امن و تعلیم کے فروغ کیلئے کوشاں دو اہم شخصیات

پیر 10 فروری 2014

Qasim Ali

قاسم علی

اگر یہ کہاجائے کہ موجودہ دور میں انسان کی سب سے بڑی ضروریات میں سے امن و تعلیم انتہائی ضروری ہیں تو غلط نہ ہوگا بیشک اس مقصد کیلئے بہت سے حکومتی و پرائیویٹ ادارے اور این جی اوز کارفرما ہیں اور اپنی اپنی استعداد کے مطابق اپنے معاشرے ،ملک اور دنیا کو سنوارنے اور اسے جہالت کے اندھیروں سے نکال کر علم کی روشنی دینے اور ظلم و بربریت اور ناانصافی سے امن کی راہ پر ڈالنے کیلئے کوشاں ہیں مگر بعض شخصیات ایسی ہوتی ہیں جو تنہا ہی اپنی ذات میں ایک ادارہ ہوتی ہیں اور ان کے اعلیٰ مقاصد اور منفرد جدوجہد انہیں دوسروں سے ممتاز کردیتی ہے گزشتہ دنوں میری ایسی ہی دو شخصیات سے الگ الگ ملاقاتیں ہوئیں اور جب مجھے یہ علم ہوا کہ ان کا تعلق میری برادی یعنی شعبہ صحافت سے ہے تو مجھے بہت خوشگوار حیرت ہوئی ۔

(جاری ہے)

کیوں آج کل جہاں ہمارے صحافیوں پر یہ الزام عام طور پر لگتا رہتا ہے کہ وہ صرف برائی دکھاکر معاشرے کو گندا کررہے ہیں وہیں یہ لوگ اپنے فعل سے یہ ثابت کررہے ہیں کہ ایک صحافی نہ صرف معاشرے میں موجود اچھائیوں کو بھی اجاگر کرتا ہے بلکہ خود بھی ایسے کسی کارخیر میں پیچھے نہیں رہتا ۔پہلی شخصیت نسیم الحق زاہدی ہیں جن سے یہ میری پہلی ملاقات تھی مگر یوں لگ رہاتھا جیسے میری ان سے بہت پرانی یاد اللہ ہو ان کے منہ سے نکلا ایک ایک لفظ میرے دل میں اتر رہاتھا اور میں سوچ رہاتھا کہ ان جیسے لوگ ہی ہیں جو امن کی امید کو زندہ رکھے ہوئے ہیں ورنہ جس طرح آج دنیا ظلم و بربریت کی آماجگاہ بنی ہوئی ہے لگتا ہے یہ قیامت کی گھڑیاں کبھی ختم نہیں ہوں گی بچے اسی طرح یتیم ہوتے اور سہاگنیں اسی طرح اجڑتی رہیں گی ،امن کی آشا لئے روز مشرق سے نکلنے والا سورج اسی طرح مایوس لوٹتا رہے گااس صورتحال میں ایسی شخصیات یقیناََ امن کی خواہش رکھنے والوں کیلئے امید کی کرن ہیں جو دنیا کو خوشحالی اور امن کے راستے پر ڈالنے کیلئے کوشاں ہیں نسیم الحق زاہدی ایک انسان دوست شخصیت ہیں جنہوں نے اپنی زندگی انسانیت و امن کیلئے وقف کررکھی ہے اس کیلئے نہ صرف وہ قلم سے جہادکررہے ہیں بلکہ بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے ان کی عملی کوششیں بھی انتہائی قابل قدر ہیں ان کی انہی اعلیٰ خدمات کے پیش نظر وہ وزیراعظم کی قائم کردہ NPCIHٰیعنی national peace comittee for interfaith harmonyکی جانب سے 2011ء اور2013ء میں گولڈ میڈل اور2012ء میں امن و امان کیلئے بہترین کارکردگی پرفردوس عاشق اعوان کے ہاتھوں ایوارڈ سمیت متعدد اعزازات حاصل کرچکے ہیں ۔

نسیم الحق زاہدی نوجوان اور ہنس مکھ انسان ہیں اور پہلی ہی ملاقات میں اپنے مخاطب کونہ صرف اپنا گرویدہ کرلیتے ہیں بلکہ اپنے مضبوط دلائل سے اسے اپنے مشن کا ہمنوا بھی بنا لیتے ہیں ۔موجودہ حالات کی خرابی کا تمام تر ذمہ دار وہ اسلام سے دوری ، عدم برداشت کے رویے اور ناانصافی کو سمجھتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کواشرف المخلوق کہا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ انسان اشرف اپنے اعمال سے ہی بنتا ہے ورنہ یہی انسان جانوروں سے بھی بدتر بن جاتا ہے انہوں نے کہا کہ افسوس آج کے دور میں دہشتگردی کے تمام تانے بانے اسلام اور مسلمانوں سے ملائے جارہے ہیں جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ حضورﷺ نے واضح طور پر فرمایا کہ''جس نے ایک انسان کو قتل کیا اس نے پوری انسانیت کو قتل کیا ''ایک اور جگہ حضور ﷺ نے فرمایا جس کا مفہوم ہے کہ''مجھے اتنا دکھ خانہ کعبہ کے گرانے پر نہیں ہوتا جتنا ایک بے گناہ انسان کے قتل پر ہوتا ہے''لہٰذا اس سے یہ واضح ہے کہ اسلام کے نام پر ایک دوسرے کے گلے کاٹنے والے اسلام کے لبادے میں چھپے ہوئے انسانیت کے دشمن ہیں جنہیں پہچانناہوگا اور اللہ سے دعا کرنا ہوگی کہ وہ انہیں ہدائت دے ۔

آخر میں انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں کسی فرقے یا مسلک کی بجائے صرف مسلمان کا تذکرہ کیا ہے اور مسلمانوں کو اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے کا حکم دیا ہے اگر ہم آج بھی اللہ کے اس حکم کو اپناتے ہوئے خود کو کسی مسلک و فرقہ کی بجائے صرف مسلمان کہلائیں تو ہمارے بہت سے مسئلے اپنی موت آپ مرجائیں گے ۔دوسری شخصیت رانامحمدعمران کی ہے جس نے تعلیم کے شعبہ میں ایک انتہائی اہم اورمنفرد قدم اٹھاتے ہوئے ایسے بچوں کاسہارا بننے کا فیصلہ کیا ہے جن کے پھٹے پرانے کپڑوں اورمیلے کچیلے چہروں کو دیکھ کر لوگ ان کوتعلیم دینا تو دور کی بات خیرات دینا بھی پسند نہیں کرتے کیوں کہ یہ خانہ بدوشوں کے بچے ہوتے ہیں لیکن رانا عمران نے یہ ٹھان لی کہ وہ اس طبقے کیلئے جدوجہد ضرور کرے گا مگر اس کے منصوبے میں وسائل کی عدم دستیابی ایک بڑی رکاوٹ بن گئی لیکن رانا عمران کاعزم و استقلال اور سچا جذبہ اسے ان بچوں کیلئے کچھ کرگزرنے پر مسلسل اکساتا رہا اور آخر کار اس نے چنددوستوں سے قرض پکڑ کر اس پروجیکٹ پر کام شروع کردیا ہے شروع میں تو ان کو اس منصوبے پر بہت طنز کا سامناکرنا پڑا کہ وہ لوگ جن کا کوئی ٹھکانا نہیں ہوتا اور جو نسل درنسل جہالت کی زندگی گزاررہے ہیں انہیں کیسے ایک جگہ پر بٹھا کر تعلیم دے کر راہ راست پر لایا جاسکتا ہے لیکن عمران کاجواں عزم ناممکن کو ممکن بنانے کیلئے جت گیا وہ بارہا ان جھونپڑی والوں کے پاس گیا اور ان کو قائل کیا کہ وہ اپنے بچوں کوضائع کرنے کی بجائے ملک کا مفید شہری بنائیں تو پہلے تو خود ان کے والدین نے ہی یہ کہہ کر انکارکردیا کہ یہی بچے تو ہمارے روزگار کا ذریعہ ہیں جبکہ سکول داخل کروانے کی صورت میں تو ہمیں ان کی کتابوں اور فیسوں کی مد میں ان پر خرچ کرنا پڑے گا لیکن جب عمران صاحب نے انہیں بتایا کہ انہیں کسی فکرمندی کی ضرورت نہیں یہ سب کچھ ہم ان کو مہیا کریں گے تو کچھ خانہ بدوشوں نے اس پر رضامندی کا ظہار کردیا اور بعد میں اس نئے اور خوشگوار تجربے کو دیکھتے ہوئے دوسرے خانہ بدوشوں نے بھی اپنے بچوں کو یہاں بھیجنا شروع کردیا اور آج کرسٹل ویو سکول سسٹم کے نام سے دیپالپور میں کالوکی واں کے مقام پر پہلی برانچ میں مختصر عرصہ میں تقریباََ ڈیڑھ سو خانہ بدوش بچے زیرتعلیم ہیں اور روز بروز ان کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے ان بچوں کونہ صرف تعلیم فری دی جارہی ہے بلکہ انہیں سکول بیگ،کتابیں اور ایک وقت کا کھانا تک سکول انتظامیہ فراہم کررہی ہے سکول میں ایک فری ڈسپنسری بھی قائم کی گئی ہے جہاں بچوں کو علاج معالجے کی مفت سہولت بھی میسرہوتی ہے ۔

گزشتہ دنوں اس انوکھے آئیڈئیے کی رپورٹ ایک نجی ٹی وی چینل پر چلنے کے بعد دیگر کئی شہروں سے بھی ان کو فون موصول ہوئے کہ ان کے شہر میں بھی ایسے سکول بنائے جائیں اور رانا عمران اس سلسلے کو مزید بڑھانے کیلئے بیتاب بھی ہیں مگر وسائل کی کمی یہاں آڑے آرہی ہے میری مخیر حضرات سے اپیل ہے کہ وہ اس سکول سسٹم کا خود معائنہ کریں اور اور اس عظیم مشن کو مزیدآگے بڑھانے کیلئے ہر ممکن تعاون فرمائیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :