ہم نہ کہتے تھے۔۔۔۔

جمعہ 24 جولائی 2015

Prof.Riffat Mazhar

پروفیسر رفعت مظہر

ہم نے تواپنے پچھلے کالم میں ہی کہہ دیاتھا کہ ہماری مستقبل کی ”خاتونِ اوّل“ محترمہ ریحام خاں جھوٹ نہیں بولتیں وہ یقیناََ یونیورسٹی کانام بھول گئی ہوں گی۔ اُسی دِن اُنہوں نے ہمارے لکھے کی یوں تصدیق کی کہ اپنے فیس بُک اکاوٴنٹ پرلینزے یونیورسٹی کانام مٹاکر لکھ دیاکہ اُنہوں نے میڈیا جرنلزم میں ماسٹرز نہیں کیا بلکہ2006ء میں کسی دوسرے انسٹی ٹیوٹ سے ایک سالہ ڈپلومہ کیاہے۔

ہم نے جان بوجھ کر اُس انسٹی ٹیوٹ کانام نہیں لکھا کیونکہ ہوسکتاہے کہ کل کلاں ایک دفعہ پھر”بھلکڑ“ ریحام خاں یہ کہہ دیں کہ انہوں نے اِس ادارے سے نہیں بلکہ کسی دوسرے ادارے سے ڈپلومہ کیاتھا اور وہ بھی میڈیا جرنلزم میں نہیں بلکہ ”سلائی کڑھائی“میں۔دراصل یہ برطانوی اخبار”ڈیلی میل“اور ہمارے ”شَرپسند“ الیکٹرانک میڈیاکی مشترکہ سازش اورشرارت ہے جنہوں نے ”ایویں خواہ مخوا“ رائی کاپہاڑ بنادیا۔

(جاری ہے)

پتہ نہیں اِس ”مَرجانی“ڈیلی میل کو دوسروں کے گھروں میں جھانکنے کی عادتِ بَدسے کب چھٹکارا ملے گا۔بات صرف اتنی سی کہ”قومی بھابی“ریحام خاں نے اپنی ”ٹہورشہور“ جمانے کے لیے فیس بُک پراپنی ایجوکیشن کے بارے میں لکھا جس پر ڈیلی میل نے افسانہ گھڑ دیااور ہمارے ”ویہلے“الیکٹرانک میڈیانے کھڑاک پہ کھڑاک۔
شنیدہے کہ نوازلیگئے اب اِس ”ٹوہ“میں ہیں کہ کہیں ریحام خاں کی بی اے کی ڈگری بھی جعلی تو نہیں؟۔

ہمیں یقین کہ لیگیوں کو مُنہ کی کھانی پڑے گی کیونکہ ریحام خاں نے پشاورسے بی اے کی ڈگری حاصل کی اورآجکل وہ خیبرپختونخوا کی ”خاتونِ اوّل“ہیں ۔اِس لیے کسی مائی کے لال کی یہ مجال کہاں کہ وہ اُن سے ٹکرلے سکے۔ سچی بات ہے کہ ریحام خاں کی مقبولیت کودیکھ کرہم تویہ اندازے باندھ بیٹھے ہیں کہ ہوسکتاہے اگلی مرتبہ وہ وزارتِ عظمیٰ کی مسندِزریں پہ وہی جلوہ فگن ہوں اور انتہائی محترم کپتان صاحب ”گھرگرہستی“ سنبھالتے نظرآئیں۔

اگرمحترمہ بینظیر پاکستان کی وزیرِاعظم اورجنابِ آصف زرداری ”مردِاوّل“ ہوسکتے ہیں توپھر محترمہ ریحام خاں وزیرِاعظم کیوں نہیں؟۔ ہم نے یہ بزرجمہری اندازہ محض ایک واقعے سے لگایا۔ ہوایوں کہ کپتان صاحب جمعے کے روزعیدالفطر بنّوں کے آئی ڈی پیزکے ساتھ مناناچاہتے تھے لیکن بُراہو موسم کاجو اُن کی راہ میں سدّّ ِسکندری بن کرکھڑا ہوگیا۔

پہلے بھی خراب موسم ہی کی بناپر لاہور ایئرپورٹ پرخاں صاحب کاہیلی کاپٹر اِدھراُدھر ”پھَڑپھڑاتا“ رہااِس لیے محتاط کپتان صاحب نے توبنّوں جانے کاارادہ ترک کردیا لیکن قومی دردرکھنے والی ریحام خاں کاارادہ متزلزل نہ ہوسکا۔ وہ جان ہتھیلی پررکھ کرپروٹوکول کی 16 گاڑیوں اور 450 سپاہیوں کے جلَومیں بنّوں جا پہنچیں۔ ایسی قومی دردرکھنے والی خاتون کا وزارتِ عظمیٰ کے منصبِ جلیلہ پرفائز ہونے کاحق توبنتا ہے دوستو! ۔


محترمہ ریحام خاں کی بے پناہ مقبولیت کودیکھ کرنوازلیگئے توجَل بھُن کر”سیخ کباب“ہی ہوگئے ۔اُنہیں اور کچھ نہ سوجھی تواُن کے پیٹوں میں یہ مروڑاُٹھنے لگے کہ آخرپروٹوکول کی 16 گاڑیوں اور 450 سپاہیوں کی کیاضرورت تھی ۔ عرض ہے کہ یہ امیرالمومنین حضرت عمر کادَور نہیں کہ مسجدِنبوی میں جھاڑو دیتے دیتے تھک جائیں تو وہیں چٹائی پرلیٹ کرسو جائیں، کوئی محافظ نہ کوئی دربان۔

یہ اکیسویں صدی ہے جس کے اپنے تقاضے ہیں اوراوّلین تقاضہ نمودونمائش۔ اگرسبھی اِس بہتی گنگامیں ہاتھ دھورہے ہیں تو پھرمستقبل کی وزیرِاعظم یا کم ازکم ”خاتونِ اوّل“ریحام خاں کیوں نہیں۔ دراصل یہ سب کیادھرااِن استحصالی مردوں کا ہے جن کو”ٹھنڈے پیٹوں“ کسی خاتون کی مقبولیت ہضم ہی نہیں ہوتی ۔یقیناََ این جی اوز کی خواتین اِس معاملے پرمتحرک ہوتیں لیکن آجکل وہ بیچاری تو خود گرفتارِبَلا ہیں کیونکہ چودھری نثاراحمد نامی ایک” استحصالی مَرد“ اُن کے پیچھے ”لَٹھ“ لے کرپڑا ہے۔

چودھری نثار کوتو رکھیئے ایک طرف ،اب توچیونٹیوں کے بھی پَرنکل آئے ہیں۔خواتین سے بغض ،عداوت اورکینہ رکھنے والاشیخ رشیداحمد کہتاہے ”میں عمران خاں کی ڈگری کی صفائی تودے سکتاہوں لیکن ریحام خاں کی ڈگری کی نہیں“۔ یہ وہی شیخ رشیدہے جوہر وقت اورہر جگہ ہمارے کپتان صاحب کا ”بغل بچہ“بنا پھرتاہے لیکن جہاں ریحام خاں کا ذکرآیا وہاں وہ بھی طنزکے تیرچلانے سے بازنہ آیا۔

بندہ پوچھے کہ اُس سے صفائی مانگی کس نے ہے اوراُس کی گواہی کی ریحام خاں جیسی ”قَدآور“ شخصیت کے سامنے حیثیت ہی کیاہے؟۔ جب کپتان صاحب نے خودہی ایک ٹاک شو میں یہ وضاحت کردی کہ ڈگری ڈگری ہوتی ہے ،اصلی یانقلی ہونے کاسوال توتب اُٹھے جب اُس ڈگری کی بنیادپر کوئی ملازمت حاصل کی جائے ۔اگرریحام خاں کی ڈگری جعلی ہوتی توبی بی سی والے ہی اسے نکال دیتے اِس لیے ریحام خاں کی ڈگری” اصلی“ ہے۔

خاں صاحب کی اِس ”ارسطوانہ“وضاحت کے بعدتو بحث کی کوئی گنجائش ہی نہیں بچتی ۔طنز کے تیرچلا نے والوں سے پوچھاجا سکتاہے کہ اگربابراعوان جیسے لوگ کسی ”نامعلوم“ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرکے تادم ِ تحریر”ڈاکٹر بابراعوان “ کہلاسکتے ہیں توپھرریحام خاں کی ڈگری پرشورِقیامت کیوں؟۔ شنیدہے کہ بابراعوان توپی ایچ ڈی کی 2 ڈگریاں لے کرآئے تھے ،ایک خودرکھ لی اوردوسری رحمٰن ملک صاحب کی خدمت میں بطور ہدیہ پیش کی لیکن ملک صاحب نے یہ ڈگری لینے سے انکارکر دیاکیونکہ اُن کے پاس توپہلے ہی ایسی ڈھیروں ڈھیر ڈگریاں پڑی تھیں۔

اب پتہ نہیں بابراعوان صاحب نے یہ ڈگری کِس کوفروخت کی۔بات شیخ رشیدصاحب کی ہورہی تھی لیکن بات سے بات یوں نکلی کہ کسی اور طرف ہی چلی گئی ۔ہم کہہ رہے تھے کہ شیخ رشیدصاحب کے کہے کی کوئی حیثیت نہیں کیونکہ اُنہوں نے تویہاں تک کہہ دیا ”پرویزمشرف کادَور اِس جمہوری دَورسے بہترتھا ،وہ کرپٹ نہیں تھے۔ سپیکرقومی اسمبلی ایازصادق کے دن گنے جاچکے ،الیکشن کمیشن کافیصلہ سامنے آتے ہی عمران خاں لالک چوک میں کھڑا ہوگا۔

اکتوبراور نومبرتبدیلی کے لیے اہم مہینے ہیں“۔ عرض ہے کہ بلی کوہمیشہ چھیچھڑوں کے خواب ہی آتے ہیں۔ پہلے نوازلیگ اورپھر قاف لیگ میں وزارتوں کے مزے لوٹنے والے شیخ رشیدکو وہ ”سنہرے دِن“ بھلائے نہیں بھولتے جب وہ پروٹوکول کے مزے لوٹاکرتے تھے۔ آجکل تووہ لال حویلی کے ”تھَڑے“پربیٹھے سموسے پکوڑے کھاتے پائے جاتے ہیں لیکن سمجھتے وہ اب بھی اپنے آپ کو ”وزیرشزیر“ہی ہیں۔

جب سے اُن کاوزارتوں سے ناطہ ٹوٹاہے وہ ایسی ہی پیشین گوئیاں”پھڑکا“کر”دَل پشوری“کرتے رہتے ہیں۔ ہم تواُنہیں یہی مشورہ دیں گے کہ وہ فال نکالنے والاطوطا لے کرکسی فُٹ پاتھ پربیٹھ رہیں۔جتنے چَرب زبان وہ ہیں، وثوق سے کہاجا سکتاہے کہ اُن کایہ کاروبار خوب چمکے گا۔لال حویلی والے نے یہ توکہہ دیاکہ اکتوبرنومبر اہم مہینے ہیں لیکن نہ تواُنہوں نے سال بتایا اورنہ ہی یہ کہ اُن کے نزدیک یہ مہینے اہم کیوں ہیں؟۔

ویسے توہم بھی پیشین گوئی کرسکتے ہیں کہ اکتوبرنومبر 2017ء انتہائی اہم مہینے ہوں گے کیونکہ اِن دنوں عام انتخابات کی آمدآمد ہوگی اورسیاسی سرگرمیاں عروج پر۔ شیخ صاحب نے آمریت کوجمہوریت پرترجیح دیتے ہوئے دَورِمشرف کی تعریف بھی کی اورساتھ ہی یہ بھی کہہ دیاکہ پرویزمشرف کرپٹ نہیں تھا۔ سوال مگریہ کہ کیاکبھی کسی نے کسی گورنمنٹ ملازم کو کروڑوں ،اربوں میں کھیلتے دیکھا؟۔

اگرنہیں توپرویزمشرف کے پاس اتنی دولت کہاں سے آئی؟۔ دراصل لال حویلی والے کوکہیں سے بھنک پڑگئی کہ نوازلیگ سمیت دیگرسیاسی جماعتوں سے نکلے یانکالے گئے لوگ پرویزمشرف کی سربراہی میں”متحدہ مسلم لیگ“ تشکیل دے رہے ہیں۔ شیخ صاحب کواور کوئی جماعت تو ”قبولنے“ کوتیار نہیں اسی لیے اُنہوں نے سوچاہوگا کہ شاید آمر پرویزمشرف کی ”کاسہ لیسی“ کرنے سے ”کام“بن ہی جائے۔اُدھرکپتان صاحب بھی آجکل شیخ صاحب کوکَم کَم ہی ”لفٹ“کرواتے ہیں اِس لیے اُنہوں نے کہیں نہ کہیں تو زانوئے تلمذ تہ کرنا ہی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :