کیسا اور کہاں کاآزادی مارچ؟؟

منگل 12 اگست 2014

Qamar Uz Zaman Khan

قمر الزماں خان

اگرتحریک انصاف اور اسکے اتحادی14اگست2014کوآزادی مارچ کررہے ہیں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 14اگست1947کو کیا ہوا تھا؟ستائیس لاکھ بے گناہوں کا قتل عام کس غرض سے کرایا گیا تھا اور ایک کروڑ سے زائد شہریوں کو بے گھر کرکے خونی اور ہولناک ہجرت پر کیوں مجبور کیا گیا تھا؟یہ سچ ہے کہ آزادی کے لفظ کو تاریخ میں ہمیشہ مسخ کیا گیا ہے۔مگر جیسا کہ لیون ٹراٹسکی نے کہا تھاکہ ”کوئی جعل سازی خواہ اسکو کسی ریاست کے دیوھیکل ڈھانچے اور وسائل کے بنا پر استوار کیا جائے تاریخ کی کسوٹی پر نہیں ٹھہر سکتی“۔

پھر اس کا یہ مطلب ہوا کہ پاکستان کے حکمران طبقے کا ایک حصہ پاکستان کی ”آزادی“کو مشکوک قراردے رہا ہے۔یہ تو سراسر نظریہ پاکستان سے تصادم کی راہ ہے۔ لینن نے ہی کہا تھا کہ ”انقلاب(سوشلسٹ انقلاب نہ کہ طاہر القادری کی نوٹنکی) سے قبل حکمران طبقہ آپس میں کتوں کی طرح لڑنے لگتا ہے“۔

(جاری ہے)

اگرچہ حکمران طبقے کا سچ بھی ہمیشہ ادھورا،آدھا اور اپنی غرض سے مطابقت رکھنے ولا ہوتا ہے ،اس لئے موجودہ عہد میں بھی حکمرانوں کے اقتدار سے محروم دھڑے پورے سچ سے خوف زدہ ہیں۔

وہ کبھی یہ اقرار کرنے کی جراء ت نہیں کرسکتے کہ چودہ اگست 1947ء سے کھیلا جانے والا کھیل یک طرفہ اور طبقاتی بنیادوں پر تھا مگر حکمرانوں نے اس وقت بھی عام آدمی کو اسی طرح دھوکہ دیا تھا جس طرح آج عمران خان ایک طبقاتی سماج میں ”آزادی“ کے لفظ کوبدنیتی کی بنیاد پر استعمال کرکے عام لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کررہا ہے۔وہ کبھی نہیں بتائے گا کہ منڈی کی معیشت میں رہتے ہوئے ”آزادی“منڈی کی قوتوں کی یرغمال ہوتی ہے۔

ایسے سماج میں بالادست قوتیں(جو آبادی کا ایک فی صد بھی نہیں ہوتیں) منافع اور شرح منافع بڑھانے میں آزاد ہوتی ہیں ،لوٹ مار ،استحصال اور عام لوگوں کو انکے حقوق سے محروم کرنے کی بے پناہ آزادی رکھتی ہیں۔جبکہ عام آدمی تواپنی مرضی کی زندگی گزارنے کا تعین تک کرنے میںآ زادنہیں ہوتا۔اسکی تعلیم بلکہ نصاب تعلیم کا تعین تک اقلیتی طبقہ کرتا ہے،غریبوں کی خوراک،لباس انکے انداز زندگی کے سارے پہلو انکی قوت خرید کے مطابق متین کئے جاتے ہیں۔

حتہ کہ کس سماج میں کس قسم کی بیماریاں پھیلائی جائیں یہ بھی فطرت کی بجائے اب سرمایہ داری نظام کے ناخدا کرتے ہیں۔ تقسیم ہند کے وہ مقاصد جو ظاہر کئے جارہے تھے دراصل تھے ہی نہیں بلکہ جو پچھلے ستاسٹھ سالوں میں ہوا، یہی مقسوم و مطلوب تھا۔ان سالوں میں بس ایک ہی کام ہواکہ منڈی کی معیشت اور سامراجی مفادات کو پروان چڑھایا گیا جس کے انعام میں انگریز اور امریکی سامراج کے پروردہ پرانے اور نئے خاندانوں(جن کی ایک بڑی تعداد کے ساتھ عمران خاں بغل گیر ہے )کو حکمران بننے اور لوٹ کھسوٹ کی کھلی اجازت دی گئی۔

دوسری طرف محنت کش طبقے کو زندگی کی ہر ضرورت سے محروم کردیا گیا، حتہ کہ ان سے صاف ماحول،پینے کا پانی ،دباؤ سے پاک زندگی تک چھین لی گئی۔محنت کے استحصال میں روز بروز شدت پیدا کی گئی۔غریبوں کی تعداد بڑھا کر امیر اور غریب کے مابین خلیج میں گہرائی کو بڑھادیا گیا۔پچھلے تمام سالوں میں حکمران طبقے کے تمام جمہوری و غیر جمہوری دھڑوں کی اکثریتی آبادی کے خلاف ”مفاہمت“کبھی کمزور نہیں پڑی۔

سماج کو کھینچ کر ساتویں صدی میں دھکیل دیا گیا ہے۔
ریاست کی حقیقی قوتوں کی مدد،آشیر باداور راہنمائی میں کی گئی دھاندلی کے ذریعے قائم کی گئی نواز حکومت ، تاریخ کے اس دھانے پر اقتدار پر قابض ہوئی ہے ،جہاں ذاتی لوٹ مار،کمیشن،ٹھیکوں کی بندربانٹ اور میگاپراجیکٹس کے ذریعے چند رشتہ دار اورخاندانوں کی کمائی کے علاوہ کچھ نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی ان میں کرنے کی صلاحیت ہے۔

وہ تمام انتخابی نعرے جو الیکشن کمپئین میں ”جعلی سنجیدیگی“ اور بناوٹی دکھ سے لگا رہے تھے، اب شریف برادران کامنہ چڑھا رہے ہیں۔مسئلہ خاصا گھنبیر ہے اگر لوڈ شیڈنگ ختم کی جاتی ہے(جو کہ پانچ منٹ میں کی جاسکتی ہے)توآئی پی پیز کے شرح منافع بڑھانے (کی آزادی)کے آسان راستے میں رکاوٹ تصور کیا جائے گا ِاس سے عالمی مالیاتی ادارے سخت ناراض ہوجائیں گے۔

اگر پینے کا صاف پانی مہیا کردیا جائے تو نیسلے کی منافع خوری ختم ہوجائے گی اور ”آزاد منڈی “ کے قوانین اور بندشوں کے حکم نامے کی خلاف ورزی تصور کی جائے گی۔اگر گیس کی فراہمی میں تمام رکاوٹیں ختم ہوجائیں تو مقتدر قوتوں کے نمائندہ خاص خاقان عباسی کے قطری پراجیکٹ،سی این جی مافیا سے رشوت ستانی،اور تیل اور گیس کے شعبے(جس کو ناکام ظاہر کرنا ضروری ہے) کی نج کاری جیسے اقدامات” آزادانہ “نہیں ہوسکیں گے۔

تعلیم اور صحت کی فراہمی سے کالے دھن کی ”آزادانہ“ لوٹ مار میں شدید خلل پڑ سکتا ہے۔اگر عام آدمی کو قیمت خرید پر تیل اور ڈیزل فراہم کردیا جاتا ہے تو پھر انٹرنیشنل مانیٹری فنڈزکی دم پر پاؤں آجائے گا اور اسکو مجبوراََ تادیبی کاروائی کرنا پڑے گی۔ آزادی کا لفظ بھی کتنا طبقاتی ہے۔اگر ایک طبقے کو آزادی مل جائے تو پھر دوسرے طبقے کی آزادی خطرے سے دوچار ہوجاتی ہے۔

لہذاسوال پھر پیدا ہوتا ہے کہ ایک طرف حکمران طبقہ ،ملٹی نیشنل کمپنیاں اور سامراجی مالیاتی اداروں اور انکے آلہ کاروں کی آزادی ہے اور دوسری طرف اٹھارہ ،بیس کروڑ لوگوں کے مفادات اور انکی آزادی کا سوال ہے۔یہ تو ایک بہت بڑا تضاد ہے۔ایک کی زندگی دوسرے کی موت ہے۔ چونکہ حکمرانوں کا طبقہ اور مفادات سانجھے ہیں اس لئے وہ عوام کو استعمال ضرور کرتے ہیں مگر انکے مفادات حاصل کرنے کی آزادی تک جانے والے راستے کو ہمیشہ بند ہی رکھتے ہیں تاوقتیکہ کہ عوام ،محنت کش طبقے کی قیادت میں اس طبقاتی ،ظالمانہ اور گمراہ نظام کے خلاف یورش کرکے انکے اقتداراور تسلط کا خاتمہ نہ کردیں۔

اسی یورش سے حکمران طبقہ ڈر رہا ہے،ان کو خدشہ ہے کہ جعلی انقلاب اور آزادی مارچ کہیں اصلی انقلاب کی شروعات نہ ہوجائی۔ایک دفعہ کھیل حکمران طبقے کے ہاتھوں نکل گیا تو پھر ان کی کہانی ہمیشہ کے لئے ختم ہوجانے کا امکان ہے۔ پھر یہ عمران خان کا آزادی مارچ کس بیماری کاعلاج ہے؟جسکا مقصد کسی قسم کی بنیادی تبدیلی کی بجائے نوازشریف کی جگہ خود اقتدار میں آنا ہے ،اسی لئے وہ مسائل کی حقیقی وجوہات کی بجائے ثانوی معاملات کو زیادہ اچھال رہا ہے۔

اس کے نذدیک موجودہ گلا سڑا نظام ٹھیک ہے مگر چلانے والے ٹھیک نہیں ہیں۔یہ ایک مجرمانہ پوزیشن ہے،جس میں نظام کی ناکامی کو افراد کے کندھوں پر ڈال کر انسانیت مجروح کرنے والے نظام کو جاری رکھنے کا جواز فراہم کیا جاتا ہے۔اس طرح حقیقت کو شعوری طور پر اوجھل کرکے لوگوں کو ایک اور دھوکے کی طرف راغب کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ زیادہ سائنسی انداز اختیار کئے بغیر ہی کہا جاسکتا ہے کہ عمران خاں کے اندازے،جائیزے،تجزیات،دعوے اور بڑھکیں زیادہ وزن نہیں رکھتیں۔

اگرچہ ماضی میں سونامی برپا کردینے کے دعوے ،گیارہ مئی کے الیکشن کو 70ء کے الیکشن جیسا قرار دیا جانا،الیکشن میں دھاندلی ہونے کی صورت میں ”قیامت برپا کردینے“ جیسے دعوے دھول سے بھی ہلکے ثابت ہوچکے ہیں۔عمران خاں کے دعوے زمینی حقائق سے تو مناسبت قطعی طور پر نہیں رکھتے نہ ہی وہ زمین کی طرف دیکھنے پر یقین رکھتا ہے۔مگر عمران خان کو ہمیشہ آسرا کرانے والی مقدر قوتیں عین وقت پر دھوکہ دے جاتی ہیں۔

ان کی اپنی مجبوریاں اور اختیارات کے مسائل ہیں۔مگر غرض مند دیوانہ ہوتا ‘ہر شکستِ آرزو کے بعد عمران خاں کو پھر بظاہر ان نادیدہ قوتوں کی یقین دھانیوں پر اعتبار کرنا پڑتا ہے،ایسا 1997ء سے مسلسل ہوتا آرہا ہے۔اس دفعہ سونامی کی ناکامی اور 11مئی کے الیکشن میں تحریک انصاف کو دکھائی اور بتائی گئی کامیابی نصیب نہ ہونے کے بعدکچھ زیادہ مضحکہ خیز کیفیت ہے۔

وہ جن کے دم سے ہر الیکشن ”انجینئرڈ“ اور طے شدہ نتائج کا حامل ہوتا ہے ان کی سرپرستی میں عمران خاں ایسی”آئینی انتخابی اصلاحات “کا تقاضہ کررہا ہے جس کے بعد اس کے گمان میں پاکستان میں ہونے والے الیکشن صاف اور شفاف انتخابات ہوسکیں گے۔حالا ت سارے حکمران طبقے کے لئے خراب ہوچکے ہیں ،جن کے ابرو سے مقدر بدلتے تھے اور” میر ے ہم وطنوں “کی للکار سے نئے پی سی او کے ڈرافٹ تیار ہونے شروع ہوجاتے تھے ،اب گھوسٹ فریقین کے ذریعے عدالتوں،ٹیلی وژن چینلوں،سابق کرکٹروں،ہر شہر کے ناکام ”سماجی کارکنوں“ کے ناموں سے آویزاں بینروں کے ذریعے اپنی عزت و آبرو کی رکھوالی کے درخواست گزار نظر آتے ہیں۔

عمران خان منڈی کی معیشت کا زبردست داعی اور حامی ہے مگر وہ اس حقیقت سے چشم پوشی کررہا ہے کہ اسکے گاڈ فادرز بھی لکشمی دیوی کے ہی پجاری ہیں اور منڈی کی معیشت میں ہر چیز بکتی اور خریدی جاسکتی ہے۔ تین سو ترتالیس حلقوں کی بجائے چار حلقوں کی جانچ پڑتال کے مطالبہ کی مطلوبہ پذیرائی نہ ہونے کے بعداب عمران خان ”آزادی مارچ“ کے نام سے حکومت الٹانے اور مڈ ٹرم الیکشن کے مطالبے سے14اگست کو اسلام آباد کی طرف پیش قدمی کرنے جارہے ہیں۔

ان کے خیال میں وہ اور انکے ممی ڈیڈی کارکنان ”بھادوں “کے موسم میں حکومت ختم کرنے تک اسلام آباد رہیں گے ۔بادی النظر میں ایسا براہ راست ہونا ممکن نہیں ہے البتہ مقتدر حلقے نواز حکومت کے اردگرد اپنے سکہ بند حلیفوں کا دائرہ تنگ کررہے ہیں تاکہ ایک دباؤ پیدا کرکے (حکومت کی تبدیلی سمیت )اپنے مطلوبہ مقاصد کے لئے شریف حکومت کو جھکا سکیں۔

مگر ایسا ہونے کے باوجود موجودہ نظام کی موجودگی میں کوئی کلاسیکل صاف اور شفاف الیکشن دیوانے کا خواب ہے۔اس ملک میں ایک تو الیکشن کمیشن ہوتا ہے جوا اتنا ہی مضبوط،باکردار ،طاقت ور اور غیر جانبدار ہے جتنی کی پاکستان کی عدلیہ۔ دوسراان کے اوپر ان ”فرشتوں “ کاہالہ ہوتا ہے جو اس ملک میں آئی جے آئی بنواتے ہیں،دوتہائی اکثریت دیتے اور پھر کان سے پکڑ کر نکال دیتے ہیں۔

جو ڈیلیں اور این او آر کرتے ہیں اور پھر کسی چوں چرا پرجلاوطن بھی کراتے ہیں اور شہادتیں تک کرادیتے ہیں۔کسی طبقاتی سماج میں صاف اور شفاف الیکشن ممکن ہیں نہیں ہیں اور پاکستان میں تو گرہیں زیادہ ہیں اور ان کو کھولنا موجودہ اور انتظارکی لائین میں لگے حکمرانوں کے بس میں نہیں ہے۔
عمران خان اور طاہر القادری انتخابات سے قبل اپنے دعووں کی شکست کو دھاندلی کے پلڑے میں ڈال کر اپنی بے مقصد سیاست کو ایک تحرک فراہم کررہے ہیں ،جس کے لئے ان کو کوئی نہ کوئی سائن بورڈ تو چاہئے تھا،غلط سیاسی اصطلاحوں کے موسم میں انہوں نے لفظ ”آزادی“ اور ”انقلاب“کی بے حرمتی کی ٹھانی ہے ۔

جس ملک میں طاہر القادری جیسے مشکوک افراد ”انقلاب “ لانے کی باتیں کرتے ہوں وہاں کچھ بھی ہانک دینا مشکل کام نہیں ہے۔ آزادی کا مطلب بھی بقول لینن”حکمران طبقے کی عام لوگوں کو غلام بنائے رکھنے کی آزادی“کے سوا کچھ نہیں ہے۔عمران خاں کو انٹرنیشنل مانیٹری فنڈز،سامراجی جبر،دباؤ، قوانین اور احکامات، محنت کے استحصال اور لوٹ مار،سرمائے کے جبر،ذاتی ملکیت اور اسکی وحشت کی غلامی پر کوئی اعتراض نہیں ہے جس کا شکار پاکستان کے کروڑوں محنت کش،مزدور اور کسان ہیں،اسکا آزادی مارچ قطعی طور پر پاکستان کے غلام عوام رہائی کے لئے نہیں بلکہ اقتدار کی غلام گردشوں میں عمران خاں کے” آزادانہ “دندنانے کا نام ہے۔

عمران خان کو گیارہ مئی کے الیکشن میں شدید حزیمت کا سامنا کرنا پڑا تھا اگر اسکی صحت کو (لیفٹ سے گرا کر)پہلے سے خراب نہ کردیا گیا ہوتا تو پھر عمران خان کو کافی ذہنی اور نفسیاتی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا۔اس کے بالمقابل نواز شریف کا مینڈیٹ بھی انہی مقتدر قوتوں کا مرھون منت ہے جو الیکشن کے زمانے میں ڈبل گیم کرکے خواب بیچ رہے تھے۔عمران خان کو الیکشن کے ایک سال بعد یاد آیا ہے کہ ریاض اور واشنگٹن سے پاکستان میں مداخلت کی جاتی ہے،مداخلت کے خلاف اسکا یہا ں بھی نحیف قسم کا احتجاج الیکشن کی حد تک ہے ،اسکو متذکرہ ممالک کی پاکستان میں معاشی ،سفارتی مداخلت سے جاری سول واراور دائمی سامراجی کٹھ پتلی بننے سے کوئی سروکار نہیں ہے۔

عمران خاں کا تاریخ ،جغرافیہ اور وژن کسی رٹا باز استادکی کاروائی لگتی ہے،ہر جلسے اور سیمینار میں اس کی باتیں کسی اور ہی دنیا کی کہانی بتاتی نظر آتی ہے،کبھی وہ کہتا ہے کہ ہم پاکستان کو چین کی طرح کرپشن سے پاک ملک بنائیں گے،اس کا ٹیوٹر اس کو بتانا بھول گیا کہ چین اس وقت دنیا کے سب سے زیادہ بدعنوان حکمران طبقے کی جکڑبندی میں ہے۔اسی طرح 3اگست کو انہوں نے فرمایا کہ ”مسلمان دنیا میں سات سو سال تک سپر پاور رہے“،یہ دنیا کی تاریخ کو بدلنے کی ایک نئی کوشش ہے مگر اسکے لئے حوالہ جات کا بندوبست کرنا اتنا آسان نہیں ہوگا۔

دوسری طرف دھاندلی میں لتھڑی مسلم لیگی حکومت ،تحریک انصاف کے نام نہاد آزادی مارچ کی نسبت اپنی مجرمانہ حیثیت،لوڈ شیڈنگ،مہنگائی اور زبان زد عام کے مطابق ناکام حکومت کے تاثر کی وجہ سے کانپ رہی ہے۔بدحواسی انکے ”مضبوط“اعصاب پر حاوی ہے۔اسلام آباد کو فوج کے حوالے کرنا اور انسانی بنیادی حقوق اور عدالتوں کے اختیارات کی سلبی والے قوانین کے اطلاق سے ثابت ہورہا ہے کہ نواز حکومت کتنی بوکھلاہٹ کا شکار ہے،اسی بوکھلاہٹ میں کچھ ایسا ہوسکتاہے جس سے حالات سب کے ہاتھوں سے نکل سکتے ہیں ۔

بالمقابل قوتوں میں طاقت کی بجائے کمزوری اور ذہنی انتشار کا مقابلہ چل رہا ہے۔ہمیں پھر یاد رکھنا چاہئے کہ یہ سب کچھ موجود صف آراء ایک ہی معاشی،سیاسی،نظریاتی اور ایک ہی نظام کو اپنا قبلہ ماننے والی قوتوں (تمام مسلم لیگوں،پیپلز پارٹی ،تحریک انصاف،جماعت اسلامی ،ایم کیو ایم،اے این پی ،تمام مذہبی اور قوم پرست پارٹیوں کی شکست اور فتح کے لئے بندوبست نہیں کیا جارہا بلکہ یہ تحریکیں ،دھرنے اور نام نہاد انقلابات کی لفاظی اس حقیقی تحریک کے ممکنہ ابھار کا بندوبست کرنے کے لئے کی جارہی ہے جس کو اب حکمران طبقہ‘ بھوک زدہ اور اس نظام کے ستائے ہوئے افراد کے ماتھوں پر پڑھ رہا ہے۔

ان ناٹکوں کا مقصد کچھ ہونے سے پہلے ہی فضا کو دھول زدہ کرکے اصل اور نقل کی پہچان ختم کرنا ہے ۔مگر ان جعل سازیوں اور ڈراموں کے ذریعے سماج میں موجود طبقاتی تضادات اور موجودہ نظام سے نفرت کو کم بھی نہیں کیا جاسکتا اور مسقبل میں اس نظام کے خلاف اٹھنے والی تحریک کو بھی راہ گم گشتہ پر نہیں ڈالا جاسکتا۔جب محنت کش طبقہ تاریخ کے میدان میں نکلے گا تو پھر وہ ان تمام رکاوٹوں کو ایک ہی ساعت میں اڑا کر رکھ دے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :