کیا یہ تیسری عالمی جنگ کی تیاری تو نہیں ؟

پیر 12 جنوری 2015

Qasim Ali

قاسم علی

دنیا بھر میں عیسائیت کے فروغ کیلئے پھیلی ہوئی چار لاکھ اٹھانوے ہزار عیسائی مشنریوں ،مسلمانوں پر آئے روز عرصہ حیات تنگ کرکے انہیں ستانے ،ان کے وسائل پر قبضہ کرنے ،ان کی معیشت پر قابض ہوکر ان کو غریب سے غریب تر کرنے ، وجہ کائنات حضور اقدس ﷺ کے گستاخانہ خاکے بنانے اور قرآن پاک کی بے حرمتی کرکے مسلمانوں کو دین سے متنفر یا اس کی محبت کو دل سے نکانے کی تمام تر کوششوں کی ناکامی کے باوجود یہ حقیقت دنیا کے سامنے روزِ روشن کی طرح عیاں ہوکر سامنے آچکی ہے کہ اسلام پوری دنیا میں حیرت انگیز تیزی سے بڑھ رہاہے اور یورپ،مغرب اور یہودونصاریٰ کی تمام تر سازشیں اپنی موت آپ مرچکی ہیں ۔

اور اگر اسی رفتار سے اسلام بڑھتا رہاتو وہ وقت دور نہیں جب اسلام دنیا کا سب سے بڑا مذہب بن جائے گا اور یہی وہ بات ہے جس نے یہودو نصاریٰ کے شہہ دماغوں کی چولیں ہلاکررکھ دی ہیں اور ان کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ وہ ایسا کیا کریں کہ دنیا سے اسلام اور مسلمانوں کا نام و نشان مٹ جائے کیوں کہ ان کوئی بھی اقدام اسلام کی طاقت اور مسلمانوں کی تعداد میں مزیدا ضافے کا ذریعہ بن جاتا ہے جس کی ایک مثال 2011ء کا نائن الیون حادثہ بھی تھاجس کے بعد امریکہ پاگل سانڈھ کی طرح اقوام متحدہ اور اقوام ِ عالم کے تمام تر قوانین، اخلاقیات اورسرحدوں کو روندتا ہوا افغانستان پر چڑھ دوڑا نتیجہ یہ نکلا کہ افغانستان تو فتح نہ ہوا بلکہ نہ صرف آج امریکہ وہاں سے ذلیل و خوار اور بے آبرو ہوکر نکل رہاہے بلکہ اس واقعے کے بعد دنیا میں سب سے زیادہ اسلام اور قرآنی تعلیمات کا مطالعہ کیا گیا اور لاکھوں لوگ حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔

(جاری ہے)

اسی سے قبل کی صورتحال کا ایک مختصر سا جائزہ آپ کے سامنے پیش کرتے ہیں کہ طاقت کے نشے میں دھت صیہونی انتہاپسند مذہبی جنونیوں کی جنگی پالیسیوں نے کس طرح دنیا کی سوچ کو بدلا اور وہ کس تیزی سے اس کشت وخوں کو چھوڑ کر امن کے سچے داعی اسلام کی جانب راغب ہوئے ۔آپ اندازہ کریں کہ وہ امریکہ جہاں 1950ء میں صرف چارمساجد تھیں اور وہاں مسلمانوں کی تعداد سینکڑوں میں بھی بمشکل ہوگی مگر اب یہ تعدادایک کروڑ سے بھی تجوزکرچکی ہے۔

پورے یورپ میں مسلمانوں کی تعداد آج سے ساٹھ برس پہلے ہزاروں میں بھی نہیں ہوگی اور اب اٹلی میں بارہ لاکھ مسلمان آباد ہیں اور 500مساجد میں اذان و جماعت بھی ہوتی ہے۔ ہٹلر کے دیس جرمنی میں 35لاکھ مسلمان آباد ہیں اور وہاں ان کی1400 مساجد اور اسلامک سنٹرز ہیں ، وہ برطانیہ جہاں 1963ء میں صرف تیرہ مساجد تھیں اور وہاں بھی صرف فجر،مغرب اور عشاء پڑھنے کی اجازت ہواکرتی تھی وہاں اب الحمدللہ22لاکھ مسلمان بستے ہیں ان کی وہاں 600مساجد اور1450اسلامک سنٹرز ہیں جہاں دن رات قال اللہ و قال الرسول کی صدائیں بلند ہورہی ہیں ۔

فرانس یورپ کا وہ ملک ہے جہاں سب سے زیادہ مسلمان آباد ہیں جن کی تعداد 60لاکھ ہے ۔وہاں مسلمانوں کی ایک بہت بڑی طاقت ہے جہاں مسلمانوں کی600اسلامی تنظیمیں اور تیرہ سو مساجد اللہ اور رسول ﷺ کا نام ببانگ دہل لیا جاتا ہے ۔اس کے علاوہ کینڈا ،آسٹریا اور سویٹزرلینڈ کی عوام میں جس طرح اسلام نے اپنی جگہ بنائی ہے اس نے صیہونیوں اور عیسائی کلییساوٴں میں سراسیمگی پھیلادی۔

اس کے بعد ہی یولانڈ پوسٹن،چارلی ایبڈو اور ٹیری جونز کو استعمال کرنے کا مکروہ منصوبہ تشکیل دیا گیا جس کا مقصد دنیا کو تیسری عالمی جنگ کی طرف دھکیلنے کے سوا کچھ نہیں تاکہ ان حرکتوں کی وجہ سے مسلمانوں میں بے انتہا اشتعال پیدا ہوجائے کیوں کہ وہ بھی جانتے ہیں کہ حضور ﷺ کی محبت مسلمانوں کے ایمان کا لازمی حصہ ہے کمزور سے کمزور مسلمان بھی آنحضور ﷺ کی عزت و آبرو پر سمجھوتہ نہ کرسکتاچنانچہ یہ عرصے سے کبھی گستاخانہ خاکے تو کبھی نعوذباللہ قرآن کو جلانے جیسے اندوہناک واقعات سامنے آئے جس کے باعث لازمی طور پر مسلمانوں کی جانب سے ردعمل کا اظہار ہونا تھا جو ہوا بھی اور رواں ہفتے فرانس کے شہر پیرس میں چارلی ایبڈو پر ہونے والا واقعہ بھی اسی گستاخی کا ردعمل دکھائی دے رہاہے جس کے بعد ایک منظم منصوبے کے تحت پورے ملک میں مسلمانوں کی املاک اور مساجد پر حملے شروع ہوگئے ہیں پوری دنیا میں چالی ایبڈو پر حملے کو وحشیانہ اور سفاکانہ کہا گیا ہے اور فرانس کے صدر اولاندے نے ان ہلاکتوں کا بدلہ لینے کا اعلان کیا ہے ۔

مگر ہم فرانس کے صدر اولاندے اور نام نہاد عالمی برادری سے پوچھتے ہیں کہ ان کو اس رسالے کی انتظامیہ پر کئے گئے حملے اور12 ہلاکتیں تو نظر آگئیں مگر اس جریدے کی جانب سے ایک ارب ساٹھ کروڑ مسلمانوں کے جذبات نظر نہیں آئے جو ان کی گستاخانہ حرکتوں کی وجہ سے ایک عرصے سے مجروح ہوتے رہے لیکن اس وقت کسی کو نہ تو انسانی حقوق کے بھاشن یاد آئے اور نہ ہی کسی نے ان گستاخوں کو لگام دینے کی بات کی ۔

حالاں کہ مسلمانوں نے متعدد بار اس پر احتجاج کیا اور اس اخبار کے ایڈیٹر کو وضاحت یامعذرت کا موقع دیا مگر وہ ہر بار اپنی ڈھٹائی پر قائم رہتے ہوئے خود کو درست ہی کہتا رہا اور عالمی صیہونی میڈیا سے ایک ہیرو کی طرح پیش کرتا رہا اور حکومت نے اسے باقاعدہ سیکیورٹی فراہم کررکھی تھی جیسا کہ اس نے اس سے قبل اسلام کے بدترین دشمنوں،سلمان رشدی،تسلیمہ نسرین اور ٹیری جونز کو فراہم کررکھی ہے۔

مغرب کا یہی دوہرا میعار ہے جس نے اسے پوری اسلامی دنیا کے سامنے ننگا کردیا ہے ۔اب بھی وقت ہے اگر دنیا میں اقوام متحدہ نام کی کوئی تنظیم ہے اور وہ اپنی غیر جانبداری کی اب بھی دعویدار ہے ،او آئی سی اگر اپنا وجود منوانا چاہتی ہے اور نام نہاد عالمی برادری اگرچاہتی ہے کہ ایسے واقعات کی مستقل بنیادوں پر روک تھا کی جاسکے تو اسے عالمی سطح پر یہ قانون سازی کرنا ہوگی کہ پوری دنیا کیلئے تمام انبیائے کرام محترم و مقدس ہیں ان کے بارے میں کوئی بھی گستاخی کی سزا صرف اور صرف موت ہوگی اور اس کے بعدسب سے پہلے اسلام کے بدترین دشمنوں سلمان رشدی،تسلیمہ نسرین اور ٹیری جونزکو یہ سزائیں دی بھی جائیں ورنہ انتہا پسند صیہونیوں اورصلیبی جنگجو ووٴں کی جانب سے بھڑکائی جانے والی یہ آگے واقعی میں تیسری عالمی جنگ کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :