چورمچائے شور

منگل 6 اکتوبر 2015

Prof.Riffat Mazhar

پروفیسر رفعت مظہر

30 ستمبرکو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے جامع خطاب کے دَوران وزیرِاعظم میاں نواز شریف نے بھارت کوچار نکاتی امن ایجنڈے کی پیش کش کرتے ہوئے فرمایاکہ سیاچن سے غیرمشروط فوجی انخلاء کیاجائے ،کشمیرکو غیرفوجی زون بنایاجائے ،دونوں ملک کنٹرول لائن پرسیزفائر معاہدے کی پابندی کریں ا ور دونوں ممالک ایک دوسرے کودھمکیاں دینے اور طاقت کے استعمال سے گریزکریں۔

اُنہوں نے کنٹرول لائن پراقوامِ متحدہ کے مبصر گروپوں کو مزید فعال بنانے کی ضرورت پربھی زوردیااوریہ بھی فرمایاکہ پاکستان اوربھارت تنازعات کے حل کے لیے جامع مذاکرات کاسلسلہ شروع کریں ۔ دَرجوابِ آں غزل بھارت کی وہی ”میں نہ مانوں“ کی رَٹ حالانکہ میاں نواز شریف صاحب کے چاروں نکات حقیقت پسندانہ ہیں لیکن چونکہ بھارت کے پاس اِن نکات کاکوئی جواب نہیں تھااسی لیے اُس نے اِنہیں مستردکر دیا ۔

(جاری ہے)

میاں نواز شریف صاحب نے کشمیرکوجو ”غیرفوجی زون“ بنانے کامشورہ دیا ،پرویزمشرف کے دَورِحکومت میں دونوں ممالک کشمیرکو غیرفوجی زون بنانے پرمتفق بھی ہوچکے تھے لیکن اب بھارت مُکرگیا۔سینکڑوں انسانی جانوں کو بغیرکسی جنگ کے نگلنے والے دُنیاکے بلندترین محاذسیاچن سے فوجوں کے اِنخلاء کی تجویز بھی انتہائی مناسب کہ یہ انخلاء دونوں کے مفادمیں ہے کیونکہ فوجوں کی موجودگی کی بناپر سیاچن گلیشیئرپگھل رہاہے جوخطے کے ماحولیات کے لیے شدید نقصان دہ ہے لیکن ”اکھنڈبھارت“ جیسے احمقانہ خواب دیکھنے والوں کی سمجھ میں بھلا یہ مدبرانہ تجاویزکیسے آتیں؟۔

میاں نواز شریف کے خطاب کے دوران بھارتی ”شُرلی“ وزیرِخارجہ سُشماسوراج غصّے سے باربار پہلو بدلتی رہی اوربالآخر لال پیلی ہوتی یہ شُرلی دَورانِ خطاب ہی اُٹھ کرباہر چلی گئی۔ اگلے دِن اُس نے جنرل اسمبلی میں اپنے دِل کی بھڑاس خوب نکالی کیونکہ سیلفیاں بنوانے کے شوقین مخبوط الحواس نریندرمودی توپہلے ہی مختلف تقریبات میں غلط سلط انگریزی” جھاڑ“ کر نیویارک سے ”پھُر“ ہوچکے تھے اِس لیے جنرل اسمبلی سے خطاب کاقرعہ فال سُشماسوراج کے نام نکلا ۔

اُس نے میاں نواز شریف کا چار نکاتی امن منصوبہ مستردکرتے ہوئے میاں صاحب کانام لے کرکہا کہ اُن کے چارنکات کی ضرورت نہیں، نکتہ صرف ایک ہے کہ دہشت گردی ختم کرکے بات چیت شروع کریں۔ پاکستان سے مذاکرات صرف بھارت کی شرائط اورایجنڈے کے مطابق ہوں گے۔ اُس نے بھارتی موٴقف کااعادہ کرتے ہوئے کہا” 2008ء کے ممبئی حملوں کے بارے میں بھارت جانتاہے کہ اِن کے پیچھے کون تھا۔

جوممالک دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہیں دیتے ہیں اُن سے اُن کے اِس عمل کی بھاری قیمت لی جانی چاہیے۔ ممبئی حملے کے ماسٹرمائنڈ پاکستان میںآ زادی سے گھوم پھررہے ہیں۔ اُن پر مقدمہ چلائیں یا ہمارے حوالے کریں“۔ سشماسراج نے یہ بھی کہاکہ پاکستان نے دہشت گردی کے نیٹ ورکس کے خلاف کریک ڈاوٴن کرنے کی نہ صرف ماضی کی یقین دہانیوں پر عمل نہیں کیا بلکہ پاکستان سے بھارت میں نئے حملے بھی ہوئے۔

اسے کہتے ہیں ”چورمچائے شور“۔ بھارت اپنی خفیہ ایجنسی ”را“کے ذریعے پاکستان میں دہشت گردی پھیلارہا ہے ،کراچی ، بلوچستان اورفاٹا میں بھارت کی دہشت گردی کے ٹھوس ثبوت ڈاکٹرملیحہ لودھی نے اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل کوپہنچا بھی دیئے ہیں لیکن کسی قسم کاکوئی ثبوت نہ ہونے کے باوجود بھارت پاکستان کودہشت گردی میں ملوث کرنے کی ناکام کوشش کررہاہے ۔

ہمارے اربابِ اختیارکو چاہیے تھاکہ وہ کھُل کربھارتی چہرہ دنیاکے سامنے لاتے اورمیاں نواز شریف صاحب کے جنرل اسمبلی سے خطاب سے پہلے بھارتی خفیہ ایجنسی ”را“کے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہونے کے سارے ثبوت اقوامِ عالم کے سامنے رکھتے لیکن سشماسوراج کے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے بعدڈاکٹرملیحہ لودھی نے ”را“ کی ریشہ دوانیوں کی دستاویز بان کی مون کوپیش کی۔

وزیرِ اعظم صاحب کی تقریرسے پہلے اقوامِ عالم کے سامنے بھارتی دہشت گردی کے ثبوت رکھے گئے نہ ہی میاں نواز شریف صاحب نے اپنے خطاب میں اِن کاذکر کیاجس کی ایک ہی وجہ سمجھ میںآ تی ہے کہ شاید وہ اپنے چار نکات پربھارتی ردِعمل دیکھناچاہتے ہوں۔ جب بھارت نے اِن نکات کویکسرمستردکر دیاتو پھریہ ثبوت سامنے لائے گئے جن سے اقوامِ عالم کم ازکم یہ توجان جائیں گی کہ حقیقت پسندانہ رویہ کس کاہے اورغیرحقیقت پسندانہ کس کا۔

دنیاجانتی ہے کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 60 ہزارسے زائدانسانی جانوں اور 10 ہزارفوجی جوانوں کی قربانی دے چکا ،معیشت کاکھربوں روپے کانقصان اِس کے علاوہ جبکہ دوسری طرف بھارت کاسارا انحصار صرف پراپیگنڈے پرہے ۔اُس نے دہشت گردی کے خلاف انسانی جانوں کی قربانی دی نہ معیشت کو جھٹکا لگا۔ وہ ممبئی حملوں میں آج تک کوئی ایک ٹھوس ثبوت بھی پیش نہیں کر سکا ۔

بھارت نے حافظ سعیدصاحب پرالزام دھراتو حافظ صاحب نے بَرملاکہہ دیاکہ وہ دنیاکی کسی بھی عدالت میں پیش ہونے کوتیار ہیں سوائے بھارت کے۔ کشمیرکا مسٴلہ گزشتہ 68 سالوں سے فیصلے کا منتظرہے۔ بھارت خودہی یہ مسٴلہ اقوامِ متحدہ میں لے کرگیااوربھارت کے پہلے وزیرِاعظم پنڈت جواہرلال نہرونے کشمیریوں کے حقِ خودارادیت کوتسلیم بھی کیالیکن اقوامِ متحدہ کی قرارداد پرآج تک عمل نہیں ہوا ۔

وزیرِاعظم میاں نواز شریف صاحب نے بالکل درست کہا”مسٴلہ کشمیرحل نہ ہونااقوامِ متحدہ کی ناکامی ہے ،جھوٹے وعدوں اور سفاک مظالم نے کشمیر کی تین نسلیں اجاڑدیں ۔دوطرفہ حل کی تمام کوششیں ناکام ہوچکیں۔ بھارت کہتاہے کشمیرپر بات نہ کریں ۔ ہمارے لیے ایساکرنا ممکن نہیں ۔پاکستان اورکشمیر صدیوں سے جغرافیائی، مذہبی اور ثقافتی رشتوں سے جڑے ہیں۔

پاکستان کشمیرکو اپنی شہ رَگ سمجھتاہے ۔ 1947ء سے کشمیرپر سلامتی کونسل کی قراردادیں عمل کی منتظرہیں“۔ سپہ سالارجنرل راحیل شریف نے بھی رائل ،یونائٹڈ ،سروسز انسٹی ٹیوٹ لندن سے خطاب کرتے ہوئے ایک بارپھرپوری قطعیت سے کہہ دیاکہ کشمیر برِصغیر کی تقسیم کا نامکمل ایجنڈا ہے اوریہ تب تک مکمل نہیں ہو گا جب تک کشمیرکا مسٴلہ حل نہیں ہوجاتا۔حرفِ آخریہ کہ اگربھارت پُرامن پڑوسیوں کی طرح رہناچاہتا ہے تواُسے اپنے دماغ سے چودھراہٹ کاخناس نکال کر تمام متنازع امورکے حل کے لیے بِنا کسی پیشگی شرط کے مذاکرات کی میزپر آنا ہوگا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :