ali

قاسم علی

یہ 1947ء میں قیام پاکستان کے فوری بعد کا واقعہ ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح ایک بار سیر سے واپس آرہے تھے کہ رستے میںآ نیوالا ریلوے پھاٹک ریل گاڑی کی آمد کی وجہ سے بند پڑا تھاجس پر ان کے اے ڈی سی گل حسن نے سوچا کہ ابھی ریل گاڑی کی آمد میں کافی ٹائم پڑا ہے اس طرح قائد کو بہت انتظار کرنا پڑے گا وہ فوراََ گاڑی سے باہر نکلے اوریہ کہہ کر پھاٹک کھلوا دیا کہ اس گاڑی میں قائداعظم محمدعلی جناح تشریف فرما ہیں پھاٹک تو اسی وقت کھل گیا مگر گل حس جب واپس آئے تو قائد اعظم نے انہیں بری طرح ڈانٹتے ہوئے کہا کہ قانون سب کیلئے برابر ہے اگر دوسرے لوگ انتظار کرسکتے ہیں تو میں کیوں نہیں کرسکتا فوراََ جاکر پھاٹک بند کرواوٴ۔

یہ واقعہ ہمارے آج کے حکمرانوں کیلئے ایک بہت مثال ہونے کیساتھ ساتھ ان کے منہ پر ایک زوردار طمانچہ بھی ہے کہ جس قائد کا نام لیتے اور ان کے ارشادات کو حرزجاں بناتے ہم نہیں تھکتے خود ان کی زندگی قانون کی پاسداری سے کس طرح عبارت تھی یہ وہی قائد اور بانی پاکستان ہیں جن کی تصاویر ہر سرکاری دفتر میں لگائی ہوتی ہے مگر اسی دفترکا افسر جب باہر نکلتا ہے تو ایک ہاہاکار مچ جاتی ہے ٹریفک گھنٹوں بلاک ہوجاتی ہے کئی بار ایسا بھی ہوچکا ہے کہ ایمبولینسوں میں مریض بروقت ہسپتال نہ پہنچ سکنے کی وجہ سے دم توڑ دیتے ہیں گزشتہ دور حکومت میں جب گیلانی صاحب کے قافلے کے گزرنے کیلئے ٹریفک روک دی گئی تو ایک خاتون نے رکشے میں ہی بچے کو جنم دے دیا یہ ایک ہلکی سی جھلک ہے ہمارے قائداور آج کے حکمرانوں کے درمیاں فرق کی۔

(جاری ہے)


ایک بار برطانوی شاہ کا بھائی ڈیوک آف گلوسٹر پاکستان کے دورے پر آرہاتھا تو برطانوی ہائی کمشنر نے قائد سے درخواست کی اگر آپ ہمارے شاہ کے بھائی کا ائر پورٹ پر جاکر استقبال کرلیں تو اس سے پاکستان اور برطانیہ کے مابین تعلقات کومزید مضبوطی ملے اور برطانوی عوام کیلئے آپ کی جانب سے ایک اچھا پیغام جائے گا قائد اعظم نے ان کی درخواست کو غور سے سنا اور اس کا جو مختصر مگر باوقار جواب دیا وہ ہمارے آج کے حکمرانوں کیلئے مشعل راہ ہے جو ہر ایک کیلئے دیدہ فرشِ راہ کئے ہوتے ہیں آپ نے برطانوی ہائی کمشنر سے دوٹوک الفاظ میں کہا''میں اس کیلئے تیار ہوں مگر کیا جب میرا بھائی برطانیہ جائے گا تو آپ کا بادشاہ اس کے استقبال کیلئے ائرپورٹ آئے گا ؟''جس پر برطانوی ہائی کمشنر اپنا سا منہ لے کر رخصت ہوگیا ۔

قائد کی اداروں کے استحکام اور قانون کی پاسداری کی ایک اور مثال ملاحظہ فرمائیں کہ ایک بار گورنر جنرل کیلئے ایک طیارہ خریدا گیا جب یہ سودا طے ہورہاتھا تو کمپنی نے قائد اعظم کو یہ آفر دی کہ اگر وہ کچھ مزید رقم دیدیں تو طیارے میں رائٹنگ ٹیبل سمیت مزید کچھ سہولیات بھی دی جاسکتی ہیں قائد نے یہ آفر قبول کرکے مزید رقم دینے کی منظوری دے دی مگر جب یہ فائل وزیر خزانہ غلام محمد کے پاس گئی تو انہوں نے اگرچہ اس آرڈر کو پاس کردیا مگر ساتھ ایک نوٹ بھی دے دیا کہ'' قائد اعظم کو یہ منظوری دینے سے قبل وزارت خزانہ سے اجازت لینا چاہئے تھی''پھر جب دوبارہ فائنل ہونے کیلئے یہ فائل گورنر جنرل قائد اعظم محمدعلی جناح کے پاس گئی تو انہوں نے وزیرخزانہ کا نوٹ دیکھ کر نہ صرف وزارت خزانہ سے تحریری معذرت کی بلکہ طیارے میں رائٹنگ ٹیبل کا آرڈرواپس بھی لے لیا۔

اب ہم آج کے حکمرانوں کے جاہ و جلال و عیاشیوں پر ایک نظر ڈالیں تو
ان کے ایک ایک دن کے اخراجات دس دس لاکھ تک ہیں ان کے کتوں بلیوں اور گھوڑوں تک کیلئے مربے بیرون ممالک سے منگوائے جاتے رہے ہیں ۔قائد اعظم محمد علی جناح میرٹ کے کس قدر سخت پابند تھے یہ بھی آپ کو بتائے دیتے ہیں کہ اپنے آخری ایام میں جب وہ سخت علیل تھے تو ایک نرس جوان کی انتہائی خدمت گزار تھی اور قائد بھی اس سے بہت خوش تھے اس نے ایک دن قائد سے عرض کی کہ سر اگر میرا ایک کام کردیں تو میں تاعمر آپ کی احسان مند رہوں گی قائد نے پوچھا بیٹا بتاوٴ میں آ پ کیلئے کیا کرسکتا ہوں اس پر نرس نے کہا سر میں پنجاب کی رہائشی ہوں جبکہ میری ڈیوٹی بلوچستان میں ہے آپ برائے مہربانی ڈی جی ہیلتھ کو کہہ دیں کہ میری تعیناتی پنجاب میں ہی کردیں تاکہ میں اپنی فیملی کیساتھ رہ سکوں قائد نے نرس کی بات سن کر ایک سرد آہ بھری اور بولے آئی ایم سوری بیٹا میں یہ نہیں کرسکتا میں اداروں کے کام میں مداخلت نہیں کرسکتا یہ کام وزارت صحت ہی کرسکتی ہے ۔

جبکہ آج دیکھ لیں کہ وزیر اور مشیر تو دور کی بات ان کے چاچے مامے اور ان کے دور کے رشتے داراپنی پسند ناپسند کی بنا پربڑے بڑے افسران کے تبادلے چٹکیوں میں کرواڈالتے ہیں جبکہ قائد سفارش وغیرہ تک کے اتنے مخالف تھے کہ ایک بار ان کا بھائی ان سے ملنے آیا اور اے ڈی سی کے ہاتھ اپنا کارڈ اند بھجوایا تو قائد نے وہ کارڈ پھاڑ کر ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا اور غصے سے لرزتے ہوئے کہا کہ ''اسے کہو کہ آئندہ مجھ سے ملنے کبھی نہ آئے ''اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کے بھائی نے اپنے تعارفی کارڈ کے اوپر اپنے نام کیساتھ لکھا تھا''برادر آف قائد اعظم محمدعلی جناح گورنر جنرل آف پاکستان''قائد اعظم سادگی کے قائل تھے اور فضول خرچی سے انتہائی اجتناب کرتے تھے اس وقت ہونیوالے تمام اجلاسوں میں صرف سادہ پانی مہیا سرو کیاجاتا تھا ان کا کہنا تھا کہ یہ خزانہ غریب عوام کی امانت ہے میں اس پر وزراء کو عیاشی کی اجازت نہیں دے سکتا ان لوگوں کو جوبھی کھانا پینا ہے اپنے گھر سے کھاپی کر آیا کریں اور آج ہم دیکھتے ہیں کہ ان اجلاسوں میں نہ صرف وزراء کو بھاری ٹی اے ڈی اے دیاجاتا ہے بلکہ انواع اقسام کے کھابے بھی فراہم کئے جاتے ہیں پارلیمنٹ ہاوٴس میں موجود کینٹین میں بہترین کھانے انتہائی ارزاں قیمت میں دستیاب ہوتے ہیں جبکہ باہر عوام مہنگائی کے ہاتھوں مررہے ہیں غریب عوام کے پاس پینے کاصاف پانی تک نہیں عوام اپنے گردوں کو بیچ رہے ہیں غریب مائیں اپنے ہاتھوں سے اپنے بچوں کو ماررہی ہیں کہ کم از کم یہ بھوکا مرنے سے تو بہتر ہے ۔

کیا یہ ہے اس قائد کا پاکستان ؟ نہیں ہرگز نہیں یہ قائد کا نہیں سرمایہ دارانہ نظام کے پیروکاردرندوں کا پاکستان ہے جہاں اس غریب عوام کیلئے کوئی جگہ نہیں جن کو قائد اعظم نے اس ملک کا مالک قراردیا تھا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :